منگل ‘ 12؍ صفر‘ 1443ھ‘ 21 ؍ ستمبر2021ء
پولیس کی فکر چھوڑیں، آتش بازی کریں، دیکھتا ہوں کون رکواتا ہے: پرویز خٹک
جلسہ وزیر دفاع کا ہو تواس میں ہلہ گلہ بھی تگڑا ہونا چاہئے۔وزارت کے حساب سے وہاں آتش بازی، ڈھول ڈھمکا، ہلکی پھلکی فائرنگ میں کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہئے۔ آخر وزیر دفاع کا عہدہ کوئی معمولی تو نہیں ہوتا ۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ روز جب نوشہرہ میں پرویز خٹک ایک جلسے سے خطاب کررہے تھے تو وہاں کے جذباتی کارکنوں نے جلسے میں آتش بازی شروع کردی۔ اس موقع پر پولیس کی رگ حمیت پھڑکی اور انہوں نے دفعہ 144 کے نفاذ کا درس دیتے ہوئے کارکنوں کو آتش بازی سے روکا تو سٹیج پر موجود وزیر دفاع فوراً اپنے کارکنوں کی مدد کو پہنچے اور ان کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے کہنے لگے کہ آتش بازی جاری رکھو پولیس کی فکر چھوڑو دیکھتا ہوں کون روکتا ہے پھر اس ہلہ شیری کے بعد پولیس کی کیا جرأت کہ وہ کسی کو روکتی اور دفعہ 144 کا سبق یاد کراتی کیونکہ حکم حاکم مرگ مفاجات والا درس انہیں بھی دیاجاتا ہے۔ اب اگر یہ کام کسی اپوزیشن رہنما کے جلسے میں ہورہا ہوتا خواہ وہ سابقہ وزیر داخلہ ہی کیوں نہ ہو، پولیس والے شرکائے جلسہ کو دن میں تارے دکھا دیتے اور قانون نافذ کرنے کی ایسے ایسے عملی نمونے پیش کرتے کہ پورا جلسہ منٹوں میں تتربتر ہوجاتا اور مقررین اپنے پرجوش خطاب سینے میں دبائے رہ جاتے مگر آتش بازی کرنے کی اجازت کسی کو نہیں ملتی اب چونکہ پرویز خٹک حکومت کے اہم ترین وزیر ہیں اس لئے ان کے آگے کسی کی نہ چلی اور رات گئے یہ جلسہ پرامن طریقے سے قانون کی دھجیاں اڑاتا ہوا اختتام پذیر ہوا۔
٭٭٭٭٭٭
بدنام بھارتی اینکر گوسوامی کی لائیو نشریات میں پاکستانی کے ہاتھوں درگت
بھارت کے مودی کی گودی میں بیٹھے میڈیا کے بدنام ترین اینکرزارنب گوسوامی کئی بار اپوزیشن اور پولیس کے ہاتھوں اپنے گندے کرتوتوں کی وجہ سے ذلیل و رسوا ہونے کے باوجود اپنی مکروہ حرکتوں سے باز نہیں آرہا۔ یہ بدبخت جھوٹا اور زبان دراز ہونے کے ساتھ پاکستان کیخلاف مودی حکومت کے ایجنڈے پر دل و جان سے عمل پیرا رہتا ہے۔ پاکستان کیخلاف جھوٹا پراپیگنڈہ کرنے اور جھوٹی بے بنیاد خبریں پھیلانے میں پیش پیش رہتا ہے۔ کئی بار اس کے جھوٹ کا پول کھل چکا ہے۔ اسے دنیا بھر سے لعن طعن بھی سننا پڑی مگر یہ بے شرموں کی طرح اپنی نوکری پکی کرنے میں مصروف رہتا ہے۔ اب افغانستان میں طالبان کی حکومت جب سے آتی ہے ارنب گوسوامی کی مودی حکومت کی طرح دنیا ہی اجڑ گئی ہے۔ کسی کروٹ انہیں آرام نصیب نہیں ہوتا رہا۔ اس کی کرسی میں کیل اور بستر میں انگارے بھر دیئے گئے ہیں، جس کی وجہ سے وہ اپنے بگڑے منہ کے ساتھ پاکستان کیخلاف اول فول بکتا ہے مگر آرام پھر بھی نصیب نہیں ہوتا۔ گزشتہ دنوں اپنے چینل کے لائیو پروگرام میں اس بدبخت نے بے پر کی اڑائی کہ کابل کے سرینا ہوٹل کی پانچویں منزل پاکستانی انٹیلی جنس کیلئے مخصوص ہے۔ وہاں ان کا دفتر قائم ہے۔ ہمیں پتہ ہے انہوں نے کھانے کا کیا آرڈر دیا ہے۔ ہم ان کی فضائی نگرانی کررہے ہیں۔ ابھی اس کی یہ بکواس جاری تھی کہ ایک پاکستانی جو اس پروگرام میں شریک تھا اس نے فوراً گوسوامی کی گردن ناپی اور بتایا کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں جس ہوٹل کی بات کررہے ہیں وہ تو ہے ہی دو منزلہ تو اس میں پانچویں منزل کہاں سے آگئی۔ یہ سن کر گوسوامی کی بولتی بند ہوگئی اور وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگا۔ جسے ہم کھسیانی بلی کھمبا نوچے بھی کہہ سکتے ہیں۔ مگر کیا مجال ہے جو جھوٹ پکڑے جانے پر اس کو شرم آئی ہے حیا آئی ہو لگتا ہے یہ دونوں چیزیں اس میں موجود ہی نہیں۔
٭٭٭٭٭٭
وزیراعلیٰ بلوچستان کیخلاف عدم اعتماد،چیئرمین سینٹ نے ناراض ارکان کو منالیا
چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی تو بڑے کمال کی چیز ہیں یہ تو چھپے رستم نکلے۔ چند روز قبل کمر باندھ کر اسلام آباد سے بلوچستان روانہ ہوئے ان کا مقصد یہ تھا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان کیخلاف جو تحریک عدم اعتماد لائی جارہی ہے اس کو کسی صورت روکا جائے۔ بلوچستان کے ناراض حکومتی ارکان اور وزیروں کو منانا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں تھا۔ جہاں سب نواب ہوں وہاں کون کسی کی سنتا ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان کو گرچہ مرکزی حکومت پر بھروسہ تھا مگر وہ اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک سے خوفزدہ بھی تھے مگر بظاہر انہوں نے اپنا حوصلہ برقرار رکھا۔ پھر بھی چیئرمین سینٹ میدان میں کود پڑے یوں
’’روٹھے سیاں کو میں تو اپنے خود ہی منانے چلے آئی‘‘
اپوزیشن ارکان کے گلے شکوے سننے جلی کٹی برداشت کی مگر بالآخر انہیں رام کرہی لیا۔ یہ ہوتی ہے سیاست یہ ہوتی ہے مفاہمت، زرداری کے بعد اب اگر کسی سیاستدانوں کو بابائے مفاہمت کہا جاسکتا ہے تو وہ صادق سنجرانی ہیں۔ اب ذرائع کے مطابق ناراض ارکان کی تلخی میں کمی آئی ہے۔ وہ گلے شکوے حل کرنے پر تیار ہیں۔ اس طرح بلوچستان میں جو سیاسی طوفان چائے کی پیالی میں جنم لے رہا تھا وہ آہستہ آہستہ اب دم توڑ رہا ہے۔ یوں مے کدے کے رندوں کے جام ایک بار پھر بھرنے لگے ہیں اور ان کی تشنہ لبی دور ہونے لگی ہے…
٭٭٭٭٭٭
امریکہ میں تلاشی کی افواہیں غلط ہیں:شہریار آفریدی
اب کوئی سوشل میڈیا پر لاکھ فیک نیوز اور ویڈیو چلائے ہمیں اس سے کوئی لینا دینا۔ ہم اپنی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین شہریار آفریدی کی بات کو ہی مستند تسلیم کرتے ہیں اور اس پر یقین رکھتے ہیں۔ اب لوگ لاکھ باتیں کریں، فسانے سنائیں ہم نے اس پر بھروسہ نہیں کرنا۔
لوگوں کی تو عادت ہے باتیں بنانا۔ اب شہریار آفریدی ان باتوں کو سن کر اپنا جی کیوں جلائیں۔ اس لئے انہوں نے نیویارک کی سڑکوں پر مٹر گشت کرتے ہوئے اپنی ویڈیو بنائی جو بعدازاں وائرل بھی کی۔اس ویڈیو میں وہ ہنستے کھیلتے خوش باش نظر آرہے ہیں۔ رہی بات امریکی ہوائی اڈوں پر پاکستانی مسافروں کی جامہ تلاشی سے لے کر زیر جامہ تلاشی کے لمحات کی تو بقول غالب
جس کو دین و دل عزیز اسکی گلی میں جائے کیوں
جن کو امریکہ جانے کا شوق ہے انہیں تو یہ سب کچھ سہنا پڑتا ہے۔ شاید ہی کسی کو رعایت ملتی ہو اس تلاشی کے عمل سے۔ اب جس کی مرضی مانے یا نہ مانے پہلے بھی کئی اعلیٰ شخصیات کی جامہ تلاشی کی تصویریں چلتی رہی ہیں۔ ایسی چھوٹی موٹی باتوں سے پریشان نہیں ہوتے۔ آفریدی کہتے ہیں کہ وہ یہاں کشمیر کاز اجاگر کرنے آئے ہیں۔ اگر یہ سچ ہے تو پھر واقعی مین ہیٹن کی سڑکوں پر چہل قدمی سے زیادہ کشمیر کاز مسئلہ کہاں اجاگر کیا جاسکتا ہے۔