
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ بلوچستان صدیوں سے مسائل کا شکار چلا آرہا ہے جس میں سب سے بڑا مسئلہ غربت اور پس ماندگی ہے۔ جب ہم بلوچستان میں غربت اور پس ماندگی کی بات کرتے ہیں تو پھر اس تلخ حقیقت کو بھی مدنظر رکھا جانا چاہیے کہ یہ مسائل صرف نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے بلوچ عوام کیلئے ہیں، ان کا تعلق چاہے کسی بھی قبیلے سے ہو پس ماندگی اور غربت بلوچ عوام کا مقدر رہی ہے ۔ ایسا نہیں کہ سندھ ، خیبر پختونخواہ یا پنجاب میں عوام الناس اسی طرح کے مسائل سے دوچار نہیں ، نچلی سطح پر پس ماندگی و غربت باقی صوبوں میں بھی ہے لیکن وہاں تعلیم و روزگار کے بہتر مواقعوں کی وجہ سے ترقی کے بہت سے ثمرات عوام الناس تک پہنچ ہی جاتے ہیں ۔ اس کے برعکس صوبہ بلوچستان میں سارے حقوق صرف بلوچ سرداروں اور ان کی آل و اولاد کیلئے مختص ہیں۔ جس کی بڑی وجہ وہاں تعلیمی اداروں کا فقدان اور موجود درسگاہوں تک نچلے طبقات کی رسائی نہ ہونا ہے ۔ حالانکہ بلوچستان کی صوبائی حکومتوں کو قیام پاکستان کے وقت سے نہ تو کبھی فنڈ ز کی کمی رہی ہے نہ ہی وفاق نے تعلیم و صحت کے سلسلے میں بلوچستان کی ضروریات کو پورا کرنے میں کبھی بخل سے کام لیا ہے ۔ ہاں البتہ بلوچ عوام کو تعلیم سے آراستہ کرنا بلوچستان کی حکمران اشرافیہ کی ترجیح نہیں رہی۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچ نوجوان ترقی کی راہ میں باقی صوبوں کے نوجوانوں سے پیچھے رہ گئے جو بدقسمتی سے ملک دشمن عناصر کے ہاتھ چڑھ کر پاکستان کی سلامتی کے خلاف بطور ایندھن استعمال ہوتے رہے ہیں۔ انہیں پنجاب اور پاک فوج کے خلاف ورغلایا گیا ۔ انہیں سمجھایا گیا کہ جب تک بلوچستان پاکستان سے الگ نہیں ہوگا ۔ بلوچ عوام یوں ہی پس ماندہ اور غربت کا شکار رہیں گے۔
یہی پروپیگنڈہ تھا جسے بروئے کار رلاتے ہوئے ملک دشمن قوتوں نے بلوچستان کو طویل عرصہ تک خون میں نہلائے رکھا ۔ تاہم اب صورت حال بدل رہی ہے پاک فوج نے ایک طرف ملک دشمنوں کے صفایا کیلئے بلوچستان میں لڑی جانے والی مشکل ترین جنگ کے ذریعے وہاں امن ومان بحال کیا تو ساتھ ہی بلوچ نوجوانوں کو تعلیم سے آراستہ کرنے کیلئے بلوچستان کے پس ماندہ اضلاع میں تعلیمی اداروں کے علاوہ ہنر مندی سکھانے والے مراکز بھی قائم کیے۔ابتدا میں ان تعلیمی اداروں کے خلا ف پاک فوج کو شدید مزاحمت کا سامنا رہا ۔ دہشت گردوں کی کوشش تھی کہ وہ کسی طرح ان درسگاہوں کو نشانہ بناسکیں لیکن مضبوط حفاظتی حصار اور موثر انٹیلی جنس کے ذریعے دہشت گرد اپنے ناپاک عزائم میںکامیاب نہ ہوسکے۔ اور اب صور ت حال یہ ہے کہ سالانہ سینکڑوں بلوچ نوجوان ان تعلیمی اداروں سے علم حاصل کرنے کے بعد مختلف نجی و سرکاری اداروں میں ملازمتیں حاصل کر کے باعزت زندگی گزارنے کے قابل ہو چکے ہیں۔ اتنا ہی نہیں پاک فوج کے خلاف ماضی میں بھرپور پروپیگنڈہ مہم چلائی جانے کے باوجود آج کے بلوچ نوجوانوں کیلئے تعلیم حاصل کرنے کے بعد پاک فوج میں کمیشن یاملازمت ان کی پہلی ترجیح بن چکی ہے۔ ان کے اس شوق اور دلچسپی کی مدنظر رکھتے ہوئے پاک فوج میں بھرتی کیلئے بلوچستان میں عمر کی بالائی حد میں خصوصی چھوٹ دینے کے علاوہ بھی دیگر بہت سی شرائط میں نرمی کی گئی ہے۔
بلوچستان سے حاصل ہونے والی تفصیلات کے مطابق ملٹری کالج سوئی سے پاکستان ملٹری اکیڈمی (پی ایم اے)میں انتخاب کا تناسب 51فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ ملٹری کالج سوئی سے گریجوایشن کرنے والے بلوچستان کے 38کیڈنس اس وقت پی ایم اے میں زیر تربیت ہیں اور اب تک ملٹری کالج سوئی کے 144کیڈٹس پاک فوج میں کمیشن حاصل کر چکے ہیں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ اپریل 2023میں 147ویں پی ایم اے لانگ کورس کے پاس آﺅٹ ہونے والے کیڈنس میں سے 45کا تعلق بلوچستان سے تھا ۔ جبکہ 8اگست 2023کو ایف سی بلوچستان کے ریکروٹس کا 67واں بیچ ایف سی ٹریننگ سنٹر لورالائی سے پاس آﺅٹ ہوا تو اس میں بلوچستان سے 316بلوچ ریکروٹس شامل تھے۔ یوں 2021سے اب تک 4804بلوچ نوجوان پاکستان کے تحفظ کیلئے ایف سی بلوچستان کا حصہ بن چکے ہیں۔ اور اگر گزشتہ چند برسوں میں پاک فوج کے علاوہ سیکورٹی کے دیگر اداروں میں اعلیٰ عہدوں تک ترقی پانے والے بلوچ افراد کی فہرست مرتب کی جائے تو یہ تعداد سینکڑوں میں بنتی ہے۔ جس میں ایف سی لیوپیز ، پولیس اور سی ٹی ڈی جیسے حساس ادارے شامل ہیں۔ ویسے بھی ان محکموں میں بھرتی کیلئے زیادہ تر مقامی علاقوں کے نوجوانوں کو ترجیح دی جارہی ہے۔
پاک فوج میں بھرتی کیلئے بلوچستان کے نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی اسی دلچسپی کے پیش نظر مسلح افواج میں بلوچستان کا کوٹہ بڑھادیا گیا ہے۔ ا س سے ظاہر ہوتا ہے کہ اعلیٰ قیادت بلوچستان سے زیادہ سے زیادہ افسران اور سپاہیوں کو بھرتی کرنے کا عزم رکھتی ہے۔ اس کی ایک وجہ پاک فوج اور سیکورٹی کے دیگر اداروں میں بھرتی کے بعد ان کی پیشہ وارانہ لگن کے علاوہ ماضی میں بلوچ نوجوانوں کا پیچھے رہ جانا بھی ہے جس میں ان کا کوئی تصور بھی تھا۔ علاوہ ازیں چند ملک دشمن عناصر کی طرف سے پاک فوج اور پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ بھی ایک بڑی وجہ رہا لیکن صورتحال اس وقت تبدیل ہونا شروع ہوئی جب جنرل مشرف کے زمانے میں پاک فوج نے بلوچستان کے پس ماندہ اور دوردراز کے اضلاع میں تعلیمی اداروں اور ووکیشنل ، ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹس کے قیام کا فیصلہ کیا۔ اس طرح نہ صرف مقامی بلوچ خاندانوں کا پاک فوج پر اعتماد بحال ہوا بلکہ ان کیلئے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوئے تو ان کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا ہونے لگیں۔ یہی وقت تھا کہ جب بلوچ عوام پر بھارت کی سرپرستی پاکستان اور پاک فوج کے خلاف پھیلائے جانے والے منفی پروپیگنڈہ کے حقائق بے نقاب ہوئے اور بلوچ عوام نے یہ احساس جڑ پکڑنے لگا کہ ان کی شناخت اور ان کی آنے والی نسلوں کا مستقبل پاکستان سے وابستہ ہے۔
٭....٭....٭