اس شہر کے انداز عجب دیکھے ہیں یارو
زندگی کے نشیب و فراز سے گزر کر میں اس نتیجے پہ پہنچا ہوں کہ کبھی کسی چیز کو خوامخواہ ایشو نہیں بنانا چاہیے۔ اور کبھی بھی چھوٹی لڑائی، چھوٹی بیماری اور چھوٹے قرض کو ایزی نہیں لینا چاہیے۔ میں ے دیکھا ہے کہ انسان بہت خود غرض ہے پسند کرے تو برائی نہیں دیکھتا نفرت کرے تو اچھائی نہیں دیکھتا۔ کبھی کبھی تمام عمر وفاداریوں میں کٹ جاتی ہے انسان اسے عزیز رکھتا ہے جو اس کا ہوتا ہی نہیں ۔ چودھویں صدی آنے کے بعد انسان کی ترجیحات ہی بدل گئی ہیںکہ خود ناحق خون بہا کر پوچھتا ہے یہ جنازہ کس کا ہے۔ پتھر سے کسی نے کہا آئو انسان بن جائو پتھر نے جواب دیا ابھی ہمارے اندر وہ سختی پیدا نہیں ہوئی۔ میں نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ حکومت وقت اکثر بغیر سوچے سمجھے بے وقت کے فیصلے وقت کی نزاکت کو بھانپے بغیر کرتی ہے۔ سختی اور خود غرضی کبھی اچھی نہیں ہوتی۔ کبھی کبھی جب یہ Bake Fireکرتی ہو تو تباہی ہوتی ہے۔ پاکستان اپنی منزل کی طرف بڑھ رہا ہے اور دنیا کی سازشوں کے باوجود اللہ کے فضل سے کامیابیاں سمیٹ رہا ہے۔ ایسے وقت میں ہماری توجہ بیرونی سازشوں پر ہونی چاہیے۔ مگر کبھی کبھی دشمن ایجنٹ قیادت سے بے وقت فیصلے کروا کر اپنا گھنائونا رول ادا کرتے ہیں۔ میڈیا ریاست کا ایک مضبوط ستون ہے مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ایسی حکومت جس کے اندر چھوٹے چھوٹے مافیاز آپس میں لڑ رہے ہوں وہ اس موقع پرمیڈیا کو کنٹرول کرنے کا بل کیسے لا سکتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ میڈیا کو اس طرح کنٹرول نہیں کیا جا سکتا اگر آپ کچھ کر سکتے ہیں تو اپنی کارکردگی بہترین کریں اپنی زبانوں پر کنٹرول کریں اور ریاست کے اداروں سے اچھے ورکنگ ریلیشن بنائیں۔ انسانی فطرت ہے کہ کوئی جب بھی کسی کی عزت نفس کو مجروح کرے گا تو اس کا جواب کسی نہ کسی صورت میں ضرور آئے گا۔ شیشے کے گھر میں بیٹھ کر کبھی بھی کسی کو پتھر نہیں مارنے چاہئیں۔ اگر اتنی توجہ اور زور جتنا میڈیا کو کنٹرول کرنے پر لگایا جا رہا ہے مہنگائی کو کنٹرول کرنے پر لگایا جائے تو جو لوگوں کے چولہے ٹھنڈے ہوئے ہیں وہ جلنے لگیں۔ تمھیں معلوم ہے مہنگائی نے غریب کی کمر توڑ دی ہے اور حالت یہ ہے کہ :
جلدی سو گئے غریب کے بچے یہ سن کر
کہ فرشتے خوابوں میں آتے ہیں روٹی لے کر
انسان کو ماضی سے سبق سیکھنا چاہیے کبھی آپ نے سوچا ہے کہ آپکے پڑوسی ملک ہندوستان میں اندرا گاندھی جس نے ہمارے ملک کو ہماری غلطیوں کا فائدہ اٹھا کر دولخت کیا اس کا گراف ہندوستان کی بلندیوں کو چھو رہا تھاتو جون 1975ء میں اندرا گاندھی نے بھارت میں ایمرجنسی لگا کر میڈیا پر سخت سنسر شپ عائد کی۔ میڈیا پر سنسر شپ اورصحافیوں کی گرفتاریاں جو قانون کے تحت ہوئیں لیکن ناجائز تھیں ایمرجنسی کے نفاز کے وقت پہلے صدارتی آرڈیننس جاری ہوا اور چھ ماہ بعد پارلیمنٹ نے مزیدتین قوانین منظور کر کے پورے ملک میں میڈیا پر سخت کریک ڈائون کیا تو اس کے نتیجے میں اندرا گاندھی جو فاتح بنگلہ دیش کے طور پر ہیروہ تھی اگلے سال الیکشن میں زیرو ہوگئی اور بالآخر اس قانون کی عمر ڈیڑھ سال رہی اور اسے پارلیمنٹ نے ختم کر دیا ۔ کیا عقل کے ناخن لینے کی ضرورت نہیں ہے جناب عالی؟لیکن مجھے نہیں لگتا کہ مشیران وقت میں کوئی صحیح مشورے دینے والا بھی ہے۔حکومت میں سب کی اپنی اپنی ترجیحات ہیں اور حکومت میں شامل بہت سے لوگ عوامی ترجیحات کو ترجیح نہیں دے رہے۔ایسے موقع پر جب آپ نے دنیا کو "Absolutely Not" کہا ہے کہ بے وقت کے معاملات میں نہیں الجھنا چاہیے۔ یہی میڈیا ہے جو آپکے دھرنے کو Liveچلاتا رہا اور بہت سے بڑے اینکرز اور میڈیا ہائوسز نے اپنا سارا زور آپکو حکومت میں لانے کیلئے لگا دیا اور اب یہ کیا ہو رہا ہے ۔ اس کا ضرور کوئی حل نکلے گا ۔
مگر مجھے سب سے زیادہ افسوس یہ ہے کہ تبدیلی مذہب کا قانون کس بے علم اسلام دشمن مائنڈ سیٹ کے کہنے پر لایا جا رہا ہے۔ یہ بہت حساس معاملہ ہے۔ ہر روح دنیا میں مسلمان پیدا ہوتی ہے ۔ اگر تبدیلی مذہب کے خلاف قانون سازی کی جائے جس میں ڈرافٹ کے مطابق18سال سے کم عمر افراد پر تبدیلی مذہب پر پابندی کی تجویز ہے یہ نا صرف اسلام اور آئین پاکستان سے متصادم ہوگا بلکہ نظریہ پاکستان کی اساس قائد اعظم ؒ کے فرمودات اور ویژن سے بھی روگردانی ہوگی۔ اگر ایک خاندان اسلام قبول کرنا چاہتا ہے تو کیا بالغ ممبران کے قبول اسلام کے بعد ان کے بچوں کو 18سال کی عمر تک پہنچنے کا انتظار کرنا پڑے گا ؟ گویا ایک ہی خاندان کے والدین مسلمان اور بچے غیرمسلم ہونگے ۔ ان ماڈرن سوچ رکھنے والوں کو یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ اسلام کے بارے میں ہماری قوم کتنی حساس ہے۔ میرے جذبات اس سے بہت زیادہ ہیں سمجھ جائو گے تو اچھے رہو گے۔ اللہ کریم اورحبیب خداﷺ کو راضی کر لو دنیا اور آخرت سنور جائے گی۔ منتظر ہوں کہ کیا فیصلہ ہوتا ہے ۔ ابھی تک صرف یہی کہہ سکتا ہوں کہ :
اس شہر کے انداز عجب دیکھے ہیں یارو
گونگوں کو کہا جاتا ہے بہروں کو پکارو