بانی پاکستان قائد اعظمؒ نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ ہندو 72 سالوں سے ہمارے کشمیری مسلمان بھائیوں پر مظالم ڈھا رہا ہے۔ ہماری کشمیری بہنوں، بیٹیوں اور مائوں کی عزتوں کی پامالی کی جاتی ہے۔ بچوں کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ ایک عرصہ سے پاکستانی حکومت کی طرف سے ہر سال 5 فروری کو تعطیل کی جاتی ہے اور سرکاری طور پر وزیر اعظم کی طرف سے یہ اعلان کر دیا جاتا ہے کہ ہم ’’کشمیریوں کی سفارتی اور اخلاقی اور سیاسی حمایت جاری رکھیں گے‘‘۔ موجودہ حکومت کو تو ابھی ایک سال کا عرصہ ہوا ہے یہ ہم سابقہ حکومتوں کی کشمیریوں کے لیے کی گئی کوششوں کا ذکر کر رہے ہیں۔ جس طرح آج وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کہہ رہے ہیں کہ اُمہ کے بھارت کے ساتھ مفادات ہیں اور اُنہیں اپنے مفادات عزیز ہیں۔ یہی صورتحال ہمارے ملک میں حکومتوں کی بھی رہی ہے لہٰذا سابقہ ادوار میں 5 فروری کی تعطیل اور مذکورہ بالا سرکاری بیان سے آگے کشمیری مسلمانوں کیلئے ہم کچھ بھی نہیں کر سکے تھے سابقہ پانچ سال بھارت میں عالمی دہشت گرد مودی کی حکومت رہی اور اب دوبارہ پاکستان دشمنی کی بنا پر بھارتی ہندو عوام نے اسے وزیر اعظم بنایا ہے۔ مودی کی مسلم دشمنی سب پر عیاں ہے۔ بھارتی صوبہ گجرات میں جب یہ وزیر اعلیٰ تھا، اس نے ہزاروں مسلمانوں کا قتل کرایا۔ چند روز قبل وزیر اعظم عمران خان جب دورہ امریکہ پر گئے تو امریکی صدر ٹرمپ نے ان کو کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی جسے ہمارے ہاں حد سے زیادہ سراہا گیا لیکن بحیثیت مسلمان ہم یہ بھول چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے کہ کافر کبھی بھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے۔ ظاہر ہے حکومت پاکستان آج کل افغانستان میں امن کیلئے طالبان کے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کرانے میں ممد و معاون ثابت ہو رہی ہے لہٰذا امریکیوں کو بھی اپنے مفادات عزیز ہیں لہٰذا ٹرمپ نے ’’ثالثی‘‘ کی پیشکش کر کے ہمیں وقتی طور پر خوش کر دیا۔ بات کر رہے تھے ہماری سابقہ حکومتوں نے مسئلہ کشمیر میں قوت اور جان ڈالنے کی بجائے کس حد تک کمزور کیا۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے مودی کے ساتھ ذاتی تعلقات ہیں۔ اس حد تک کہ ایک دوسرے کی دعوتوں میں بھی شریک ہوتے ہیں۔ چند سال قبل نواز شریف کی نواسی کی شادی کے موقع پر مودی موصوف کی د عوت پر رائے ونڈ لاہور آیا اور کئی گھنٹے قیام کیا۔ ایک عالمی دہشت گرد مودی کو جب وزیر اعظم پاکستان اپنے گھر دعوت پر بلائے گا تو کشمیر کا مسئلہ کمزور نہیں ہو گا؟ پھر سابقہ کئی حکومتوں نے کشمیر کمیٹی کیلئے فضل الرحمن کو چیئرمین بنا رکھا تھا۔ فضل الرحمن صاحب کے والد صاحب نے جناب مجید نظامی کے سامنے کہا تھا کہ ’’شکر ہے ہم پاکستان بنانے کے جُرم میں شریک نہیں تھے‘‘ تو فضل الرحمن صاحب نے مراعات حاصل کرنے کے سوا کشمیر کیلئے کیا خدمات سرانجام دیں وہ سب کے سامنے ہیں۔ حکومت سے پہلی بار مولانا صاحب باہر ہوئے تو جیسے مچھلی پانی سے باہر تڑپتی ہے ’’مولانا‘‘ کی بے چینی بھی ایسی ہی ہے۔ حکومت گرانے کیلئے ’’مولانا‘‘ نے بہت کچھ کیا۔ ریلیاں نکالیں مگر کشمیر کی موجودہ صورتحال میں مجال ہے مولانا کا ایک بیان بھی سامنے آیا ہو۔ٹرمپ کے ثالثی کے بیان کے بعد کشمیر میں کرفیو لگا رکھا ہے۔ مسجدوں میں تالے لگا دئیے ہیں۔ یوں کہئے کہ ہمارے کشمیری بہن بھائیوں کا جینا محال ہے، ایسی صورت حال میں ہمیں اب کیا کرنا چاہئے۔ موجودہ حکومت نے کشمیر کیلئے جو بھی سفارت کاری کی وہ قابل تحسین ہے۔ 14 اگست کو وزیر اعظم نے مظفر آباد پارلیمنٹ میں خطاب کیا اور کہا کہ اگر مودی تم نے حملہ کیا تو اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے۔ ہمارے آرمی چیف بھی بار بار کہہ رہے ہیں کہ کشمیر کے بارے کسی بھی سمجھوتے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور پاک فوج کسی بھی بھارتی جارحیت کا جواب دینے کیلئے ہر وقت تیار ہے۔ 15 اگست کو بھارتی فوم آزادی کے دن صرف پاکستان میں ہی نہیں پوری دنیا میں ’’بھارتی یوم سیاہ‘‘ منایا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اتنا کافی ہے؟ مودی نے 15 اگست کو کہا کہ 70 سال میں بھارت میں جو حکومتیں نہیں کر سکیں ہم نے 70 دنوں میں کر دیا‘‘ ہمارے ہاں بار بار کہا جا رہا ہے کہ اگر بھارت نے جنگ کی تو ہم جواب دیں گے۔ کیسی بات ہے جنگ تو وہ 72 سال سے کشمیر میں کر رہا ہے۔ اگر ہم واقعی کشمیر کو اپنا حصہ سمجھتے ہیں اور اسے شہ رگ قرار دیتے ہیں اور کشمیری مسلمانوں کو یک جان دو قالب سمجھتے ہیں تو کئی روز سے کشمیر میں کرفیو لگا کر اور 9 لاکھ فوج وہاں کھڑی کر کے جنگ تو شروع کر دی گئی ہے اب ہم انتظار کس کا کر رہے ہیں ، ہم تو مسلمان ہیں، اللہ کی مدد ہر لمحہ ہمارے شامل حال ہے، خاتم البنینؐ کے صدقے ہم تو جیتی ہوئی ایک قوم ہیں۔ مرنے کے بعد اللہ کے حضور جانے پر ہمارا ایمان ہے۔ ہم تو اللہ کی راہ میں جان دے کر بھی شہید اور زندہ رہتے ہیں۔ ہم دوسرے ملکوں سے کیوں مدد کی توقع کیے ہوئے ہیں۔ یہ تو ہمارے ایمان کی کمزوری کی علامت ہے۔ ہمارے گھوڑے تیار ہیں۔ ہمیں اللہ کا نام لیکر اپنے ازلی و ابدی دشمن پر حملہ کر دینا چاہئے۔ جنگ ایٹم بم یا ہتھیاروں سے نہیں لڑی جاتی جنگ جذبوں کے ساتھ لڑی جاتی ہے۔ ہمارے 22 کروڑ عوام کا ایک ایک بچہ بھی پاک فوج کے ساتھ سر پر کفن باندھے کھڑے ہے اور شہادت کیلئے بے تاب ہے۔ ہم شروع سے مذاکرات کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ ہم اس آقاؐ کے اُمتی ہیں کہ جسکے ماننے والے بے شک سینکڑوں میں ہوں ہزاروں پر بھاری ہوتے ہیں۔ مزید باتوں کی نہیں اب عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اب جنگ کرنے میں ہمیں ذرا بھی دیر نہیں کرنی چاہئے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024