پاکستان کرکٹ بورڈ نئے نشریاتی معاہدے کو گیم چینجر قرار دے رہا ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ بہت بڑی رقم ملکی کرکٹ پر خرچ ہو گی۔ دوسال بعد بورڈ حکام نے ملک بھر کے کرکٹرز کو اعداد و شمار کے چکر میں الجھایا جائے گا جیسا کہ اب تک کیا گیا ہے۔
جب وقت یہ حساب دینے کا ہے کہ نئے آئین کے نفاذ کے بعد کلب کرکٹ، سٹی کرکٹ اور ایسوسی ایشنز کی کرکٹ شروع کرنے کیلئے کیا اقدامات اٹھائے گئے، بنیادی ڈھانچے میں موجود خامیوں کو دور کرنے کیلئے اگست دوہزار انیس سے ستمبر دو ہزار بیس تک کتنا کام کیا گیا ہے، جب وقت یہ حساب دینے کا ہے کہ ملک بھر میں نچلی سطح کی کرکٹ کو منظم کرنے کیلئے بورڈ نے کن خطوط پر کام کیا ہے، سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کھیل کو ملک کے طول و عرض میں پھیلانے کیلئے کتنا کام کیا ہے، جب وقت یہ حساب دینے کا ہے کہ بورڈ کے خزانے سے کتنی رقم ڈیویلپمنٹ پر خرچ کی گئی ہے، جب وقت یہ حساب دینے کا ہے کہ احسان مانی دو سال کے عرصے میں پاکستان کرکٹ بورڈ میں یا ملکی سطح کی کرکٹ میں کیا تبدیلی لائے ہیں، جب وقت یہ حساب دینے کا ہے ملکی تاریخ کے سب سے مہنگے اور امپورٹڈ چیف ایگزیکٹو آفیسر کے کریڈٹ پر کیا ہے، جب وقت یہ حساب دینے کا ہے کہ ملک کے مقبول ترین کھیل کو سوشل میڈیا پر دکھانے کے علاوہ کچھ کیا یا نہیں، جب وقت یہ حساب دینے کا ہے کہ کرکٹ کھیلنے والوں پر کتنا خرچ کیا ہے، جب وقت یہ حساب دینے کا ہے خرچ کھیل پر ہوا یا کھیل کے نام پر عہدے لینے والوں پر ہوا، جب وقت باتوں، خوابوں اور خیالات سے نکل کر ملک میں کرکٹ کھیلنے والے ہزاروں نوجوانوں کے سوالات کے جوابات دینے کا ہے تو پاکستان کرکٹ بورڈ حکام ریورس گیئر لگا کر محکمہ جاتی کرکٹ کی بحالی کیلئے مصباح الحق، محمد حفیظ اور اظہر علی کو وزیراعظم عمران خان کے پاس پہنچ گئے ہیں۔
چیئرمین کرکٹ بورڈ احسان مانی اور ان کے پیارے چیف ایگزیکٹو تو ملکی کرکٹ میں کرپٹ، یا گندے نظام کو بدلنے کیلئے تشریف لائے تھے اگر اب وہ اس نظام کی بحالی کے لیے کوششیں کر رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ماضی میں جو کچھ وہ محکمہ جاتی نظام کے بارے کہتے رہے ہیں وہ غلط تھا، گذشتہ برس نئے نظام کی افتتاحی پریس کانفرنس میں پرانے نظام سے موازنہ اور پیش کردہ اعدادوشمار بھی حقائق پر مبنی نہیں تھے اور اس مرتبہ ڈومیسٹک کھلاڑیوں کو پیش کیے جانے والے کنٹریکٹ اور معاوضوں کی خبروں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا بھی مصنوعی تھا۔ اگر ملک کا سب سے بڑا مسئلہ محکمہ جاتی کرکٹ ہی تھا اور اسے ہر حال واپس لانا تھا تو پھر موجودہ انتظامیہ کا عہدوں پر رہنے کا کیا جواز ہے۔ جب پیشہ وارانہ مہارت کے خود ساختہ علمبردار نہ بہتر متبادل نظام پیش کر سکے، نہ گراس روٹ لیول پر کرکٹ کروا سکے، نہ کھلاڑیوں کے مسائل سمجھ سکے، نہ ان کے مسائل حل کر سکے تو پھر قوم کے دو قیمتی سال ضائع کرنے والوں کو عہدوں پر برقرار رہنا چاہیے؟ بورڈ حکام عوام اور ملک کے ہزاروں کرکٹرز کو یہ جواب دیں کہ دو سال کیوں ضائع کیے، کیوں نوجوانوں کے مستقبل کو تباہ کرنے کے فیصلوں پر اتراتے رہے، کیوں غلط بیانی کرتے رہے، کیوں ان سے کھیل کے بہترین مواقع اور روزگار چھینا گیا، کیوں ان سے بہتر طرز زندگی کے مواقع چھینے گئے، کیوں کرکٹرز کو کھیل چھورنے ہر مجبور کیا گیا؟؟
سابق ڈائریکٹر اکیڈمیز مدثر نذر کہتے ہیں کہ "دو سال میں کہیں کلب کرکٹ، سٹی اور ایسوسی ایشنز کی کرکٹ نہیں ہو سکی۔ عمران خان کا وژن کو نچلی سطح کی کرکٹ کو مضبوط کرنے کا تھا انہوں نے دو سال میں کچھ نہیں کیا اور تیسرا سال بھی ایسے ہی گذرے گا۔ بورڈ نے کیوں ایسوسی ایشنز قائم نہیں کیں، انتخابات کیوں نہیں کروائے"۔
اصولی طور پر پاکستان کرکٹ بورڈ یہ سیزن بھی محکموں کی ٹیموں کے بغیر کھیلے جانے کی تیاریاں مکمل کر چکا ہے۔ شیڈول کا اعلان ہو چکا ہے۔ میچ آفیشلز کا اعلان کیا جا چکا ہے۔ محکمہ جاتی کرکٹ کی بندش اور بورڈ کے غلط فیصلوں سے ملکی کرکٹ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے اس نقصان کے بڑے ذمہ دار وسیم خان پاکستان سے محبت نہ ملنے کے شکوے کر رہے ہیں۔ محکمہ جاتی کرکٹ کے بارے بحث شروع کرنے یا لوگوں کو اس بحث میں الجھانے کے بجائے کرکٹ بورڈ حکام اپنے فیصلوں کا جواب دیں اور عوام کو بتائیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ کچھ بھی بورڈ حکام کو ملک بھر میں کلب، سٹی اور ایسوسی ایشنز کی کرکٹ کی بندش کا جواب اور حساب دینا چاہیے اور اس سطح کی اہم ترین کرکٹ کے بارے اب تک ہونے والے فیصلے اور ان فیصلوں کے نتائج عوام کے سامنے رکھنے چاہییں۔
وزیراعظم عمران خان نے ڈیپارٹمنٹ کرکٹ بند کرنے کے لیے کہا تھا انہوں نے ہر طرح کی کرکٹ بند کر دی ہے۔ محکمہ جاتی کرکٹ بند کرنے اور اس کے متبادل کرکٹ شروع کرنے اور کھلاڑیوں کے مالی مفادات کے تحفظ کی ذمہ داری کرکٹ بورڈ پر عائد ہوتی ہے۔ اگر بورڈ حکام اپنے کھلاڑیوں کے معاشی مستقبل کے تحفظ کی ضمانت نہیں دے سکتے تو کھیل کا فروغ کیسے ممکن ہے۔ اگر آفیشل کو بیس تیس لاکھ ماہانہ مل سکتا ہے تو اتنے ہی پیسے کھلاڑیوں کو کیوں نہیں مل سکتے؟؟؟
مستقبل کے خواب دکھاتے ہوئے حال کو کیسے نظراندازکیا جا سکتاہے۔ جب ملک کے کرکٹرز مسائل کا شکار ہوں کھیلنے والے کھیل ہی نہیں ملک بھی چھوڑ رہے ہوں تو یہ لاکھوں کروڑوں اربوں کی باتیں اثر نہیں کرتیں جب ہر ماہ بورڈ آفیشلز پندرہ بیس ، پچیس بائیس لاکھ تنخواہ وصول کریں اور کرکٹر صرف چالیس ہزار پر گزارہ کر لے یا ٹرائلز پر کھانے پینے کے اخراجات بھی خود برداشت کر رہا ہوں تو یہ سمجھنا مشکل نہیں رہتا کہ واقعی گیم چینج ہو رہی ہے اور اس بدلتے ہوئے کھیل میں سرمایہ کرکٹرز کے بجائے آفیشلز پر خرچ کرنے کا دور شروع ہو چکا ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024