یوں تو ہمارے حکمران اور رعایا اکثر اس بات سے شاکی ونالاں رہتے ہیں کہ ہمارے ادارے زبوں حالی کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔جدید ترین دور، عمدہ تنظیمیں اور حکمرانوں و دیگر مشیروں کے علاوہ افسران کی بھرمار ہے جو ان تمام اداروں کا جائزہ بھی لیتی رہتی ہے۔کام کرنیوالے بھی لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔ دیکھا جائے تو اب چیک اینڈ بیلنس بھی کافی زیادہ بڑھ چکا ہے۔سو پہلے والی کرپشن کافی حد تک ختم نہیں تو کم تو ضرور ہوچکی ہے۔ ملازمت کا پورا حساب کتاب دینا پڑتا ہے۔ ادارے زبوں حالی کا شکار نہیں ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ کافی حد تک بہتری آئی ہے۔ اگرچہ کہیں کہیں حالات یکسر مختلف نظر آتے ہیں اس کی وجہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کیا ان اداروں پر اْس طرح سے سختی نہیںکی جارہی جس طرح دوسرے شعبہ جات میں دیکھنے آرہی ہے۔ مثال کے طور پر ان میں نمایاں ترین ادارہ محکمہ پولیس ہے۔ اگرچہ پولیس کے نام پر چند ایک اچھے کارنامے بھی ہیں‘ لیکن ایسا شاذشاذ ہی نظر آتا ہے کہ کوئی ایماندار افسر اپنی ذاتی اچھائی کی بنیاد پر کچھ اچھے کام کر گزرا ہو وگرنہ حالات نہایت ابتر ہیں۔ بدقسمتی سے قانون کے ان رکھوالوں کا شعبہ دراصل عوام میں شروع سے اب تک دہشت اور ناانصافی کی علامت بن چکا ہے اور اس تصور کو کوئی توڑ نہیں سکا۔ لوگ دور ہی سے پولیس والوں کو دیکھ کر خوفزدہ ہوجاتے ہیں اگرچہ وہ بے قصور ہی کیوں نہ ہوں۔ پاکستان اور خصوصا" پنجاب پولیس شروع سے اپنے کارناموں کی وجہ سے بدنام ترین ہے اور اسکی وجہ پولیس کا نہایت سنگدلانہ اور بے رحمانہ رویہ ہے۔پچھلے کئی دن سے میڈیا کے ذریعہ بے شمار کارہائے نمایاں سامنے آچکے ہیں جہاں پولیس گردی سے بے شمار لوگ اپنی جانیں اور اپنی عزتیں گنوا بیٹھے ہیں۔ زیرِ حراست لوگوں کی موت کے پے درپے واقعات نے عوام کو مزید خوفزدہ کررکھا ہے۔ ایک انگریزی اخبار نے لکھا ہے کہ پنجاب آجکل سنگدل پولیس کا مقبوضہ علاقہ بنا ہوا ہے۔ تاریخ مرتب ہورہی ہے نہ اس سے قبل اس طرح کے واقعات کو سنجیدگی سے لے کر محکمہ پولیس پر سختی کی گئی اور نہ ہی اب ایسا کوئی سبق نظر آتا ہے۔ قانون تو سب کیلئے یکساں ہے۔ خواہ وہ کوئی بھی محکمہ ہو۔ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں‘ لیکن ستم یہ ہے کہ پاکستان میں خصوصاً قانون کی نظر میں سب ہرگز برابر نہیں ہے۔ یہاں بھی طاقتور کا سکہ چلتا ہے۔ پولیس خود کو ہی قانون کہتی ہے اور سمجھتی ہے انکی نظر میں انکے بنائے ہوئے اصول ہی عوام پر لاگو ہوتے ہیں اور وہ خود بھی ان سے بالاتر ہیں کیا ایک شخص اپنی حدود کو کراس کرتے ہوئے اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے جلاد اور قصاب بن کر انسانوں کو بے رحمی سے مارے گا اور تشدد کرے گاتو کیا اس پر کسی قانون کا اطلاق نہیں ہوگا؟ اس شعبہ کی نگرانی آخر کس کے سپرد ہے۔ ان کو ان کے مظالم سے ہاتھ روکنے والا کیا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ان کو ان کے اصل فرائض سے آشنا کرنے والی کوئی ٹیم، کوئی سربراہ ہیں ہے جو انکے اصل فرائض سے ان کو آگاہ کرتا رہے۔ اگر کوئی ہے تو پوشیدہ کیوں ہے ہم، آپ سب کو نظر کیوں نہیں آتا۔ چند روز قبل پولیس حراست میں مارے جانے والا صلاح الدین آپ کو یاد ہوگا۔ عامر مسیح کی ویڈیو بھی آپ نے ضرور دیکھی ہوگی جس میں وہ رو رو کر اپنی حالتِ زار بیان کر رہا تھا۔ کیا اْس کی کسی نے سنی؟ نہیں سنی ورنہ وہ بعد میں مزید تشدد سے مارا نہیں جاتا‘ لیکن اب بہت ہوگیا۔ اب قومی سطح پر اس حوالے سے سنجیدگی سے سوچنے اور اس شعبہ کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ وزیراعظم نے وزیراعلیٰ کو بلا کر کہا ہے کہ وہ انکی پولیس کے حوالے سے کارکردگی پر خوش نہیں ہیں‘ لیکن اْنہیں خود بھی اس طرف بطور خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے یہاں معمولی سرزنش سے کام بننے والا تو ہرگز نہیں ہے۔ سختی سے ان کیلئے بھی قوانین بنانے اور اْن پر تیزی سے عمل درآمد کروانے کی اشد ضرورت ہے۔ ہم میڈیا میںکچھ سرگرم خبریں سنتے ہیں۔ اْن پر کچھ دن گرما گرم بحث بھی کرتے ہیں اور پھر سب کچھ فراموش کردیتے ہیں۔ اصل میںپہلی فراموشی مزید ڈھیل کا سبب بن جاتی ہے اور نظام پھر سے پہلے والی ڈگر پر چلنے لگتا ہے۔ ہمارے اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑتے ان مظالم کیلئے اب خاموشی اختیار نہیں کرنی بلکہ اس لئے تب تک دبتی آواز بلند کرنا ہوگی جب تک خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آجاتے۔ ایک عام شخص کو جب کوئی مشکل یا پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ فورا" پولیس اسیٹشن کا رخ کرتا ہے۔ اب اگر حالات اس نوعیت کے ہوں تو وہ مظلوم اپنی فریاد لے کر کس دربار کی زنجیر ہلانے جائے؟ ان واقعات کے بعد پولیس کے خود اپنے لئے دانشمندانہ فیصلہ پر ذرا توجہ کیجئے کہ اب تھانوںمیں اہلکاروں سمیت دیگر افراد کا بھی کیمرہ موبائل لے کر جانا ممنوع قرار پایا ہے۔ یعنی اپنے لئے کیسی عقل استعمال کی اور بچائو کاکیسا مؤثر طریقہ استعمال کیا ہے۔ مطلب اندرونِ خانہ حالات تو وہی رہیں گے بس اب ان کا کچا چٹھا کھولنے والے آلات پر پابندی لاگو ہوگی۔ ابھی کل ہی میں خبر سن رہی تھی کہ فلپائن کے صدر نے نیا قانون بنایا ہے کہ جہاں بھی کرپشن نظر آئے اور کرپٹ بندے کی نشاندہی ہو جائے تو عوام اْس کو سرعام گولی مارسکتے ہیں۔ یقین مانیں خبر سن کر طبیعت خوش ہوگئی۔ یہ ہوتے ہیں قانون اور ملک سے کرپشن اور ظلم ختم کرنے کا فوری اور پراثر فیصلہ۔ اب یقینا وہاں کسی شخص کو اتنی ہمت نہیں ہوگی کہ وہ کچھ غلط کرے۔ خود وڈیو میں وڈیو بنانے والے اہلکار نے بیان دیا کہ ہمارے پاس مارنے اور تشدد کرنے کی ایسے ایسے طریقے ہیں کہ اگر کسی نے زندگی میں کبھی مکھی بھی نہ ماری ہو تو وہ بھی بیان دیگا کہ قتل میں نے کیا ہے۔ ایسا تو نہیں کہ اس رویہ سے صرف عوام الناس ہی آشنا ہیں۔ ہمارے حکمران بھی سب جانتے ہیں‘ لیکن اب یہ خاموشی بہت مشکلات لیکر آئیگی۔ سڑکوں اور شاہراہوں پر سیکورٹی چیکنگ کے نام پر کبھی پریشان کیا جاتا ہے تو کبھی تھانوں میں بندغریب اور لاچار پولیس کی شاندار کارکردگی کا نشانہ بنتے ہیں اب لوگ تھانے جاکر نہیں تھانے سے کوسوں دور رہ کر خود کو زیادہ محفوظ تصور کرتے ہیں اگرچہ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ پولیس والے سخت ترین حالات میں بھی اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔ دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کی بھینٹ بھی چڑھ جاتے ہیں۔ بہت سے شہدائے پولیس کے کارنامے واقعی لائق تحسین ہیں جن کو یاد رکھا جاتا ہے۔ میں اس وقت براہِ راست پولیس والوں کو درخواست بھی کرتی ہوں اور حکومتِ وقت سے بھی التجا کرتی ہوں کہ وہ اس طرف خصوصی توجہ دے۔ آپ لوگ معاشرے کے محافظ ہیں ان لوگوں کو تحفظ دیجئے۔ گناہ گاروں کو ضرور پکڑئیے اور اْن سے حسب منشا اپنی حدودوقوانین کے اندر رہ کر سزائیں بھی تجویز کیجئے‘ لیکن خدارا عام عوام کے دل سے اپنی دہشت اور خوف ختم کرکے انکے مسائل کو سنئے اور ان کا سدِ باب کیجئے کہ آپکی ذمہ داریاں بہت بھاری اور اہم ہیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024