گزشتہ چھ دہائیوں سے انسانی وسائل کی ترقی یا غریبی ہٹانا ہماری ترجیح نہیں رہا ہے اور آج ہم جس صورتحال سے گزر رہے ہیں‘ وہ اتنی گمبھیر ہے کہ حکومت پر نہ صرف بیرونی قرضوں بلکہ اندرونی قرضوں کا بھی بوجھ ہے جس میں ہر حکومت کو اصل زر کے ساتھ سود بھی ادا کرنا پڑتا ہے جس کا نتیجہ غربت اور مہنگائی کی صورت میں آتا ہے۔ موجودہ حکومت کو جو انفراسٹرکچر ملا ہے‘ وہ اس قدر کمزور ہے کہ اسے سنبھالا دینے کیلئے لوٹی ہوئی رقم کی واپسی اور کرپشن پر کاری ضرب ضروری ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ دھرنوں سے نہ تو حکومتیں گرائی جا سکتی ہیں اور نہ ہی استعفیٰ لیا جا سکا ہے بلکہ سیاسی انتشار اور خلفشار میں مزید اضافہ ہی ہوا ہے۔ گزشتہ دس سالوں سے پاکستان میں بچتوںکی شرح 13 فیصد ہے جسے کم از کم 23 فیصد تک ہونا چاہئے تاکہ اقتصادی ترقی چھ یا سات فیصد سالانہ ممکن ہو سکے۔ موجودہ حکومت بھی ان ہی مسائل کا سامنا کر رہی ہے اور اب صورتحال یہ ہے کہ مہنگائی کا جن بوتل سے باہر نکل آیا ہے اور جو کام ساٹھ سالوں میں ہونے والے تھے وہ سارے کے سارے موجودہ حکومت کے کھاتے میں آگئے۔ تکنیکی پہلوئوں سے دیکھا جائے تو معیشت میں اتار چڑھائو آتے رہتے ہیں۔ انسانی سماج نہ ہی مشین ہے کہ صبح و شام کام کرتا رہے۔ انسان چونکہ بے حد جذباتی حیوان ہے لہٰذا اس کا ردعمل ظاہر کرنے کا انداز بھی پیچیدہ ہے۔ لہٰذا اتار چڑھائو کے بعد استحکام یقینی ہے‘ اگر باہمی اختلافات رنجشوں اور دھرنوں کی سیاست کو ختم کرکے واقعی عوام کو غربت کی دلدل سے نکالنے کیلئے کام کیا جائے‘ لیکن ہمارے ہاں یہ سلسلہ چل پڑا ہے کہ ہمارے ذاتی اختلافات اور سیاسی رنجش کبھی ایک پلیٹ فارم پر سیاسی رہنمائوں کو اکٹھا نہیں کر سکی ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے معیشت دیوالیہ ہو جاتی ہے اور حکمران طبقہ کی تمام تر توجہ اندرونی خلفشار سے نمٹنے میں صرف ہو جاتی ہے اور یہ سلسلہ نہ تو ملکی استحکام کیلئے خوش آئند ہوتا ہے اور نہ ہی دیگر مسائل سے نبرد آزما ہونے کیلئے سودمند ہوتا ہے اور ترقی کی رفتار سست پڑ جاتی ہے۔ اس وقت حکومت کو ڈینگی‘ کشمیر‘ مہنگائی‘ معاشی عدم استحکام جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ کسی بھی اقتصادی فکر کیلئے ضروری ہے کہ فکری بحران نہ ہو۔ اختلافات تو جمہوریت کا خاصہ ہیں‘ اگر وہ تعمیری اور پُرامن رہیں۔ کسی بھی مسئلہ پر جذباتی ردعمل‘ مڈٹرم الیکشن کے حالات پیدا کرنا یا حکومتوں کو گھر بھیجنا‘ یہ وہ عوامل ہیں جو مسائل کا حل نہیں بلکہ اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ملکی اور عالمی سطح پر یہ ضروری نہیں کہ اقتصادی ترقی کے ثمرات خود بخود نیچے تک پہنچ جائیں۔ اس لئے کہ مخصوص کوششوں کا کیا جانا بھی ضروری ہوتا ہے تاکہ ترقی کے ثمرات سے زیادہ سے زیادہ لوگ مستفید ہو سکیں۔ اس کا بہترین حل اقتصادی اور انسانی ترقی کے بارے میں پالیسیاں ناقص نہ ہوں۔ دوسری طرف یہ بات بھی ثابت ہو چکی ہے کہ اقتصادی ترقی سب کیلئے مفید ہوتی ہے۔ لہٰذا ماہرین کا خیال ہے کہ غلط پالیسیوں‘ سازشوں‘ ناسازگار صورتحال کی بدولت اقتصادی ترقی رک جاتی ہے۔ جن ممالک کی پالیسیاں فی کس قومی پیداوار میں اضافے پر مرکوز ہیں‘ بہت کم ایسا ہوا ہے کہ اقتصادی ترقی کے ثمرات نیچے تک پہنچ پاتے ہیں۔ یاد رہے کہ اس موقع پر جب کہ معیشت روبہ زوال ہو‘ تمام سیاسی جماعتیں سر جوڑ کر اس مسئلہ کے حل کی بجائے دھرنوں اور سازشوں کی طرف رخ موڑ لیتی ہیں تو سیاسی بحران پیدا ہو جاتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں اس قدر داخلی مسائل ہیں کہ ان پر کوئی دوا کارگر ثابت نہیں ہوتی ہے۔ مثلاً دنیا کے غریب ترین ممالک کی ڈوبتی معیشت کی ایک بڑی وجہ ان کے آپس کے اختلافات اور خانہ جنگی ہے۔ ان ممالک میں موزمبیق‘ بھارت‘ روانڈا‘ ایتھوپیا‘ مالے‘ ہیٹی‘ نائیجیریا جیسے ممالک شامل ہیں۔ انصاف کا حصول اور بدعنوانی کی روک تھام ایسے حساس مسائل ہیں کہ جن پر قابو پائے بغیر نہ تو غربت کا خاتمہ ہو سکتا ہے اور نہ ہی کوئی ایسا اقتصادی ڈھانچہ مرتب دیا جا سکتا ہے جو شہریوں کو بنیادی حقوق مہیا کر سکتا ہے۔ اقتصادی ترقی کیلئے جس سوشل ایسٹ کی ضرورت ہے وہ جمہوریت اور قانون کی بالادستی ہے جس کی طرف ہماری سیاسی جماعتوں کا دھیان نہیں ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024