روزانہ اجرتی ذہنیت
پاکستانی قوم کا حال روزانہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں جیسا ہے۔روز صبح یہ بیچارے مزدور تلاش روز گار میں نکل جاتے ہیں اور ہر دن کسی نئے منصوبے کی اینٹ رکھ رہے ہوتے ہیں مگر شام ڈھلتے ہی اور اس دن کی اجرت ملتے ہی وہ اس منصوبے کی تکمیل کا انتظار کئے بغیر یا اس کے مکمل ہونے کی کوئی جدوجہد کئے بغیر گھر کا راستہ ناپتے ہیں۔کسی بھی مربوط اور مستقل نظام کی غیر موجودگی میں پوری قوم اس ذہنیت کا شکار ہوگئی ہے اور اب اس کا ملک کے تمام مسائل کے بارے میں رد عمل وہ ہے جسے انگریزی کے ایک محاورے کے بقول گھٹنے کے غیر ارادی جھٹکے سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ بڑے بڑے مسائل سر اٹھاتے ہیں اور پوری قوم چوکنا ہوجاتی ہے۔میڈیا سے لے کر پیشہ وروں کے بڑے بڑے گروہ اور عام آدمی بھی جیسے نجی کمپنیوں میں کام کرنے والے مختلف عہدوں پر براجمان خواتین اور حضرات بھی یکایک اس ایک مسئلے کے ماہر بن جاتے ہیں اور سوشل میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا یا پھر اب انتہائی عنقا پرانے وقتوں کی یاد چھپا ہوا میڈیا یہ سب ان کے ترجمان بن کر نت نئے حل پیش کرتے ہیں۔زیادہ دور کیوں جائیے۔ کراچی میں معمول سے زیادہ بارش کیا ہوئی کہ پوری قوم کے عقل و شعور کے دریا بہنے لگے۔ایسا لگتا تھا کہ نہ تو اب مسئلہ کشمیر ہے اور نہ مہنگائی اور بڑھتی ہوئی غربت اور لا قانونیت یا فکری اور علمی اور عقیدوں کے درمیان تیزی کے ساتھ گہری ہوتی ہوئی کھائی۔ بس کراچی ہے اور اس کے مسائل ہیں اور ان کو کس نے حل کرنا ہے؟ کیا نچلی سطح پرمیئر اور کمشنر یا صوبائی سطح پر وزیر اعلیٰ اور اس سے بھی آگے گورنر یا وزیر اعظم اور صدر پاکستان؟ نہیں صاحب نہیں جب تک پوری قوم ہر مسئلے پر رائے نہ دے اس ملک کی نیا چل ہی نہیں سکتی۔ فوری طور پر زمانہ جدید کے طریقوں کے مطابق بیٹھکیں لگتی ہیں جنہیں عرف عام میں اب ویب نائر کہا جاتا ہے اور جس میں انتہائی پر کشش لوگ جدید ملبوسات زیب تن کرکے کیمروں کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں اور انہیں قطعی اس بات کی فکر نہیں ہوتی کہ ان کے فرمودات تین آدمی سن رہے ہیں یا تین ہزار کیونکہ انہوں نے تو اپنی سنانی ہے چاہے آپ سننے کے لئے تیار ہوں یا نہ ہوں۔ اس سب کا پورے ملک میں ایسے اہتمام کیا جاتا ہے جیسے اس وقت اس مسئلے کے حل پر ملک کی بقا کا دارو مدارہے اور یہی وہ ماہرین ہیں جو ملک کو اس مشکل وقت سے نکال سکتے ہیں۔اس لمحے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ بس اب جب تک یہ مسئلہ حل نہ ہو کوئی اور کام نہیں ہوسکتا اور سب نے مل کر اس مسئلے کو حل کرنا ہے ورنہ قیامت آجائے گی۔ اس قسم کے سنگین ماحول کو تحلیل ہوتے بھی زیادہ دیر نہیں لگتی۔ کوئی اور واقعہ یا کوئی اور سانحہ بس یہ جو کراچی کے مسائل حل کرنے کا جنون تھا ایسے غائب ہوگیا کہ جیسے کبھی کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا اور اب کیا ہو رہا ہے۔ جی ہاں ملک کے اجرتی مزدوروں کی طرح ہماری سوچ کے روزانہ کی دہاڑی پر کام کرنے والے اب جوق درجوق اس مسئلے پر محفلیں سجا رہے ہیں کہ ملک میں بڑھتی ہوئی جنسی جنونیت کو کیسے روکا جائے۔شاید ہی کوئی ٹی وی چینل ایسا ہو جس کے ماہرین اس معاملے پر اظہار خیال اور اس مسئلے کے اپنے اپنے خود ساختہ حل نہ پیش کر چکے ہوں۔ سچ بات یہ ہے کہ میں تو اب انتظار کررہا ہوں کہ کوئی اور مسئلہ سر اٹھائے تو ان سب دانشوروں خود ساختہ ماہرین اور گلی کوچوں کے ہر کونے پر موجود معاشرے کے ہر مسئلے اور ہر ٹوٹے دل کو جوڑنے والے جوگیوں کی طرح عوام کو اپنے حصار میں پھنسانے والے ان تبصرہ نگاروں کی توجہ اس کی طرف ہوجائے اور ہم ایک نئے کھیل سے لطف اندوز ہوسکیں۔ مسائل کا کیا ہوگا؟ اس بات کو تو بھول جائیں۔ وہی ہوگا جو کراچی کے مسائل کا ہوا۔دن رات کی چنگھاڑ کے بعد وفاقی حکومت نے پھر ایک دفعہ کراچی کے لوگوں کے ساتھ وہی کیا جس کے وہ اب عادی ہوگئے ہیں یعنی اعداد و شمار کے چنگل میں پھنسا کر تاثر تو یہ دیا کہ خان صاحب واقعی کراچی پر مہربان ہوگئے ہیں اور یکایک وفاقی حکومت اس سنجیدہ اور سنگین معاشی صورت حال میں بھی ۱۱ سو ارب کراچی کی بحالی اور اس کے شہریوں کی جان و مال کی حفاظت پر لگانے کے لئے تیار ہے۔ اس دفعہ جو کراچی کے ساتھ ہاتھ ہوا اس میں اور پچھلے دور کے وعدے وعیدوں میں یہ فرق تھا کہ اس بار جو لوگ کراچی کے عوام کے ساتھ نوسر بازی کا کھیل کھیلنے آئے تھے اس کھیل میںاس سے پہلے یہ سب شعبدے بازی کرنے والوں سے زیادہ ماہر اور کراچی کے لوگوں کے لئے ذرا زیادہ قابل اعتبار تھے جو افسوس اس کرتب کے بعد نہ رہے۔اقرار جرم بھی انہوں نے ہی کیا اور ایک ٹی وی پروگرام میںجھلا کر کہا چلو سات سو ارب سندھ حکومت کے باقی وفاق کے۔ یہ بات بھی سچ نہیں کیونکہ وفاق کے پیسے نہیں بلکہ تعمیراتی صنعت میں فراڈ کے جرم میں عائد جرمانے کی رقم سے بھی کراچی کے ساتھ کئے گئے وعدوں کی تکمیل ہوگی اور پھر کچھ بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے پیسے اور اس طرح مانگ تانگ کر پیوند لگا ایک حل کراچی کے لئے پیش کیا گیا جو ہمارے دکھوں کے مداوا سے زیادہ ہمارے زخموںپر نمک چھڑکنے کے مترادف تھا۔کیا کراچی کاموجودہ وفاقی حکومت کو اس شہر میں اکثریتی نمائندگی دلانے کا یہ صلہ ہے؟خیر تو ذکر ہورہا تھا کہ پورے ملک میںروزانہ اجرت کے ماحول میں کام ہورہا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس تمام شورمیں کراچی کے بنیادی مسائل پر کسی نے توجہ نہیں دی اور تمام مکاتب فکر کی سوئی کراچی کے گندے نالے صاف کرنے پر اٹکی رہی۔ ارے صاحب وہ بھی صاف ہوجائیں گے مگر پہلے یہ تو معلوم ہو کہ کراچی کی آبادی کتنی ہے اور اس میں مختلف علاقوں سے آئے ہوئے لوگ اور مختلف ملکوں کے مہاجرین کی تعداد کیا ہے۔جب تک یہ نہیں معلوم ہوگا منصوبہ بندی کیسی ہوگی مگر افسوس منصوبہ بندی کے میدان کے بڑے بڑے کھلاڑی اس سوال سے پہلو تہی کرتے ہوئے دیکھے گئے اور لگتا تھا ان کا مقصد محض لیپا پوتی کرنا تھا نہ حقائق کی تحقیق اور نہ حقائق پر مبنی حل پیش کرنا۔جب صحیح مردم شماری ہوگی تو یہ بھی پتہ چلے گا کہ نوجوان کتنے ہیں اور پھر یہ سوال بھی اٹھے گا کہ ان کی کثیر تعدادبے روز گار کیوں ہے اور ان کے پیدائشی شہر میں ان پر ملازمت کے دروازے کس نے بند کئے۔نالوں سے گندگی بعد میں ہٹائیں اس سے پہلے دماغوں میں بھری گند کا صفایا کریں جس نے کراچی کے نوجوانوں کے لئے روزگار کے نالوں کوتعصب کے پتھروں سے پاٹا ہوا ہے۔جب کراچی کے باسیوں کی صحیح تعداد معلوم ہوگی تو اس بات کا بھی اندازہ لگایا جاسکے گا کہ اس شہر کو کونسی بنیادی ضروریات کس تناسب سے فراہم کی جائیں۔اصل میں مردم شماری اور پھر صحیح اعداد و شمار کسی کے فائدے میں نہیں سوائے خود شہر کراچی
کے اور اس کے مسائل کے حل کے لئے۔ہر ادارے اور ہر حکومت کی منصوبہ بندی ہوائی اور روزانہ اجرت پر کام کرنے والوں کے انداز کی ہے۔خوب شور شرابہ کرو اور لوگوں کو کراچی کے مسائل کے حل کی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دو۔ بڑے بڑے سیمینار اور کانفرنس اور دانشوروں کے اعلانات مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ کچھ یہی کچھ جنسی جنونیوں کے معاملے میں ہورہا ہے۔ اس وقت پورا ملک اس پر مشورے دے رہا ہے اور وزیر اعظم تو بالکل کسی کیلے والی سلطنت کی طرح حل پر حل پیش کئے جارہے ہیں۔کبھی کہتے ہیں ٹانگ دو کبھی کہتے ہیں کہ کھسی کردو اور یہ سب ٹوئیٹ ہو رہا ہے جو پوری دنیا میں جا رہا ہے اور مہذب اقوام پریشان ہیں کہ ان کے یہاں قانون سازی ٹوئیٹر کے ذریعے ہوتی ہے؟ کہاں ہے حکومت کے قانون نافذ کرنے والے ادارے اور قانون ساز مجالس جو پوری دنیا میں اس قسم کی قانون سازی تحمل اور برد باری کے ساتھ معاملے کے ہر پہلو کو مد نظر رکھتے ہوئے کرتی یا ان میں ترامیم کرتی ہیں۔کس ملک کا وزیر اعظم ٹوئیٹ کے ذریعے ملک کے بنیادی قوانین میں تبدیلی کی ہدایت دیتا ہے اور اپنے ایک قریبی دوست کو نیا قانون بنانے کے احکامات بھی جاری کرتا ہے۔آپ بات کررہے ہیں کیلا جمہوریہ کی اور یہاں تو بات اس سے بھی آگے جاچکی ہر روز ایک نیا مسئلہ کھڑا ہوجاتا ہے اور پوری قوم اس کے حل پیش کرنا شروع کردیتی ہے جن کی بلا امتیاز تشہیر شروع ہوجاتی ہے اور پھر جیسے ہی کوئی نیا مسئلہ سامنے آیا پچھلے کو بیچ منجدھار میں چھوڑا اور پوری قوم نئے مسئلے کے حل پیش کرنے میں لگ جاتی ہے۔ مضبوط ادارے نہیں اور نہ مضبوط اور سلجھے ہوئے رہنما دستیاب ہیں۔ خدا خیر کرے نہ جانے اس کا نجام کیا ہوگا۔