جنوبی وزیرستان میں پاک فوج کی کامیابیاں
وزیرستان میں شمالی و جنوبی حصے کو ملانے والی یو اے ای کے تعاون سے بنائی گئی سڑک
میرانشاہ میں نو تعمیر شدہ یونس خان سٹیڈیم جہاںاب تک کئی ایک میچوںکا انعقاد ہو چکا ہے
گورنر ماڈل سکول کی طالبات ایک تقریب کے دوران
خیبر ایجنسی میں انگریز دور سے بنی ریلوے لائن پر ایک ٹرین کا منظر
مہمند ایجنسی میں نو تعمیر شدہ نہکی سرنگ کا ایک منظر
وانا میں نو تعمیر شدہ ایگریکلچر پارک کا داخلی راستہ
پیر فاروق بہاؤالحق شاہ
وزیرستان پاکستان کا وہ علاقہ رہا ہے جہاں طویل عرصہ ریاست پاکستان کی عملداری موجود نہ تھی۔افغانستان میں بیرونی طاقتوں کی مداخلت کے خلاف مزاحمت کی تحریک کا مرکز یہ علاقہ بنا۔جس کی وجہ سے ایک طرف تو یہاں پر حکومتی رٹ ختم ہو گئی تو دوسری طرف یہ سارا علاقہ دہشت گردوں کی آماجگاہ بن گیا۔پاکستان کو دہشت گردی کی دلدل سے نکالنے کے لئے پاک فوج نے بڑی جانی قربانیاں دی ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔اس سلسلہ میں وزیرستان کے علاقے میں پاک فوج کی کارروائی اور قربانیوں کی تعداد سب سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔2017 میں موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے شروع کیے گئے آپریشن ردالفساد کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔اس آپریشن کا مرکزی علاقہ وزیر ستان تھا لیکن اس کا دائرہ بعد میں پورے ملک میں پھیلا دیا گیا۔موجودہ سال میں جب اس آپریشن کو شروع ہوئے تین سال گزر گئے تھے تو اس وقت آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ملک کی سلامتی کے خلاف کسی بھی خطرے سے نمٹنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھرپور کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ تاہم ان کامیابیوں کی قیمت بھاری جانی و مالی نقصان کی صورت میں ادا کی گئی ہے۔جنرل باجوہ نے مزید کہا کہ ہمارے شہدا ہمارا فخر ہیں دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کے نتائج یقینا خطے میں امن کی صورت میں ظاہر ہوں گے۔گزشتہ تین سالوں کے دوران ملک بھر میں ٹارگٹڈ آپریشن کیے گئے۔ان آپریشنز کے دوران تقریبا 400 سے زائد مذموم منصوبے ناکام بنائے گئے۔فوجی عدالتوں نے 344 دہشت گردوں کو سزائے موت دی۔301 دہشتگردوں کو مختلف دورانیہ کی سزائیں دی گئیں۔آپریشن ردالفساد کے تحت پاک افغان سرحد 2611 کلومیٹر میں سے 1450کلو میٹر پر آہنی باڑ لگائی گئی جس کے نتیجے میں پاکستان ایک مرتبہ پھر امن کا گہوارہ بنا۔یہ پاک فوج کی قربانیوں کا ثمر ہے کہ ایک طویل عرصے کے بعد سپر لیگ کا انعقاد پاکستان میں ہوا۔دنیا میں دہشت گردی کا مرکز سمجھے جانے والے پاکستان کے قبائلی علاقہ جات آج پاک فوج کی لازوال قربانیوں کی وجہ سے امن و محبت کا گہوارہ بن چکے ہیں۔
1980 کی دہائی کے آغاز تک پاکستان کی مغربی سرحد پر واقع قبائلی علاقہ جات کو برطانوی سامراج کے چھوڑے ہوئے قوانین کے تحت چلایا جارہا تھا۔انتظامی امور اور ترقیاتی منصوبوں کے اعتبار سے یہ اہم ترین خطہ کسی بھی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہ تھا۔طویل محرومیوں نے اس خطے کو دہشت گردی کا مرکز بنا دیا۔جس طرح کہ ابتدا میں عرض کیا کہ افغانستان میں بیرونی طاقتوں کے حملے کے بعد یہ علاقہ افغان جنگجووں کی تربیت گاہ اور ان کو مسلح کرنے کا مرکز بن کر سامنے آیا۔2003 کے فوجی آپریشن کے بعد بھی جنوبی وزیرستان کسی حد تک پر سکون علاقہ تھا۔تاہم یہاں پر ہونے والے ڈرون حملوں کے باعث امن و امان کی صورتحال مخدوش تر ہوتی گئی۔پاک افغان سرحد پر واقع شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان، اور خیبر ایجنسی سمیت تمام سات ایجنسیوں کو عسکریت پسندوں کی محفوظ پناہ گاہ سمجھا جانے لگا۔کالعدم تحریک طالبان نے بھی اسی علاقے میں اپنا مرکز بنایا۔2009 میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ بیت اللہ محسود کے خلاف آپریشن راہ نجات کا آغاز ہوا۔آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے حملے نے پاکستان کی حکومت اور حساس اداروں کو اس بات کا احساس دلایا کہ اب ان دہشت گردوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں۔اس وقت کی سیاسی حکومت اور اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اس آپریشن کی براہ راست قیادت کی۔ملک کی عوام اپنی حکومت کی پشت پر کھڑے ہوگئے۔یہاں تک کہ طویل قربانیوں کے بعد اس علاقے کو دہشت گردوں سے خالی کرا لیا گیا۔پاک فوج کی بھرپور کارروائی کی وجہ سے دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے اور ان کی اکثریت واصل جہنم ہوچکی ہے اور کچھ دہشت گرد فرار ہوکر سرحد عبور کر گئے ہیں اور جو پاکستان میں رہ گئے وہ اپنے گھروں میں دبک کر بیٹھنے پر مجبور ہوگئے۔وزیرستان وہ علاقہ تھا جہاں پر دہشت گردوں کے اپنے اسلحہ ساز کارخانے کام کرتے تھے۔وہ اپنے نظریات کو طاقت کے زور پر پورے ملک پر مسلط کرنا چاہتے تھے۔اور پاکستان دشمن قوتوں کے ایجنڈے کو بروئے کار لاتے ہوئے پاکستان میں امن و امان کے مسائل پیدا کرنا چاہتے تھے۔
پاکستان کے اندر چھپے ہوئے دہشت گردوں کو جب بھی موقع ملتا پاکستان کے بد ترین دشمن کے ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے دہشت گردوں کی کارروائیاں کرتے۔شمالی جنوبی وزیرستان میں فورسز پر حملے کیے گئے۔سکولوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ایجنسیوں کی رپورٹ پر بروقت کارروائی کی گئی۔پاکستان کی سکیورٹی فورسز نے حالیہ دنوں میں بڑی کامیابی حاصل کی۔دہشتگردوں کے سرغنہ احسان اللہ عرف سنڑے کو شمالی اور جنوبی وزیرستان کے درمیانی علاقے میں تین ساتھیوں سمیت ہلاک کر دیا گیا۔ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے اپنے ٹویٹر پیغام میں بتایا کہ دہشت گرد کمانڈر احسان اللہ خفیہ معلومات پر کیے گئے آپریشن کے دوران مارا گیا۔فوجی ذرائع کے مطابق احسان اللہ اس علاقے میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعات کی منصوبہ بندی اور ان پر عملدرآمد کا ذمہ دار تھا۔اس کارروائی کے دوران بھی پاک فوج نے اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کیں۔اور لیفٹیننٹ ناصر اور کیپٹن صبیح سمیت متعدد فوجی جوان شہید ہوئے۔پاکستان کی مسلح افواج اور سیاسی حکومت نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا کہ وزیرستان میں امن و امان کی بحالی کے ساتھ ساتھ وہاں کے رہنے والے لوگوں کو بہترین سہولیات فراہم کرنے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔چنانچہ 2018 میں ہونے والی آئینی ترمیم کے ذریعے فاٹا علاقوں کی قبائلی حیثیت ختم کرکے ان کو صوبہ خیبرپختونخوا میں ضم کردیا گیا۔27ہزار 220مربع کلومیٹر علاقہ پر پھیلے ہوئے اس اس خطے کو اس کے آئینی حقوق دینے کی طرف ایک انتہائی اہم قدم اٹھایا گیا۔مردم شماری کے مطابق قبائلی علاقہ جات کی کل آبادی 33لاکھ،41ہزار،70ہے۔جبکہ 2017کے اعداد و شمار کے مطابق فاٹا کی کل آبادی 50 لاکھ سے کچھ زیادہ ہے۔خیبر ایجنسی،کرم ایجنسی،باجوڑ ایجنسی،مہمند ایجنسی،اورکزئی ایجنسی،شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان پر مشتمل ہے۔فوج نے وزیرستان سمیت اس پورے علاقے کو قومی دھارے میں لانے کی مکمل حمایت کی۔اور یہاں پر اصلاحات کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا۔پاک فوج کی کوششوں سے فاٹا میں پہلی دفعہ نیشنل جیپ ریلی کا آغاز کیا گیا۔شمالی وزیرستان میں امن کرکٹ میچ بھی کرایا گیا۔حکومت پاکستان اور پاک فوج کی کوششوں سے فاٹا کے نوجوانوں کی فکر میں ایک مثبت تبدیلی آئی ہے۔ان کی سوچ کا محور ،شدت پسندی کے بجائے تعلیم و ترقی اور اصلاحات جیسے مثبت اقدامات کی طرف تبدیل ہوا ہے۔فاٹا کے مستقبل کا فیصلہ وہاں کے اپنے لوگوں خاص طور پر نوجوانوں کے ہاتھوں میں دے دیا گیا ہے۔نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کے لیے پاک فوج کی جانب سے جگہ جگہ تعلیمی ادارے قائم کر دیئے گئے ہیں۔تعلیمی اداروں کی نگرانی کے ساتھ ساتھ تفریح اور کھیلوں کی سہولیات بہم پہنچانے کے لیے پاک فوج کی طرف سے عملی دلچسپی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔پاک فوج کی طویل قربانیوں مسلسل محنت اور شاندار منصوبہ بندی کے باعث تمام قبائلی علاقہ جات خصوصاً وزیرستان میں منفی امور کی جگہ مثبت رجحانات میں لے لی ہے جس کے پیچھے پاک فوج کی قربانیوں اور جدوجہد کی ایک طویل داستان موجود ہے۔جن علاقوں میں آپریشن کیا گیا انہی علاقوں میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو خصوصی ترغیبات دی جارہی ہیں۔تاکہ وہاں پر صنعت، لائیوسٹاک، معدنیات، اور جنگلات کے شعبے ترقی کریں اور مقامی آبادی کو جلد از جلد قومی دھارے میں شامل کیا جاسکے۔اسی طرح مہمند ایجنسی میں ماربل سٹی کا قیام آخری مراحل میں ہے جو تقریبا 300 یونٹس کو جگہ دے سکے گا۔یہ منصوبہ حکومت کے بقول سی پیک کے منصوبے کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔کوہاٹ اور شمالی وزیرستان میں دو صنعتی اسٹیٹس بھی قائم کی جا رہی ہیں۔اسی طرح ماضی کے قبائلی علاقہ جات کو آج صوبہ میں شامل کر کے برابر حصہ دیا جا رہا ہے۔پاک فوج کی جانب سے خصوصی اقدامات کی بدولت حکومت پاکستان نے اس امر کو یقینی بنایا ہے کہ فاٹا میں تمام پوسٹیں صرف میرٹ کی بنیاد پر قبائلی نوجوانوں کو ملیں گی جس سے فاٹا میں بے روزگاری کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان کا صوبہ خیبرپختونخوا میں انضمام اس حوالے سے بھی خوش آئند ہے کہ اب یہاں پر ترقی کے تمام دروازے کھل جائیں گے۔اس امر کے لیے بھی عملی اقدامات کیے جا رہے ہیں کہ پاکستان کی سپریم کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ کا دائرہ کار قبائلی علاقہ جات تک وسیع کیا جائے۔اس سے فاٹا کے عوام کو اعلیٰ عدالتوں تک رسائی ہو سکے گی۔آپریشن زدہ قبائلی علاقوں میں اصلاحات کے طور پر 20 ہزار لیویز اہلکار بھی بھرتی کیے جا رہے ہیں۔جبکہ 321 ارب روپے کی اضافی بجٹ کی منظوری دی گئی ہے جو ترقیاتی اور انتظامی کاموں پر خرچ کیا جائے گا۔ایک اور خوش آئند امر یہ بھی ہے پاکستان کی عسکری قیادت نے پچھلے چند برسوں میں وزیرستان سمیت تمام قبائلی علاقوں میں تعلیم ،صحت ،روزگار،اور کھیل کے فروغ کے لیے موثر اقدامات کیے ہیں۔تمام قبائلی علاقہ جات میں سیاسی عمل کو شفاف بنانے کے لیے بھی اقدامات کیے جا رہے ہیں اور توقع کی جا رہی ہے کہ آئندہ 5 برس تک قومی اسمبلی میں فاٹا کی 12 نشستیں ہوںگی جبکہ آئندہ پانچ سال کیلئے سینٹ میں اس کی آٹھ نشستیں برقرار رہیں گی۔وزیرستان سمیت پاکستان کے تمام قبائلی علاقوں کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے بعد پولیٹیکل ایجنٹ کا عہدہ ختم کردیا گیا ہے اور انکی جگہ ڈپٹی کمشنر تعینات کیے گئے ہیں۔ان تمام اقدامات کا جائزہ لینے کے لیے وزیراعظم پاکستان عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے شمالی وزیرستان کا دورہ کیا۔ شہداء کی یادگار پر پھول چڑھائے۔شہدا کی بلندی درجات کیلئے فاتحہ خوانی کی گئی۔ وزیراعظم کو جاری آپریشن، سماجی و معاشی ترقی کے منصوبوں، اور پاک افغان سرحد پر اپنی باڑ کی تنصیب کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔وزیراعظم پاکستان نے شہداء کی قربانیوں کو بھی خراج تحسین پیش کیا جب کہ ان علاقوں میں ایک یونیورسٹی، آرمی کیڈٹ کالج، اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔وزیراعظم نے شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان کے لئے میڈیکل کالج ،ہسپتال کا قیام اور شمالی وزیرستان کے لئے یونیورسٹی آرمی میڈیکل کالج کا قیام، اور فاٹا کے رہائشیوں کے لیے ہیلتھ انشورنس کارڈ، ڈاکٹرز کی کمی پورا کرنے کے لیے ٹیلی میڈکس کا نظام لانے کا حکم دیا۔حکومت پاکستان کی جانب سے پولیس اور فرنٹیئرکور میں مقامی لوگوں کو ملازمت دینے کے لیے خصوصی اقدامات کیے گئے۔اسی طرح شمالی اور جنوبی وزیرستان میں موبائل فون کی بحالی، گھروں کی تعمیر کے لیے قرضے، لوڈشیڈنگ کے مسائل، نادرا کے سینٹرز کا قیام، اور مساجد کے لیے سولر پینل دینے کا بھی اعلان کیا۔وزیراعظم نے اپنے دورے کے دوران بلا سود قرضوں کی فراہمی اور کھیلوں کے گراؤنڈ بنانے کا بھی اعلان کیا۔
خلاصہ کلام شمالی اور جنوبی وزیرستان کا چپہ چپہ پاک فوج کے جوانوں کے خون سے رنگین ہے۔اس خطے کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے لیے پاکستانی افواج کے ہر سطح کے افسران نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے ہیں۔اس دھرتی کی مٹی میں شہید کے خون کی خوشبو رچی بسی ہے۔پاکستان کے مختلف علاقوں میں فوجی جوانوں کے قبرستان آباد ہوئے ہیں تب جاکر شمالی اور جنوبی وزیرستان میں امن و امان کا دور دورہ ہوا ہے۔پوری قوم اس معاملے پر نہ صرف پاک فوج کو خراج تحسین پیش کرتی ہے بلکہ ان کی قربانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ہم اس امید کا اظہار کرتے ہیں کہ آئندہ آنے والے انتخابات میں شمالی اور جنوبی وزیرستان کے باشعور عوام اپنے لئے ایسے نمائندوں کا انتخاب کریں گے جو ان کی ترقی خوشحالی اور فلاح و بہبود کے لئے فکر رکھتے ہوں گے۔وہ وقت دور نہیں جب قبائلی علاقہ جات اور شمالی اور جنوبی وزیرستان خصوصی طور پر پاکستان کے ترقی یافتہ علاقوں کی صف میں شامل ہو گا۔