افغانستان میں استحکام کیلئے چین کا 3 نکاتی ایجنڈا
امریکی انخلاء اور طالبان کی عبوری حکومت کے قیام کے بعد افغانستان میں استحکام اور تعمیرنو سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس سلسلے میں دنیا بھر زبانی کلامی تجاویز آرہی ہیں، کئی ملک تو تماشا دیکھنے کے موڈ میں ہیں تاہم سب سے زیادہ تعمیری کردار پاکستان اور چین کا ہے تاکہ افغانستان میں امن قائم ہو اور تعمیر نو کا عمل جلد پروان چڑھے کیونکہ عالمی اور علاقائی امن و استحکام افغانستان کے پائیدار امن سے منسلک ہے جس کیلئے گزشتہ روز شنگھائی تعاون کی تنظیم (ایس سی او)کے سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چین کے صدر شی جن پنگ نے افغانستان میں عدم استحکام کے خاتمے کیلئے تین نکاتی ایجنڈا پیش کردیا جس میں افغانستان کی خودمختاری کا احترام، افغان سربراہی میں امن عمل جاری رکھنا اور افغان عوام کو خود اپنے مستقبل کا موقع دینا شامل ہیں۔ چینی صدر نے مطالبہ کیا کہ افغان تنازعہ کو تمام دھڑوں سے بات چیت کرکے عوام کی رائے کا احترام کرتے ہوئے جلد سیاسی حل کے ذریعے ختم کیا جائے جبکہ عالمی برادری میں واپسی کیلئے طالبان حکومت سے بات چیت کی جائے۔ افغانستان کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں چینی صدر کی تجاویز صائب اور بروقت ہیں لہٰذا ان کو فوری عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں شنگھائی تعاون تنظیم کے تمام رکن ملکوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ جیسا چینی صدر نے بھی کہا کہ ایس سی او کے رکن ملک کابل کے ساتھ تعاون تیز کریں اور ’’افغانستان رابطہ گروپ‘‘ جیسے پلیٹ فارمز کا بھرپور استعمال کریں۔ حالات کا تقاضا یہی ہے کہ چینی صدر کی تجاویز پر فوری عمل کرتے ہوئے شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ملک اپنا اپنا کردار ادا کریں اور فیصلہ سازی میں طالبان کو مکمل خودمختاری دی جائے۔ چینی صدر کی تجاویز افغانستان کی تعمیر نو اور طالبان قیادت کے حوالے سے بعض عناصر کے پروپیگنڈا کا بھی منہ توڑ جواب ہیں اور چین کی کامیاب افغان پالیسی صرف ایک جملے میں پنہاں ہے چینی صدر کے بقول ’’ قریبی ہمسائے ہونے کی وجہ سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔‘‘