کشمیر کے مسئلے پر حکومت کے کسی وزیر نے دلجمعی، عقلمندی، بہادری، لگن اور جوش و جذبے کے ساتھ کام کیا ہے تو و ہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ہیں۔ انہوں نے ہر لمحہ مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کیلئے بہترین انداز میں اسے دنیا کے سامنے پیش کرنے اور بھارتی مظالم کو بے نقاب کرنے کے لیے بہترین حکمت عملی ترتیب دی ہے۔ سفارتکاری کے شعبے میں انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ آج اگر کشمیر کے بارے دنیا کی رائے بدل رہی ہے تو اس میں بہت بڑا کردار پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا ہے۔
دوست ممالک کو ہر لمحہ بدلتی ہوئی صورتحال سے آگاہ کرنا، بھارتی مظالم پر عالمی طاقتوں کی توجہ دلانا، اہم عالمی شخصیات سے رابطہ کرنا اور انہیں حقائق سے آگاہ کرتے ہوئے کشمیریوں کے مصائب و مسائل اور نریندرا مودی کے ہندوتوا کے منصوبے کو دلائل کے ساتھ ثابت کرنا شاہ محمود کا ہی کمال ہے۔ یہ تنازعہ کب حل ہوتا ہے۔ کب کشمیری بھارتی تسلط سے آزاد ہوتے ہیں، کب انہیں بھارتی فوج کے مظالم سے نجات ملتی ہے اس بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ شاہ محمود قریشی نے گزشتہ چند ہفتوں میں جس بہترین انداز میں عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اٹھایا ہے یہ ان کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ انہوں نے غیر روایتی طریقے اپنائے، وزارت خارجہ کو متحرک رکھا، ہر وقت دنیا کے ساتھ رابطے میں رہے، وہ لوگ جو کشمیر کو تنازع ہی نہیں مانتے تھے آج وہ بھی اسے اہم ترین مسئلہ سمجھ رہے ہیں تو اس میں نریندرا مودی کے ظالمانہ اقدامات کے بعد سب سے اہم شخصیت پاکستان کے وزیر خارجہ ہیں۔
پچاس سال کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کشمیر پر بات چیت ہونا، امریکی سینیٹرز کا ایک ہفتے سے کم عرصے میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بھارتی مظالم پر دو مرتبہ خط لکھنا یہ سب کسی کی کوششوں کا ہی نتیجہ ہے۔
آج یورپی یونین میں بھی کشمیر پر بات چیت ہو رہی ہے۔ یورپی یونین بھی بھارتی مظالم کے خلاف آواز بلند کر رہی ہے۔ وہاں کشمیریوں کے مسائل زیر بحث ہیں۔ وہاں اہم شخصیات کرفیو، لاک ڈاون، رابطوں کے ذرائع منقطع ہونے، میڈیا پر پابندیوں، ہزاروں افراد کی گرفتاریوں، سیاسی رہنماؤں کی نظر بندیوں، ادویات کی عدم دستیابی سمیت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش پائی جاتی ہے۔ اہم فورمز پر تمام تفصیلات کو بہم پہنچانے غیر جانبدار افراد کے سامنے تصویر کا دوسرا رخ پیش کرنے کا فریضہ شاہ محمود قریشی نے بہترین انداز میں انجام دیا ہے۔ بحیثیت وزیر خارجہ انہوں اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہے اگر ماضی میں بھی ہماری وزارت خارجہ اتنی متحرک ہوتی، ہمارا وزیر خارجہ کشمیر کے مسئلے پردو ٹوک موقف اختیار کرتا، مصلحتوں کا شکار نہ ہوتے تو آج دنیا کا نقشہ مختلف ہو سکتا تھا لیکن بدقسمتی سے ماضی میں بھارت کی ناراضی سے بچنے اور امریکہ بہادر کو خوش کرنے کے لیے دوغلی پالیسی اختیار نہ کرتے تو کشمیر کا مسئلہ حل ہو چکا ہوتا۔ ہم ذاتی مفادات اور تعلقات قائم کرنے میں لگے، کشمیریوں کا خون بہتا رہا اور ہم ثقافتی وفود کے تبادلوں اور تجارت سے ہی خوش ہوتے رہے۔ حالانکہ کشمیر ہماری شہ رگ ہے۔ دشمن اس پر قابض رہا، جب دل چاہتا دبا دیتا، جب دل چاہتا شہ رگ کاٹنے کی باتیں کرنا لیکن ماضی کی حکومتوں نے تعمیری کام کے بجائے وقت گذارنے کی پالیسی اختیار کی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کہ آج ہزاروں کشمیری بھارتی جیلوں میں ہیں۔ لاک ڈاؤن ہے، روزانہ شہادتیں ہو رہی ہیں۔ تشدد ہو رہا ہے، عزتیں پامال ہو رہی ہیں جنہوں نے کشمیر کو نظر انداز کیا ہے وہ آج بھی سیاست کر رہے ہیں۔ شاہ محمود کو کشمیر کے مسئلے پر بیرونی دشمنوں کے ساتھ ساتھ اندرونی حاسدین کا مقابلہ بھی کرنا ہے۔ بھارت کو ناکوں چنے چبوانے کے لیے شاہ محمود کو افواج پاکستان کی حمایت، ساتھ اور تعاون حاصل ہے۔ فوج آخری فوجی اور آخری گولی تک ان کا ساتھ دے گی البتہ اندرونی مشکلات کے لیئے انہیں الگ حکمت عملی ترتیب دینا ہو گی۔ ماضی کے حکمران اپنے دور حکومت میں کشمیر کے حوالے سے کیا کچھ کرتے رہے ہیں سب عوام کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔ ن لیگ کی حکومت نے نریندرا مودی کے ساتھ جاتی امراء میں ملاقات کے علاوہ کشمیر کے لیے جو کچھ کیا ہے وہ سب عوام کے سامنے آنا چاہیے۔ پیپلز پارٹی نے اپنے دور میں کتنی مرتبہ کشمیر پر بھارتی حکومت سے بات چیت کی، کیا اقدامات کیے۔ تفصیلات کا عوام کے سامنے لایا جانا ضروری ہے۔ یہ تمام کام شاہ محمود قریشی کو کرنے چاہئیں تاکہ عوام جان سکیں کہ ان کی قیادت کیا گل کھلاتی رہی ہے۔ کشمیر کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے مولانا فضل الرحمان کا کردار اعداد و شمار اور حقائق کے ساتھ عوام کے سامنے لائیں جائیں۔ تاکہ لوگ جان سکیں کہ مولانا فضل الرحمان نے کشمیر کی آزادی کے لیے کیا خدمات انجام دی ہیں۔
قارئین کرام شاہ محمود قریشی کو تعاون کی ضرورت ہے۔ کشمیریوں کو دعاؤں اور ہمارے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ پاکستان سفارتی محاذ پر اپنی ذمہ داریاں نبھاتا رہے لیکن یہ بات سفارتی میدان میں ختم نہیں ہو گی۔ اس کے لیے فوجوں کو آمنے سامنے آنا پڑے گا۔ شاہ محمود قریشی کو اس حوالے سے بھی دنیا کوآ گاہ کرنا چاہیے کہ جنگ ہوئی تو پاکستان اور بھارت کی تباہی نہیں ہو گی بلکہ ساری دنیا ایٹمی طاقتوں کے درمیان جنگ سے متاثر ہو گی۔ امید ہے شاہ محمود قریشی آنے والے دنوں میں کشمیر کے حوالے سے زیادہ بہتر اور نتیجہ خیز کام کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024