پیر‘ 3 ؍ صفرالمظفر 1442ھ‘ 21؍ ستمبر 2020ء
گندا پانی پینے سے مرغا مرنے پر بچے کی بلاول پر کڑی تنقید
سانگھڑ کے اس بچے کی فی البدیہہ دکھی روداد سن کر تو یوں محسوس ہو رہا تھا گویا کوئی منجھا ہوا مقرر بول رہا ہے۔ اس کی فریاد
ہم نشیں آیا ہوں درد دل سنانے کے لئے
آج آمادہ ہوں سوتوں کوجگانے کے لئے
بھٹو مرحوم کی قبر پر لکھے اس شعر کی تفسیر لگ رہی تھی۔ غریب گھر کے اس بچے کی کل کائنات اس کا پیارا مرغا تھا جسے اس نے ویسے ہی محبت سے پالا تھا جس طرح آصف زرداری اپنے گھوڑوں کو اور سندھ کے رئیس وڈیرے۔ شاہ اور میر اپنے شکاری اور اعلیٰ نسل کے کتوں کو پالتے ہیں۔ اب یہ الگ بات ہے کہ ان گھوڑوں اور کتوں کو اعلیٰ خوراک جو مربوں، ڈاگ فیڈ اور گوشت و قیمتی جڑی بوٹیوں پر مشتمل ہوتی ہے میسر ہے۔ جبکہ اس غریب کے مرغے کو بچی کچھی روٹی اور دانے ملتے ہیں۔ اب جو سیلاب آیا تو سندھ کے بہت دوسرے دیہات کی طرح اس بچے کا گائوں بھی ڈوب گیا۔ سارا مال اسباب بہہ گیا۔ یہ بے سرو سامان ہو گئے۔ اب کئی ہفتے بعد ان علاقوں میں پانی کھڑا ہے جو نہایت گنداہے۔ یہی پانی پی کر اس بچے کا مرغا مر گیا تو بچہ اس کو گود میں لیے گھنٹوں گھنٹوں پانی میں کھڑے ہو کر سندھ کے حکمرانوں پر کچھ اس طرح برسا کہ لاکھوں افراد کو متاثر کر گیا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے انہیں یقین ہو گیا ہے کہ اب بھٹو مر گیا ہے۔ ورنہ ان کی یہ حالت دیکھ کر وہ ضرور آتا۔ اب سندھ پر بھٹو نہیں زرداری راج قائم ہے۔ جن پر ایک مرغا تو کیا سینکڑوں موروں کے بکروں، گائے بیلوں کے، معصوم بچوں کے بیمار بوڑھوں کے مرنے کا بھی اثر نہیں ہوتا۔ اب اس بچے کو جو نادان ہے کون سمجھائے کہ صبر کرو خون کے گھونٹ پی لو کیونکہ اب کوئی مسیحا آ کر اس مرغے کو زندہ نہیں کر سکے گا نہ کوئی چارہ گر آ کر پانی نکلوائے گا…
٭٭٭٭٭
فردوس شمیم نقوی نے اپنے بیان پر معافی مانگ لی
یہ بیان کیا تھا ایک زور آور طوفان تھا ۔ منہ زور بادل تھا جو اچانک آیا اور ماحول کو دھواں دھار بناکر گرج چمک کر برس کر چلا گیا۔ مگر سارے ماحول کو پراگندہ بھی کر گیا۔ جب جوش اُترا اور ہوش ٹھکانے آئے تو فردوس شمیم کو پتہ چلا کہ وہ کیا کہہ بیٹھے ہیں۔ پس پھر کیا تھا انہوں نے جھٹ اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے وزیراعظم اور وزرا سے معافی مانگ لی۔ اب ہر کوئی کہہ سکتا ہے سوائے اس کے کہ ’’ماڑی سی تے لڑی کیوں سی‘‘ یعنی کمزور تھے تو لڑے کیوں۔ اب دوسروں کو شرم دلاتے دلاتے فردوس جی خود ہی شرمندہ شرمندہ ہو رہے ہیں۔ کراچی ویسے ہی بحرانوں کی زد میں رہتاہے۔ کبھی بجلی کا کبھی پانی کا اور اب گیس کا بحران یہاں کے شہریوں کی جان کھا رہا ہے۔ فردوس شمیم بھی اسی بحران کے ہاتھوں پریشان لوگوں کی آواز بن کر احتجاج ریکارڈ کر رہے تھے اسی دوران ان کے منہ سے وزیراعظم اور دیگر وزرا کے لئے کچھ شرم ہوتی ہے حیا ہوتی ہے کا جملہ پھسل گیا۔ اب تو یہ جملہ بھی عام ہو گیا ہے۔ لوگوں دوسروں کو غیرت دلانے کے لئے کام پر اکسانے کے لئے یہ بولتے ہیں۔ مگر اعلیٰ حکومتی عہدیداروں وہ بھی اپنی ہی پارٹی کے لوگوں کو اس جملے سے نوازنا بہت مہنگا پڑ سکتا تھا شاید اب بھی پڑے۔ اس خطرے کے پیشِ نظروہ معافی مانگ چکے ہیں۔ مگر کہتے ہیں ناں تلوار کا زخم ہو جاتا ہے زبان کا نہیں بھرتا۔ اس حق گوئی یا یادہ گوئی کے پاداش میں دیکھنے میں کیا ہوتا ہے۔ ویسے بھی کہتے ہیں خدا تو اپنے بندے کی معافی قبول کر لیتا ہے انسان بہت کم کسی کو معاف کرتا ہے۔
٭٭٭٭٭
ٹک ٹاک اور وی چیٹ کی بندش امریکی غنڈہ گردی ہے۔ چین
عالمی سیاست کا ہمیں نہیں پتہ۔ یہ جن کاکام ہے وہی جانیں۔ مگرایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ہم خود پاکستان میں بھی یہ وی چیٹ اور ٹک ٹاک کے ہاتھوں بہت پریشان ہیں۔ لوگوں کی اکثریت ان پر مکمل پابندی کی خواہشمند ہے۔ مگر کیا کریں لوگوں کی سنتا ہی کون ہے۔ یہاں تو پب جی پر پابندی لگی تو چند دنوں میں ہی پابندی لگانے والوں کو اپنی کم مائیگی کا احساس ہو گیا۔ وہ ان لمبے اور مضبوط ہاتھوں کے آگے سرتسلیم خم کرنے پر مجبور ہو گئے جن کی مرضی سے یہ گیمز چل رہی ہے۔ اب ٹک ٹاک اور وی چیٹ تو بہت پاپولر ہیں ان کی جدائی لوگوں پر بہت گراں گزرے گی۔ یہی سوچ کر ہمارے ہاں ان پر پابندی نہیں۔ امریکہ نے بھی جو وی چیٹ اور ٹک ٹاک پر پابندی لگائی ہے وہ اصلاح معاشرہ کے لئے نہیں لگائی اس لئے لگائی ہے کہ آج کل امریکہ دنیا میں چین کی بڑھتی مقبولیت اور اس کی بنی چیزوں کی مانگ سے بہت پریشان ہے چین تجارت سے لے کر ٹیکنالوجی تک ہر چیز پر چھا رہا ہے۔ اس لئے چین کو لگام ڈالنے کے لئے امریکہ نے وی چیٹ اور ٹک ٹاک پر پابندی لگائی ۔ اب امریکہ کے اس اقدام پر چین بھی سیخ پا ہے۔ وہ اسے امریکی غنڈہ گردی قرار دے رہا ہے اور جوابی طور پر بدترین خطرناک نتائج کی دھمکی بھی دے رہا ہے۔ دیکھنا ہے اس جنگ میں کون فاتح اور کون مفتوح ہوتا ہے۔ فی الحال تو زبردست بیان بازی پر ہی زور ہے ساری دنیااسی کا مزہ لے رہی ہے سو ہم بھی لیتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
بھارتی فوجیوں پر خوف طاری ہو گیا
چین نے لداخ میں اور پاکستان نے لائن آف کنٹرول پر بھارتی سورمائوں کی وہ حالت کر دی ہے کہ اب ان دونوں ملکوں کا نام سنتے ہی بھارتی سورمائوں کی پتلون گیلی ہو جاتی ہے۔ میڈیا پر بڑھکیں مارنا اور بات ہے۔ میدان جنگ میں ثابت قدم رہنا اور بات ہے۔ اب جہاں جہاں پاکستانی فوجیوں کے بوٹوں کی دھمک گونج رہی ہو گی وہاں بھارتی مہاشے بھلاکب ٹک سکیں گے۔ اس لیے تو استر خان روس میں ہونے والی ان مشقوں سے بھارت نے راہ فرار اختیار کی ہے۔ بہانہ یہ بنایا ہے کہ اس میں چین اور پاکستان کے دستے بھی شرکت کر رہے ہیں جن سے بھارت کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ حیرت کی بات ہے۔ بھارتی فلموں میں تو اس کے یہ فوجی جیمز بانڈ اور ریمبو کو بھی پیچھے چھوڑتے نظر آتے ہیں۔ ایک ہی وار میں کشتوں کے پشتے لگاتے نظر آتے ہیں مگر عملی میدان میں یہ کسی طاقتور حریف کا سامنا کرنے سے بھی کتراتے ہیں۔