جبری شادیوں کے کیس، پاکستان دنیا ٹاپ دس ممالک میں شامل
اسلام آباد ( سپیشل رپورٹ ) پاکستان دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہے جہاں جبری شادیوں کے کیس زیادہ ہوتے ہیں۔ گذشتہ برس دنیا بھر میں جبری شادیوں کے ایک ہزار سات سو چھپن واقعات سامنے آئے جن میں سے 40 فیصد کا تعلق پاکستان سے تھا۔ یہ بات برطانیہ کے فارن اینڈ کامن ویلتھ آفس میں جبری شادیوں کے تدارک کی یونٹ کی سربراہ ’’نیائوم کونولی‘‘ نے گذشتہ روز صحافیوں کے ایک گروپ سے بات چیت کرتے ہوئے بتائی۔ نیائوم کونولی کے ساتھ اسلام آباد میں برطانوی ہائی کمشن کی جبری شادیوں کی دیکھ بھال کرنے والی سفارتکار ’’این کوون‘‘ بھی تھیں۔ مختلف سوالات کا جواب دیتے ہوئے نیائوم کونولی نے بتایا کہ پاکستان نژاد برطانوی شہریوں میں جبری شادیوں کا رجحان موجود ہے۔ ہمارے ادارے کو جبری شادیوں کی اطلاع بعض اوقات جبری شادیوں کا شکار ہونے والے افراد دیتے ہیں یا پھر ان کے کسی دوست یا ٹیچر کے ذریعے معلومات ملتی ہے جس پر ہمارا ادارہ قانونی کاروائی کرتا ہے۔ نیائوم کونولی نے بتایا کہ برطانیہ میںشادی کی عمر 18 برس ہے۔ قانون کے مطابق جبری شادی وہ ہے جس میں مرد یا خاتون دونوں میں سے کسی ایک کی مرضی کیخلاف شادی کی جا رہی ہو۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ پاکستانی نژاد برطانوی شہری برطانوی ویزا حاصل کرنے کیلئے یا پھر خاندانی وجوہات یا جائیداد کی خاطر جبری شادیوںکے مرتکب ہوتے ہیں۔ جبری شادیوں کو روکنے کیلئے ہمارا پاکستانی حکام خاص طور پر پولیس حکام کے ساتھ رابطہ کرتا ہے اور ان کے تعاون سے ہم شکایت کرنے والے مرد یا خاتون یا پتہ چلا کر ان کی مدد کرتے ہیں۔ جبری شادیوں کے تدارک کیلئے برطانیہ پاکستان میں کئی این جی اوز بھی کام کر رہی ہیں۔ جبری شادیوں میں پاکستان کے علاوہ کشمیر سے جانے والے افراد شامل ہیں۔ پاکستان کے علاوہ بھارت، بنگلہ دیش، صومالیہ، عراق، افغانستان سمیت چالیس ممالک کے افراد جبری شادیوں کے مرتکب پائے گئے ہیں۔ اس رجحان کو روکنے کیلئے میڈیا، این جی اوز، اور مذہبی سکالرز کا تعاون بھی حاصل کیا جاتا ہے۔