شنگھائی تعاون تنظیم (s.c.o) کا 20 واں سربراہی اجلاس
چوہدری شاہداجمل
chohdary2005@gmail.com
پاکستان نے خطے کے اہم ممالک سے مشاورت کے بعد افغانستان میں مختلف برادریوں کی نمائندگی کرنے والی جامع حکومت کے قیام کے لیے طالبان سے مذاکرات کا آغاز کردیا ہے۔حالیہ دنوں میںتاجکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے 20ویں سربراہی اجلاس کے بعد ان خیالات کا اظہار وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں کیا ہے۔اجلاس کے دوران وزیر اعظم نے ایران، قازقستان، تاجکستان، بیلاروس اور ازبکستان کے سربراہان سے ملاقات کر کے افغانستان کی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔ روسی صدر ولادیمر پوٹن نے ٹیلی فون پر وزیر اعظم عمران خان سے مشاورت کی،پاکستان، طالبان کے قبضے اور عبوری حکومت کے اعلان کے بعد سے افغانستان میںتمام دھڑوں کی اقتدار میں شمولیت پر زور دے رہا ہے اور سمجھتا ہے کہ 40 برس کی لڑائی کے بعد ایسی حکومت ایک پرامن اور مستحکم افغانستان کی ضامن ہوگی جو محض افغانستان ہی نہیں بلکہ خطے کے مفاد کے ساتھ بھی منسلک ہے۔ان ملاقاتوں میں ہو نے والی مشاورت کی روشنی میں پاکستان کی طرف سے عملی اقدامات کی طرف پیشرفت نظر آنا شروع ہو گئی ہے ۔پاکستان نے افغانستان کے ہمسائیہ ممالک کے سامنے یہ موقف رکھا ہے کہ افغانستان میں پائیدار امن اور استحکام بالآخر خطے کو فائدہ پہنچائے گا،طالبان کو افغانستان میں کیے گئے وعدوں کو پورا کرنا چاہیے اور عالمی برادری کو جنگ زدہ ملک کی عوام کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ اس نازک موڑ پر منفی باتیں پھیلانا یا پروپیگنڈے میں ملوث ہونا دانشمندی نہیں ہوگی، یہ صرف امن کے امکانات کو کمزور کرنے کا کام کرے گا۔کیونکہ تنازع زدہ علاقوں سے باہر کسی بھی دوسرے ملک نے پاکستان سے زیادہ نقصان نہیں اٹھایا ہے، ہم نے 80ہزار سے زائد ہلاکتیں اور 150ارب ڈالر سے زیادہ کا معاشی نقصان اٹھایا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ ایس سی او خطے میں ریل، سڑک، سمندری اور ہوائی روابط کا جال بچھانے سے تجارت، توانائی کے بہاؤ اور لوگوں سے لوگوں کے تبادلے کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔
تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میںافغانستان کے ہمسائیہ ممالک کے درمیان یہ مشاورت ایک ایسے وقت پر ہوئی ہے جب افغانستان میں نئی حکومت تشکیل پا رہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے تاجکستان کے دوروزہ دورے کے موقع پر ایران کے صدر ابراہیم رئیسی تاجکستان کے صدر امام علی رحمن ازبکستان کے صدر شوکت مرزایوف بیلا روس کے صدر الیگزینڈر لوکا شینواورقازقستان کے صدر قاسم جمرات توکایوف سے علیحدہ علیحدہ ملاقات کی جس میں طالبان کی حکومت سے متعلق صلاح مشورے کئے گئے۔افغانستان کے ہمسائیہ ممالک سمجھتے ہیں کہ وژن سینٹرل ایشیاپالیسی کے تحت تمام متعلقہ ممالک سے تعلقات میں اضافہ سب کیلئے فائدہ مند ہوگا۔ پشاور،جلال آباد،کابل ،ترمیزاورمزارشریف کو ملانے کیلئے ٹرانس افغان ریلوے منصوبہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے ،افغان امن کیلئے ہر ممکن کوشش کریں گے۔ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ خصوصا دو بڑی برادریوں پشتون اور تاجک کو قریب لانے اور مخلوط حکومت کے قیام کو یقینی بنانے کیلئے پوری کوشش کریں گے۔عالمی برادری کو افغان عوام کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا چاہئے، انسانی بحران کو ٹالنے میں مدد دینی چاہئے اور معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے اقدامات اٹھانے چاہئیں۔
وزیر اعظم عمران خان اور قازقستان کے صدر کے درمیان ملاقات میںدونوں رہنماؤں نے تجارت، سرمایہ کاری، ٹرانسپورٹ سمیت مختلف شعبوں میں تعلقات کے فروغ پر بات چیت کی۔وزیراعظم عمران خان نے سہ ملکی ریلوے منصوبے کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی، ریلوے منصوبہ ازبک شہر ترمیز سے شروع ہو کر افغانستان کے شہر مزارشریف،کابل، جلال آباد سے ہوتا ہوا پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور تک پہنچے گا۔دونوں رہنماؤں نے اعلی سطح سیاسی روابط کو مزید فروغ دینے پر اتفاق کیا۔وزیراعظم عمران خان نے قازقستان کے صدر کو دورہ پاکستان کی دعوت دی اس موقع پر قازقستان کے صدر نے بھی وزیراعظم عمران خان کو اپنے ملک کے دورہ کی دعوت دی۔اس موقع پر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان اپنی ویژن سینٹرل ایشیا پالیسی کے تحت وسط ایشیائی ریاستوں کیساتھ تعلقات کو وسعت دینا چاہتا ہے، پاکستان وسط ایشیائی ملکوں کو سمندری تجارت کیلئے اپنی بندرگاہوں سے مختصرترین روٹ فراہم کرسکتا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے ایران کے نو منٹب صدر سے بھی ملاقات کی۔ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کے ساتھ ملاقات کے حوالے سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ دونوں رہنماں کی دوشنبے میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے موقع پر غیررسمی ملاقات ہوئی،وزیراعظم عمران خان نے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کو حالیہ صدارتی انتخابات میں کامیابی پر دلی مبارک باد دی۔اس موقع پر وزیراعظم عمران خان نے اپنے معاشی سلامتی کا ایجنڈا اور پاکستان کی جیو پالیٹکس سے جیو اکنامکس میں منتقلی کو اجاگر کیا۔وزیراعظم نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسئلے پر مسلسل تعاون پر ایرانی صدر اور خصوصا سپریم لیڈر کا شکریہ ادا کیا۔افغانستان کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پرامن، مستحکم اور خوش حال افغانستان ہی پاکستان کے مفاد میں ہے 40سال بعد افغانستان میں جنگ اور تنازع کے خاتمے کا ایک حتمی موقع ہے۔انہوں نے کہا کہ افغانستان کی سیکیورٹی صورت حال کو ٹھیک کرنے، انسانی بحران سے بچنے اور معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے ہنگامی اقدامات ضروری ہیں۔انہوں نے افغانستان میں پاکستانی اقدامات کے حوالے سے تعاون کرنے پر ایران کے کردار کو سراہا۔اعلامیے کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کو موقع کی مناسبت سے پاکستان کے دورے کی دعوت دی جبکہ ایرانی صدر نے بھی وزیراعظم کو ایران کے دورے کی دعوت دی۔دوشنبے میں 20ویں شنگھائی تعاون تنظیم کونسل آف ہیڈز آف اسٹیٹ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھاکہ طالبان کو افغانستان میں کیے گئے وعدوں کو پورا کرنا چاہیے اور عالمی برادری کو جنگ زدہ ملک کی عوام کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔
وزیر اعظم عمران نے کہا کہ طالبان کے قبضے اور غیر ملکی فوجوں کے انخلا کے بعد افغانستان میں ایک ’’نئی حقیقت‘‘سامنے آئی۔ان کا کہنا تھا کہ یہ سب کچھ خونریزی، خانہ جنگی اور پناہ گزینوں کے بڑے پیمانے پر ہجرت کے بغیر ہوا۔انہوں نے کہا کہ یہ بین الاقوامی برادری کے اجتماعی مفاد میں ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ افغانستان میں دوبارہ کوئی تنازع نہ ہو اور سیکیورٹی کی صورتحال مستحکم ہو۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ انسانی بحران کو روکنے اور معاشی بحران سے نمٹنے کیلئے فوری طور پر یکساں ترجیحات رکھی جائیں۔انہوں نے کہا سابقہ حکومت غیر ملکی امداد پر بہت زیادہ انحصار کرتی تھی جسے ختم کرنا معاشی تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔انہوں نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کو انسانی امداد کے لیے مدد کو متحرک کرنے پر سراہا ۔وزیر اعظم نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ افغانستان میں پائیدار امن اور استحکام بالآخر خطے کو فائدہ پہنچائے گا۔ پاکستان نے وسطی ایشیا میں اپنے بہت سے شراکت داروں کے لیے سمندر کا مختصر ترین راستہ پیش کیا۔ان کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایس سی او خطے میں ریل، سڑک، سمندری اور ہوائی روابط کا جال بچھانے سے تجارت، توانائی کے بہا اور لوگوں سے لوگوں کے تبادلے کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔وزیراعظم نے ایس سی او سربراہی اجلاس میں آگے بڑھنے کے لیے پانچ نکاتی راستے کی تجویز پیش کی۔انہوں نے علاقائی ریاستوں پر زور دیا کہ وہ مؤثر کثیر الجہتی نظام اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں بشمول ریاستوں کی خودمختاری اور عوام کے حق خود ارادیت، کی حمایت کی تصدیق کریں۔ان کا کہنا تھا کہ 'میں کووڈ 19 وبائی مرض کے منفی معاشی اثرات کو کم کرنے کے لیے اپنی اجتماعی کوششوں کو بھی مضبوط کرنا چاہیے۔وزیراعظم عمران خان نے افغانستان میں صورتحال کو مستحکم کرنے کے لیے ایک مربوط انداز اپنانے پر زور دیا، ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں علاقائی رابطے کے ایجنڈے کو بھی آگے بڑھانا چاہیے۔
عیشۃالراضیہ پیرزادہ
Eishapirzadah1@hotmail.com
16 اور 17 ستمبر کو دنیا کی نظریں دوشنبے میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے 20 ویں سربراہ اجلاس پر جمی ہوئی تھیں۔ 15 جون 2001 کو قائم ہوئی اِس تنظیم کے اجلاس سے ایک روز قبل 15 ستمبر کو چین میں پاکستانی سفارتخانے کی ایک سابق اہم عہدیدار ہمیں بتا رہی تھیںکہ پاکستان اس اجلاس میں افغانستان میں امن کیلئے مخلوط حکومت کا موقف اپنائے گا، اور اس اجلاس کا زیادہ تر فوکس افغانستان میں امن و امان کی صورتحال قائم رکھنے پر ہوگا۔ کل اور آج کے اخبارات کی سرخیاں ہمیں پاکستان کی جانب سے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں دنیا کو افغانستان میں امن و امان کے قیام کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھانے کی تجاویز کی تفصیلات سے آگاہ کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اخبار میں ایک خبر یہ بھی شائع ہوئی ہے کہ "افغانستان کو تنہا چھوڑا تو بحران جنم لیں گے، سب کو مل کر مسئلہ حل کرنا ہوگا"۔یہ وزیراعظم عمران خان کا وہ بیان ہے، جو انہوں نے اس اجلاس سے خطاب میں دیا۔ وزیراعظم کے اس بیان اور تاجکستان میں ان کی خطے کے دیگر ممالک کے سربراہان کیساتھ ملاقات کے دوران منظر عام پر آنیوالی بات چیت سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستانی حکومت پڑوسی افغانستان میں امن و امان کے قیام کیلئے کس قدر گراہ قدر کوششیں کر رہی اور اقدامات اٹھا رہی ہے۔ چین اور روس نے بھی افغانستان میں بہتر حالات کیلئے نئی طالبان حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے وعدے پورے کریں،اپنے ہمسایوں کے ساتھ امن سے رہیں،منشیات کی اسمگلنگ اور دہشت گردی کا خاتمہ کریں۔
وسط ایشیائی ممالک سمیت آٹھ ممالک شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ہیں۔ جبکہ 6 ممالک ترکی، سری لنکا، نیپال، کموڈیا، آذربائیجان آرمینیا شریک مکالمہ ہیں۔ جنوب مشرقی ایشیائی اقوام کی تنظیم یعنی اقوام متحدہ، آزاد ریاستوں کی دولت مشترکہ اور ترکمانستان یہ تین مہمان شرکا ہیں۔ اور ایران، منگولیا ، بیلاروس 4 مبصر ممالک ہیں۔ جن میں چوتھا ملک افغانستان ہے۔ اِسی چوتھے ملک کا مستقبل سنوارنے کیلئے تنظیم کے دو روزہ اجلاس میں خوب بحث رہی۔ چین اور روس 8 رکنی تنظیم کے دو اہم ترین اور بااثر ارکان ہیں۔ دونوں ممالک پر افغانستان کی صورت حال کا براہ راست اثر پڑتا ہے۔ چین کا افغانستان کے استحکام میں نہایت اہم کردار ہے کہ خطے میں بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو ایسا اہم ترین منصوبہ چین کے بین الاقوامی عظیم معاشی منصوبے کا اہم حصہ ہے۔ باقی 6 رکن ممالک میں قازقستان،کرغزستان،تاجکستان، ازبکستان،پاکستان اور ہندوستان شامل ہیں۔ تنظیم کی بیسویں سالگرہ اور اجلاس میں اہم ترین موضوع افغانستان میں تبدیلی کے بعد خطے کی مجموعی صورت حال اور آنے والی مشکلات کو دورکرنے کے لیے اقدامات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
شنگھائی تعاون تنظیم کی بیسویں سالگرہ اور اجلاس میں سب سے گرم اور اہم موضوع "افغانستان میں تبدیلی کے بعد خطے کی مجموعی صورت حال" اور مشکلات کے خاتمے کیلئے ٹھوس اقدامات پر بھر پور تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان تاجکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہان مملکت کے اجلاس میں شرکت کیلئے خود دوشنبے پہنچے۔ اجلاس میں خاص طور پر پاکستان،چین اور روس نے ملکر طالبان سے وعدے پورے کرنے کا مطالبہ کیا۔ چین کے صدر شی جن پنگ اور روس کے صدر ولادی میرپیوٹن نے ویڈیولنک کے ذریعے خطاب کیا۔ چینی صدر شی جن پنگ نے ایس سی او کے رکن ممالک سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں پرامن اقتدار کی منتقلی کو یقینی بنایا جائے، چینی صدر نے خطے میں امن و امان کیلئے اپنے عزم کا ایک بار پھر اظہار کرتے ہوئے افغانستان میں تمام متعلقہ فریقین پر زور دیا کہ وہ اپنی سرزمین سے دہشت گردی کا خاتمہ کریں، اس موقع پر انہوں نے بڑا قدم اٹھاتے ہوئے افغانستان کیلئے مزید امداد ینے کا بھی وعدہ کیا۔ چینی صدر نے افغانستان کی رہنمائی کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کو ایک جامع سیاسی ڈھانچہ تیار کرنے اور معتدل داخلی اور خارجی پالیسیوں پر عمل کرنے کے لیے افغانستان کی راہنمائی کرنی چاہیے۔ اجلاس سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے روس کے صدر ولادی میرپیوٹن نے ایس سی او افغان رابطہ گروپ اور کابل کے درمیان رابطوں کو دوبارہ شروع کرنے کی تجویز دی۔ روسی صدر نے طالبان کے متعلق مثبت سوچ کا اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں طاقت کی منتقلی عملی طور پر بغیر کسی خونریزی کے ہوئی۔انہوں نے طالبان سے وعدے پورے کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اب وہ عملی طور پر پورے افغانستان کو کنٹرول کرتے ہیں،امن کی بحالی، روزمرہ کی زندگی کو معمول پر لانے اور سب کے لیے سیکورٹی فراہم کرنے کے حوالے سے اپنے وعدوں پر عمل کریں۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کی اہم بات پاکستان اور تاجکستان کے درمیان مختلف معاہدوں ٹرانسپورٹ،توانائی، سائنس اور ٹیکنالوجی پر دستخط ہونا ہے۔ ان معاہدوں پر دستخط وزیراعظم عمران خان اور تاجک صدر نے کئے۔ جس سے ملک میں عوامی خوشحالی کا نیا دور آنے کی توقع ہے۔ وزیراعظم عمران خان نیتجارت، سرمایہ کاری اور آپسی روابط کے فروغ کے لئے ایس سی او کے پلیٹ فارم کو بہتر طور پر استعمال کرنے پر بھی زور دیا۔وزیراعظم کی قازقستان کے صدر قاسم جومارٹ، ایران کے صدر ابراہیم رئیسی، ازبکستان کے صدر شوکت مرزیوف اور بیلاروس کے صدر الیگزینڈر سے بھی ملاقاتیں ہوئیں۔ وزیراعظم نے قازقستان کے صدر کے ساتھ سہ ملکی ریلوے منصوبے کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی۔ اور بتایا کہ ریلوے منصوبہ کا روٹ ازبک شہر ترمیز سے شروع ہو کر افغانستان کے شہر مزار شریف،کابل، جلال آباد سے ہوتا ہوا پشاور تک پہنچے گا۔ وزیراعظم نے ایشیائی ریاستوں کو اہم پیشکش کرتے ہوئے کہا پاکستان سنٹرل ایشیا پالیسی کے تحت وسط ایشیائی ریاستوں کیساتھ تعلقات کو وسعت دینا چاہتا ہے، جس کیلئے پاکستان وسط ایشیائی ملکوں کو سمندری تجارت کیلئے اپنی بندرگاہوں سے مختصرترین روٹ فراہم کرسکتا ہے۔وزیراعظم عمران خان نے تاجکستان میں مشترکہ بزنس فورم سے بھی خطاب کیا۔ اور علاقائی و عالمی سرمایہ کاروں کو ہر ممکن سہولیات فراہم کرنے کا اعلان کیا۔