کچھ دنوں سے مجھے لگ رہا تھا کہ ان بارشوں میں دوسری منزل کی چھت ضرور ٹپکے گی…میں گھر میں اکیلا کمانے والا تھا۔ ایک معمولی سرکاری ملازم تھا۔ بیگم زیادہ پڑھی لکھی نہیں تھی۔ اماں بیمار رہتی تھیں۔ گھر میں بیگم ہر وقت چلتی پھرتی اور بولتی ہوئی نظر آتی تھی۔ ہرچیز کو گن گن کر رکھتی تھی۔ کل کتنے کباب بنا کر فریج میں رکھے، برائون گلاس سیٹ کا صرف ایک ہی گلاس تو ٹوٹا تھا۔ اب صرف تین گلاس کیوں نظر آتے ہیں، چھوٹو نے کھانا پلیٹ میں چھوڑ کر ضائع کیوں کیا، صحن میں چار کرسیوں کے علاوہ ایک کرسی کچے صحن کی دوسری طرف رکھی رہتی تھی۔ اب کہاں گئی؟ ارے یار اس کرسی پر تو کوئی بیٹھتا بھی نہیں تھا۔ تمہیں اس کی بھی فکر ہے؟ میں اکثر ہنستے ہوئے اس کا ریکارڈ لگایا کرتا تھا۔ کبھی اس کو منشی جی کہتا تو کبھی فنانس منسٹر کبھی کبھی وہ روٹھ بھی جاتی تھی۔
ایک دن اماں مجھے کہنے لگیں۔ ’’تمہیں لگتا ہے کہ تمہاری بیوی چیزیں گنتی ہے۔ دراصل وہ تمہاری اس گھر کے لئے کی گئی محنت کا ہر ایک پل گنتی ہے۔ میں نے اکثر د یکھا ہے کہ تمہارے کپڑے دھوتے ہوئے وہ تمہاری قمیض کے پھیکے پڑتے رنگوں اور ادھڑتے دھاگوں کو بہت عزت سے دیکھتی ہے۔ تم آج کا سوچتے ہوئے سو جاتے ہو اور وہ کل کا سوچتے سوچتے جاگتی رہتی ہے۔ اس لیے عورت جلدی بوڑھی ہو جاتی ہے کہ وہ بہت سوچتی ہے‘‘…میں نے اپنے اردگرد دیکھا۔ ڈرائنگ ٹیبل پر پورے پانچ برائون گلاس نہ جانے کب کسی نے بڑے قرینے سے رکھ دئیے تھے اور باہر کچے صحن کے دوسری طرف رکھی اُسی ایک اکیلی کرسی پر بیٹھی میری بیگم چھوٹو کو پلیٹ میں بچا ہوا کھانا کھلا رہی تھی۔
اسی لمحے نہ جانے کیوں مجھے لگا کہ میری چھت کبھی نہیں ٹپکے گی۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024