دہشتگردوں کے منظم ہونے کے خدشات بڑے اپریشن کے متقاضی
میرانشاہ میں دو جوان دہشتگردی میں شہید، آواران میں 4 دہشتگرد ہلاک اسلحہ کا بڑا ذخیرہ برآمد کیمپس تباہ
شمالی وزیرستان میں میرانشاہ کے علاقے اسپالگا میں دہشتگردوں کی فائرنگ سے پاک فوج کے دو جوان شہید ہو گئے۔ انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری بیان کے مطابق شمالی وزیرستان میں میرانشاہ کے علاقے اسپالگا میں خفیہ اطلاع پر آپریشن کیا جا رہا تھا کہ اس دوران دہشت گردوں سے فائرنگ کے تبادلے میں 2 جوان شہید ہو گئے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق فورسز نے علاقے کا محاصرہ کر کے کلیئرنس آپریشن شروع کر دیا ہے۔ شہید ہونے والوں میں حوالدار تاجور علی اور سپاہی راشد شامل ہیں۔ 38 سالہ حوالدار تاجور علی شہید کا تعلق سوات اور 22 سالہ سپاہی راشد شہید کا تعلق پارا چنار سے ہے۔ سکیورٹی فورسز نے بلوچستان کے ضلع آواران میں خفیہ آپریشن کے دوران 4 دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق سکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع پر بلوچستان کے ضلع آواران میں آپریشن کیا۔ اس ددوران گولہ بارود سمیت اسلحے کا بڑا ذخیرہ اور مواصلاتی آلات برآمد کئے گئے ہیں۔ ترجمان پاک فوج کے مطابق آپریشن میں دہشت گردوں کے کئی ٹھکانے اور انتظامی کیمپس تباہ کر دیئے گئے ہیں اور آپریشن میں فائرنگ کے تبادلے کے بعد 4 دہشت گرد ہلاک ہو گئے ہیں۔
دہشتگردی کے واقعات میں جنوبی و شمالی وزیرستان اور ملحقہ علاقوں میں تیزی آ رہی ہے۔ یہ وہ علاقے ہیں جو دہشتگردوں کا گڑھ رہے اور ان کے مضبوط ٹھکانے اسلحہ ساز کارخانوں سمیت موجود تھے۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی قیادت کو قوی دھارے میں شامل کرنے کی سیاسی اور عسکری قیادت کی کوششیں کیں مگر نہ جانے کس زعم، گھمنڈاور شاید دشمن کے ایما پر اس کا رویہ جارحانہ اور رعونت پر مبنی رہنا اور پھر دفاعی تنصیبات پر حملے اور سکیورٹی فورسز کو شدت اور تواتر سے نشانہ بنایا جانے لگا۔
جی ایچ کیو ، آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر ، کامرہ ائیر بیس اور پی این ایس مہران پر حملے تو پاکستان کے دفاع کو ناقابلِ تلافی نقصان سے دوچار کرنے والے تھے۔ مہران نیول بیس پر تباہ کئے جانے والے اواکس طیاروں کا کوئی متبادل نہیں۔ سکیورٹی فورسزکے سپوتوںکو شہید کر کے سروںکو کاٹ کر فٹبال بنا کر بھی یہ دہشتگرد کھیلتے رہے۔ علماکو شہید کیا گیا مزارات اڑا کر رکھ دئیے گئے۔ عام شہری بھی دہشتگردی کی زد میں آتے رہے۔ صبر و برداشت کی ایک حد ہوتی ہے۔ صبر کا پیمانہ لبریز ہونا ہی تھا اور پھر ان انسانیت کے دشمنوں کے خلاف پوری قوت سے فورسز بروئے کار آئیں۔ ان کے گڑھ تباہ کر دئیے گئے۔ ٹھکانے اکھاڑ پھینکے گئے۔ کئی دہشتگرد جہنم واصل ہوئے کئی اِدھر اُدھر بلوں میں دُبک گئے اور اکثرافغانستان فرار ہو گئے۔ جہاں بھارتی عمل دخل کے باعث ان کو محفوظ ٹھکانے میسر آئے۔ بھارت پاکستان میں دہشتگردی کے لئے پہلے بھی افغان سرزمین استعمال کرتا رہا ہے۔ اب بھی کر رہا ہے مگر پہلے کی طرح دہشتگرد طاقتور رہے نہ ان کے پاس اسلحہ و بارود کے ذخائر ہیں مگر پاکستان میں چھپے ہوئے دہشتگرد جب بھی موقع ملتا ہے کوئی نہ کوئی واردات کر دیتے ہیں۔
وزیرستان میں اب تسلسل سے دہشتگردی کے واقعات ہو رہے ، گو ایجنسیاں فعال اور فورسز متحرک ہیں کئی کارروائیوں کی منصوبہ بندی کی مخبری ہونے پر دہشتگردوں کو ہلاک بھی کیا گیا اور مقابلے میں فورسز کے افسر اور جوان بھی شہید ہوئے ہیں۔ دہشتگردی کی کوئی بھی کاروائی سہولت کاری کے بغیر ممکن نہیں۔دہشتگردوں کے سہولت تو شاید پورے ملک میں بھارت کی سرپرستی میں موجود ہوں مگر ان کی زیادہ تعداد وزیرستان کے ان علاقوں میں ہو سکتی ہے جو کبھی دہشتگردوں کے کنٹرول میںرہے تھے۔ افغان مہاجرین کے اندر اور ان کے بھیس میں بھی دشمن کے ایجنٹ موجود ہیں جو دہشتگردی اور سہولت کاری کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ پاک فوج نے کومبنگ اپریشن بھی کیا تھا جس کے بعد دہشتگردی کے واقعات نہ ہونے کے برابر رہ گئے تھے۔ دہشتگردوں کے اسلحہ کے حصول کے ذرائع بھی مسدود کر دئیے گئے تھے۔ اب کچھ عرصہ سے دہشتگردی کے واقعات میں گو معمولی ہی سہی مگر ایک تسلسل نظر آ رہا ہے جو وزیرستان اورملحقہ علاقوں میں دہشتگردوں کے منظم ہونے کے خدشات کو جنم دیتاہے۔ آج سیاسی اور عسکری قیادت کو جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ دہشتگردی کے واقعات میں تسلسل کیوں آ گیا ہے۔ افغان مہاجرین میں موجود دشمن کے ایجنٹوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ پاک افغان سرحد پر باڑ لگ رہی اور اب تکمیل میں مراحل ہے۔ اس بارڈر کے ایک ایک انچ کو سیل کرنا ہو گا بہتر ہے کہ افغان مہاجرین کو اب واپس بھجوا دیا جائے کیونکہ حالات اب وہاں بہتر ہو رہے ہیں۔ سہولت کاروں کے قلع قمع کرنے پر خصوصی توجہ دینا ہو گی ، ان کا تعلق سیاست سے ہو یا مذہب سے ہو، مصلحت سے کام لینے کا مطب خود کی تباہی کی پستی میں دھکیلنا ہے۔
کل دو بڑے واقعات ہوئے میرانشاہ میں خفیہ اپریشن کے دوران دو جوان شہید ہوئے۔ ایسا ہی دوسرا اپریشن آواران میں کیا گیا جہاں 4 دہشتگردہلاک کر دئیے گئے اوراس دوران گولہ بارود اور اسلحہ کا بڑا ذخیرہ بھی برآمد ہوا۔ کیمپس اور کئی ٹھکانے بھی تباہ کئے گئے ہیں۔ اسلحہ کے ذخائر کا ہونا حیران کن ہے اور دہشتگردوں کے کمپس کا ہونا تشویش ناک ہے۔ کیا دہشتگرد شمالی وزیرستان کی طرح آواران میں خودکو منظم اور مضبوط کر رہے ہیں۔ دہشتگردوں کو ان کے منظم ہونے اور پھر سے طاقت کے حصول سے ہر صورت روکنا ہے۔ اس کے لئے وسیع پیمانے پر اپریشن کی ضرورت ہو تو قطعی طور پر گریز نہ کیا جائے۔