جمعرات ، 4 ربیع الاول 1445ھ، 21ستمبر 2023ئ

ورلڈ کپ: پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان وارم اپ میچ تماشائیوں کے بغیر ہو گا 
اسکی بڑی وجہ وہی بھارت کا خبث باطن ہے۔ بھارتی حیدر آباد میں ہونے والا پاکستان اور نیوزی لینڈ کا وارم اپ میچ 29 ستمبر کو ہونے والا ہے۔ جس کے لیے بھارتی پولیس نے ہاتھ کھڑے کر دئیے ہیں کہ وہ اس میچ کی سکیورٹی نہیں دے سکتے۔ اس لیے خریدی گئی ٹکٹیں واپس کرنا ہوں گی اور یہ میچ بند سٹیڈیم میں تماشائیوں کی موجودگی کے بغیر ہو گا۔ اب ان کا بہانہ یہ ہے کہ دن مسلمان عید میلاد النبیﷺ منا رہے ہونگے اور ہندو گنیش و سرجن کا تہوار منا رہے ہوں گے جس کی وجہ سے پولیس رات گئے تک مصروف ہو گی۔ یہ تو وہی پرانا بہانہ ہے۔ گھسا پٹا عذر ہے۔ ورنہ ریزور پولیس ہر صوبے کے پاس موجود ہوتی ہے۔ اس کے 2 ہزار سپاہی ہی کافی تھے۔ ویسے بھی اگر میچ میں سکیورٹی پولیس نے دینی تھی تو انہوں نے کونسی سارے شہر کی یا صوبے کی پولیس سٹیڈیم میں تعینات کرنی تھی۔ اب عالمی کرکٹ کونسل والوں کو اس عذر پر دھیان دینا چاہیے کہ جب پاکستان تمام تر حالات کے باوجود اپنے ملک میں مکمل سکیورٹی کے ساتھ ایشیا کپ اور ورلڈ کپ کے مقابلوں کی میزبانی کے لیے تیار تھا تو اس کی بات کیوں نہ مانی گئی سب سے زیادہ شور بھارت نے ہی مچایا تھا۔
اب بھارت خود ڈر رہا ہے اپنے ہاں ہونے والے میچوں کو سکیورٹی دینے سے قاصر ہے تو پھر اس کی گوشمالی بھی کی جانی چاہیے۔ اسے رعایت کیوں دی جاتی ہے۔ یہ جان بوجھ پاکستان کے ساتھ ہتک آمیز رویہ رکھنے کی کوشش ہے۔ تاکہ اس کے کھلاڑیوں کا مورال خراب ہو۔ ہمارے کھلاڑیوں کو چاہیے کہ وہ اس بھارتی بدنیتی کے جواب میں بھرپور سپورٹس مین سپرٹ کا مظاہرہ کریں اور خوب ڈٹ کر کھیلیں۔ 
پورے پاکستان کی طاقت 5 لوگوں کے پاس ہے۔ مصطفی کمال 
اب لگتا ہے مصلحتاً انہوں نے صرف حکمرانی کرنے والوں کا نام لیا کہ ایک وزیر اعظم اور 5 وزرائے اعلیٰ تمام اختیارات پر قابض ہیں۔ ورنہ یہ مسئلہ تو میری جاں بڑی تکرار کا ہے۔ کون کون اختیارات کا حامل ہے۔ کس کس کے پاس کتنا اختیار ہے۔ یہ سب جانتے ہیں۔ مگر وہی مرزا رسوا والی بات ہے 
ہم بھی ہیں مختار لیکن اس قدر ہے اختیار 
جب ہوئے مجبور قسمت کو برا کہنے لگے 
یہ بات مصطفی کمال بھی جانتے ہیں کہ بہت سی مقتدر قوتوں کے سامنے کسی کی زبان نہیں چلتی ہر حکمران تمام اختیارات کو اپنی ذات میں جمع کر کے جو چاہے کہہ سب اس کے آگے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بعض پارٹیوں کے سربراہ بھی قطبی ستارہ بن کر خود کو رہنما و رہبر قرار دیتے ہوئے ذہن سازی کرتے ہیں وہ بھی ایسی کے ان کے ماننے والے ان کے علاوہ سب کو قابل گردن زدنی سمجھتے ہیں۔ خود مصطفی کمال کے لندن والے بھائی جب ایم کیو ایم کے چیئرمین تھے تو وہ باقاعدہ روزانہ کی بنیاد پر جلسے اجلاس اور تقاریر کر کے ایسے سماں باندھتے کہ سننے والے ان کے کہنے پر دن کو دن اور رات کو رات کہتے پھرتے تھے ان کے ایک اشارے پر جان لیتے اور جان دیتے تھے۔ مگر دیکھ لیں پھر وقت ان کی رعونت پر بھی خاک ڈال گیا۔ یہی حال پی ٹی آئی کے چیئرمین کا بھی تھا مگر وہ بات کہاں مولوی مدن جیسی۔ لندن والے بھیا کی علیحدہ اندھیر نگری تھی۔ ان کے خلاف بولنا تو درکنار سوچنا بھی ڈرل مشین کی آزمائش سے دوچار کر دیتا تھا۔ جب تک شخصیت پرستی ہمارے ہاں موجود رہے گی یہ المیہ جاری رہے گا۔ لوگ اسی طرح اپنے اپنے سیاسی غیر سیاسی بتوں کو گلے سے لگائے احترام کے نام پر ان سے پرستش کی حد تک محبت کریں گے تو پھر اختیارات خودبخود ان کی ذات میں ہی جمع ہوں گے۔ کسی اور کے پاس تو نہیں جائیں گے۔ 
آزاد کشمیر میں 2 لاکھ صارفین نے بجلی بل ادا نہیں کیا 
ابھی تو یہ آزاد کشمیر کی حد تک باغیانہ بل جمع نہ کرانے کی روش نے سر اٹھایا ہے۔ اگر یہ سلسلہ آگے پھیلتا گیا تو کیا ہو گا جو کام پی ٹی آئی کا چیئرمین اپنی مقبولیت کے نصف النہار پر کھڑا ہونے کے باوجود سرعام جلسے میں بل جلا کر بجلی ادا نہ کرنے کا حکم دے کر نہ کرا سکا۔ وہ اب خودبخود بھاری بلوں کو دیکھ لوگ کرنے پر آ گئے ہیں اس سلسلے میں انہیں کسی کی ہدایت بھی نہیں مل رہی۔ ازخود چلنے والی عوامی تحریکیں زیادہ خطرناک ہوتی ہیں کیونکہ کسی جماعت کے زیر اہتمام چلنے والی تحریک کو اس کے رہنما کنٹرول کر لیتے ہیں۔ مگر یہ جو عوامی سیلاب ازخود کوچہ و بازار میں بہہ نکلتا ہے تو واقعی یہ تنکوں سے ٹالا نہیں جاتا نہ ہی ان کے آگے بند باندھا جا سکتا ہے۔ یہی صورت حال اس وقت آزاد کشمیر ہے۔ جہاں پہلے ہی لوڈشیڈنگ کا سلسلہ دراز تر ہے۔ اب منگلا ڈیم کی تعمیر کے وقت ان سے جس مقدار میں بجلی مفت یا ازاں نرخوں پر فراہم کرنے کا معاہدہ ہوا تھا اس پر نہ پہلے عمل ہوا نہ اب ہو رہا ہے تو ان کا غصہ اب اس لیے ابل پڑا ہے کہ ان میں بھاری بل جمع کرانے کی سکت ہی نہیں ہے۔ وہ زیادہ تر بجلی چوری بھی نہیں کرتے ہیں۔ سو اب 2 لاکھ صارفین نے اس ماہ کے بجلی بل ادا نہیں کئے اور پورے آزاد کشمیر میں اس حوالے سے احتجاج جاری ہے۔ حکومت اس چنگاری کو شعلہ بننے نہ دے کیونکہ اس سے سب سے زیادہ خوشی ہمارے دشمن بھارت کو ہو گی اور نہیں تو کچھ کم از کم حکمران اپنے وعدوں اور معاہدوں کا ہی احترام کریں اور آزاد کشمیر والوں کو تھوڑی بہت رعایت ضرور دیں۔ 
لندن پولیس میں سینکڑوں کرپٹ اہلکاروں کی موجودگی کا انکشاف 
چلیں جی اب وہ لوگ کیا کہیں گے جو دن رات برطانوی پولیس کی مدح سرائی میں مگن رہتے ہیں۔ پوری دنیا کے لیے اسے ایک قابلِ تقلید ماڈل قرار دیتے ہیں۔ بے شک ایسا تھا کبھی مگر اب ایسا نہیں اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اب برطانیہ میں ہر جگہ ایشیائی دندناتے پھر رہے ہیں۔ وہاں لگتا ہے براﺅن اور کالے ایشیائی وہاں کے آبائی گوروں کے برابر ہو چکے ہیں۔ یقین نہ آئے تو الیکشن کے نتائج دیکھ لیں۔ سب سے بڑھ کر اس وقت برطانیہ کا وزیر اعظم ایک ایشیائی ہے۔ کیا وہاں گوروں کا کال پڑ گیا ہے کہ انہیں اب وزارت عظمیٰ کے لیے کوئی چرچل یا مارگریٹ تھیچر میسر نہیں۔ اب اسی نسلی اختلاط کی وجہ سے شاید وہاں بھی گوروں کا مزاج بدل رہا ہے۔ اخلاقیات روبہ زوال ہو رہی ہیں جو پہلے ہی مادر پدر آزادی کی وجہ سے بری حالت میں ہے۔ 
اب برطانیہ کے دارالحکومت لندن کی پولیس میں ایک دو نہیں سینکڑوں پولیس اہلکاروں کے خلاف کرپشن کی انکوائری ہو رہی ہے۔ 100 اہلکار برطرف ہو چکے ہیں۔ 275 کے خلاف مقدمات درج ہیں۔ 860 اہلکاروں کی ڈیوٹیاں محدود کر دی گئی ہیں۔ یہ صرف ایک سال کی رپورٹ ہے۔ یہ نہایت افسوس کی بات ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کرپشن اور اختیارات کا ناجائز استعمال پولیس والوں کے دماغ میں آ جائے تو پھر وہ انصاف اور قانون کی زیادہ پاسداری نہیں کرتے اور عوامی سطح پر ان کے خلاف آواز بلند ہوتی ہے۔ یہ تو شکر ہے برطانیہ میں چیک اینڈ بیلنس کا سخت نظام موجود ہے انتظامیہ اور قانون کی گرفت سخت ہے۔ اب یہ ہزار کے لگ بھگ کالی بھیڑوں کو سزا ملے گی تو باقی سب خودبخود صحیح ہو جائیں گے۔ یہی اس نظام اور معاشرے کی خوبی ہے کہ قانون سب کے لیے برابر ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...