
گزشتہ دنوں بھارت میں منقعدہ دو روزہ جی۔20 ممالک کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ پر دنیا کے ماہرین اقتصادیات کے تجزیوں اور برطانوی اخبارات میں تبصروں کا سلسلہ تاہنوز جاری ہے۔ مودی سرکار کی جانب سے دنیا کے ان 20 معاشی اور اقتصادی طور پر مضبوط ترین ممالک کی میزبانی کے فرائض سرانجام دینے کے بعض دیگر اقتصادی مقاصد کے علاوہ ایک بڑا بنیادی مقصد انڈیا کو جسے آئین میں اب بھارت کے نام سے پکارے جانے کا مبینہ طور پر اعلان کیا جا چکا ہے۔ ان بڑی اور مستحکم معیشتوں میں خصوصی اہمیت دلوا کر مظلوم کشمیریوں اور دیگر اقلیتوں پر ڈھائے مظالم اور انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزیوں پر پردہ ڈالتے ہوئے آئندہ برس مئی 2024ءکو ہونے والے انتخابات میں بی جے پی اور آر ایس ایس کی کارکردگی متعارف کروانا تھا تاکہ مودی کی پی جے پی آئندہ انتخابات میں تیسری مرتبہ بڑی کامیابی سے ہمکنار ہو سکے۔
ایک مو¿قر برطانوی اخبار کے مطابق جی۔20 اجلاس کی میزبانی کو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے آئندہ برس ہونیوالے انتخابات کیلئے اس لئے استعمال کیا ہے تاکہ بھارتی عوام اور بالخصوص اپوزیشن پارٹیوں کو بی جے پی کی بڑھتی مقبولیت کے دباﺅ میں لایا جا سکے۔یہ بات بھی ہمیں اب بغیر کسی شک و شہبے کے کھلے دل سے تسلیم کرنا ہوگی کہ بھارت کو چاند پر لے جانے کے پس پردہ جو خصوصی اقدامات اور امریکی فارمولے طے کئے گئے یہ امریکہ کا بھارت سے دوستی کو مزید استحکام دینے کا پہلا سنجیدہ اقدام ہے جس میں مودی اور بائیڈن یقیناً کامیاب ہوئے ہیں۔ دنیا کے غیرترقی یافتہ‘ غریب اور نادار ممالک میں بسنے والے مظلوموں کے بنیادی حقوق کے دعویدار امریکی صدر کے قول و فعل کا اندازہ آپ انکے جی۔20 اجلاس سے واپس امریکہ جاتے ہوئے ویتنام میں مختصر قیام کے دوران صحافیوں کی جانب سے کئے گئے سوال سے لگا سکتے ہیں کہ دوران کانفرنس بھارت میں اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کے انسانی حقوق کی پامالی کے بارے میں بھارتی حکومت سے کیا۔ انہوں نے وضاحت طلب کی۔ جس پر امریکی صدر بائیڈن نے ”گونگلوﺅں سے مٹی جھاڑتے ہوئے“ جواب دیا کہ وہاں انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے انہوں نے مودی سے بات کی ہے۔
اب اسے آپ حسن اتفاق کہہ لیں کہ بھارت میں منعقدہ جی۔20 کانفرنس کے اختتامی اجلاس کے اگلے ہی روز 12 سے 15 ستمبر 2023ءتک لندن میں منعقدہ دسویں کامن ویلتھ یوتھ منسٹرز کانفرنس کی صدارت کا اعزاز پاکستان کو دیا گیا۔ دولت مشترکہ کے پچاس ممالک سے آئے مندوبین‘ جن میں 40 وزراءاور اعلیٰ شخصیات شامل تھیں‘ شایان شان طریقہ سے یہاں استقبال کیا گیا۔ اس تین روزہ کانفرنس کی صدارت کے فرائض اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے سرانجام دیئے۔ اپنے افتتاحی اجلاس میں انہوں نے نوجوان طبقے کی ملازمتوں کے حصول کیلئے ترقی کے مواقع‘ موسمیاتی تبدیلیوں کیلئے اقدامات‘ تعلیمی مواقع اور ماحولیات کی شدت سے بدلتی صورتحال پر اظہار خیال کیا۔مندوبین کو بتایا کہ بدقسمتی سے پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونیوالی تباہ کاریوں کا شکار ہیں۔ جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ ہمارے 153 ملین نوجوان خوشحال پاکستان کیلئے پرامید ہیں۔ ملک کی 190 یونیورسٹیز میں سے ہر سال تین لاکھ سے زائد نوجوان گریجویشن کر رہے ہیں جبکہ آئی ٹی سیکٹر میں بھی نوجوان کامیابی کی جانب گامزن ہیں۔ برطانیہ میں 16 لاکھ پاکستانی ملک کا قیمتی اثاثہ ہیں ۔
دسویں کامن ویلتھ یوتھ منسٹرز اجلاس کے آغاز پر کامن ویلتھ کی سیکرٹری جنرل پیٹریشا سکاٹ لینڈ نے وزیر خارجہ کا بھرپور استقبال کرتے ہوئے پاکستان کو تین روزہ اس کانفرنس کی صدارت پر کامن ویلتھ ممالک کی جانب سے مبارکباد پیش کی۔ دوران کانفرنس وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے برطانوی منسٹر آف سٹیٹ لارڈ طارق احمد سے پاکستان اور برطانیہ کے مابین دیرینہ دوستانہ تعلقات‘ تجارت‘ تعلیم‘ سرمایہ کاری اور موسمی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے مشترکہ لائحہ عمل پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ اس تین روزہ کانفرنس میں برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر ڈاکٹر محمد فیصل اور ڈپٹی ہائی کمشنر بھی موجود رہے۔وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے سینٹ جیمز پیلس میں ڈیوک آف ایڈنبرا پرنس ایڈورڈ سے بھی خصوصی ملاقات کی۔ کانفرنس میں ٹاسک فورس کے قیام پر اتفاق ہوا۔ یوتھ پروگرامز کے تحت پاکستان کو تعلیم‘ ماحولیات اور ملازمتوں سمیت چار شعبوں میں 80 بلین روپے فنڈز مہیا کئے گئے۔ تین روزہ کانفرنس کے اختتام پر پاکستان کے ہائی کمشنر ڈاکٹر محمد فیصل اور وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے ہائی کمشن میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا اور پاکستانی میڈیا نمائندوں کے سوالوں کے جواب دیئے۔