جنرل اسمبلی کا اجلاس ہی بھارت سے علاقائی اور عالمی امن کو بچانے کا آخری موقع ہے
وزیراعظم عمران سے ملاقات میں سعودی فرمانروا کا کشمیر ایشو پر پاکستان کیساتھ کھڑا ہونے کا عہد اور مودی کی امریکی عدالت میں طلبی
وزیراعظم عمران خان نے اپنے دورۂ سعودی عرب کے موقع پر گزشتہ روز سعودی فرمانروا خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے ملاقات کی جس میں دونوں مسلم قیادتوں نے دوطرفہ تعلقات اور علاقائی و عالمی سیاسی صورتحال پر تبادلۂ خیال کیا۔ انہوں نے دوطرفہ تعاون بڑھانے سمیت باہمی دلچسپی کے امور‘ تجارت‘ سرمایہ کاری اور اقتصادی تعلقات پر بھی بات چیت کی۔ وزیراعظم نے سعودی تیل کی رسدگاہوں پر حملے کی مذمت کی اور حرمین شریفین کے تقدس اور سلامتی کو خطرہ ہونے کی صورت میں سعودی عرب کے ساتھ کھڑے ہونے کے عزم کا اعادہ کیا۔ انہوں نے سعودی فرمانروا کو مقبوضہ کشمیر کی تازہ ترین صورتحال سے بھی آگاہ کیا۔ اس موقع پر شاہ سلمان نے مسئلہ کشمیر پر سعودی عرب کی دیرینہ حمایت اور یکجہتی کا اعادہ کیا اور کہا کہ کشمیر ایشو پر پاکستان کی حمایت جاری رکھی جائیگی۔ بعدازاں وزیراعظم عمران خان نے سعودی ولی عہد اور وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کی اور ان سے باہمی دلچسپی کے امور اور دوطرفہ تعلقات پر تبادلۂ خیال کیا۔ انہوں نے سعودی ولی عہد کو بھی کشمیر کی تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کیا اور سعودی تیل کی تنصیبات پر حملے کی مذمت کی۔ علاوہ ازیں وزیراعظم عمران خان سے سعودی عرب میں مقیم مختلف شعبہ ہائے زندگی کے ممتاز پاکستانیوں نے جدہ میں ملاقات کی جن سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ان کا مقصد اقوام متحدہ جانے سے قبل سعودی لیڈر شپ کو کشمیر کی صورتحال سے آگاہ کرنا تھا۔ ہم نے مسئلہ کشمیر پوری دنیا میں اجاگر کرنا ہے۔ انہوں نے کہا‘ قائداعظم نے بھانپ لیا تھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو انکے حقوق نہیں ملیں گے جو آج مودی کے اقدامات سے ثابت ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر میں ہمارے بھائی مشکل صورتحال سے گزر رہے ہیں۔ کشمیر ایک بین الاقوامی ایشو بن گیا ہے اور پوری دنیا ہمارے بیانیے کو مان گئی ہے۔ او آئی سی نے ہماری حمایت کی ہے‘ ہم یواین او میں کشمیر ایشو کو پرزور انداز میں اٹھائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ برادر سعودی عرب نے ہر مشکل وقت میں ہماری مدد کی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنی اہلیہ خاتون اول کے ہمراہ عمرہ بھی ادا کیا جس کے بعد وہ مدینہ منورہ روانہ ہو گئے۔ وہ یواین جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں شرکت کیلئے آج بروز ہفتہ نیویارک روانہ ہو جائینگے۔
بھارت کی مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں اپنے پہلے سے طے شدہ ایجنڈے کے مطابق جس وحشیانہ انداز میں کشمیریوں کو اپنے مظالم کا نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کیا ہے اور ان پر کرفیو کی پابندیاں عائد کرکے انہیں عملاً زندہ درگور کردیا ہے‘ اسکے پیش نظر کشمیری بھائیوں کیلئے آواز اٹھانا‘ انکے ساتھ کھڑے ہونا اور اقوام متحدہ کے ودیعت کردہ انکے حق خودارادیت کیلئے ان کا دامے‘ درمے‘ سخنے اور سفارتی سطح پر بھرپور ساتھ دینا ہماری اخلاقی ہی نہیں‘ بنیادی ذمہ داری بھی ہے کیونکہ کشمیری عوام بھارتی تسلط سے اپنی آزادی کی جدوجہد درحقیقت پاکستان کی سلامتی و تکمیل کیلئے کررہے ہیں۔ تقسیم ہند کے ایجنڈے کے تحت خودمختار ریاست کشمیر کا مسلم اکثریتی آبادی کی بنیاد پر پاکستان کے ساتھ الحاق ہونا تھا اور کشمیر کا الحاق ہی استحکام پاکستان کی ضمانت تھا جو متعصب و مکار ہندو بنیاء قیادت کو کسی صورت قبول نہیں تھا چنانچہ انہوں نے شروع دن سے ہی پاکستان کی بنیاد کمزور کرنے کی نیت سے کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے دیا اور اسے متنازعہ علاقہ قرار دیکر اسکے تصفیہ کیلئے اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹایا مگر یواین جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے اپنی درجن بھر قراردادوں کے ذریعے کشمیریوں کا حق خودارادیت تسلیم کیا اور بھارت کو مقبوضہ وادی میں استصواب کے اہتمام کی ہدایت کی۔ ہندو لیڈر شپ نے یواین قراردادوں کو بھی درخوراعتنا نہ سمجھا اور بھارتی آئین میں ترمیم کرکے اسکی دفعہ 370 کے تحت مقبوضہ وادی کو باقاعدہ بھارتی ریاست کا درجہ دے دیا۔ کشمیری عوام نے اس بھارتی چالبازی کو کبھی قبول نہیں کیا اور گزشتہ 71 سال سے بھارتی تسلط سے آزادی کی جدوجہد شروع کر رکھی ہے جس کے دوران انہوں نے بھارتی افواج کے سامنے سینہ سپر ہو کر اپنے لاکھوں پیاروں کی جانوں کے نذرانے پیش کئے ہیں اور بے پناہ مالی نقصانات اٹھائے ہیں۔ مگر اپنے پائے استقلال میں کبھی ہلکی سی بھی لغزش پیدا نہیں ہونے دی۔ پاکستان نے بھی کشمیری عوام سے کبھی بے وفائی نہیں کی اور ہمیشہ اور ہر علاقائی و عالمی فورم پر انکے حقوق کیلئے آواز اٹھائے رکھی ہے۔ بھارت نے پاکستان کو کشمیریوں کی حمایت سے روکنے کیلئے ہی اس پر تین جنگیں اور آبی دہشت گردی مسلط کی اور 1971ء میں اسے سانحہ سقوط ڈھاکہ سے دوچار کرکے باقیماندہ پاکستان کی سلامتی کے درپے ہوگیا جس کیلئے اس نے خود کو ایٹمی قوت بنایا اور پاکستان کی سلامتی کو کھلم کھلا چیلنج کرنا شروع کردیا۔
پاکستان اور کشمیر کے معاملہ میں بھارت کی ہر حکومت کی پالیسی یکساں رہی ہے جس کا ایجنڈا بنیادی طور پر پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کا ہوتا ہے جبکہ ہر بھارتی جماعت اپنی انتخابی سیاست پاکستان سے دشمنی کی بنیاد پر پروان چڑھاتی ہے۔ بھارت کی موجودہ حکمران جماعت بی جے پی اس حوالے سے زیادہ متشدد ہے جو کشمیر کو مستقل طور پر ہڑپ کرنے اور پاکستان کی سلامتی تاراج کرنے کی جلدی میں نظر آتی ہے جبکہ بی جے پی کے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا ایجنڈا پاکستان کی سلامتی کے حوالے سے اپنی پارٹی سے بھی زیادہ جارحانہ ہے جو مکتی باہنی کی پاکستان توڑو تحریک میں عملی حصہ لے کر اور اس تناظر میں سقوط ڈھاکہ کا سانحہ اپنے کریڈٹ میں ڈال کر اب باقیماندہ پاکستان کی سلامتی کے بھی اسی طرح درپے ہیں جس کیلئے وہ سب سے پہلے کشمیر کا ٹنٹا ختم کرنا چاہتے ہیں تاکہ اسکے راستے سے پاکستان آنیوالے پانی کو روک کر وہ اسے ریگستان میں تبدیل کرسکیں اور پاکستانی عوام کو بھوکا پیاسا مار سکیں۔ اس ایجنڈے کے مطابق ہی مودی سرکار نے گزشتہ ماہ پانچ اگست کو مقبوضہ کشمیر میں شب خون مارا اور بھارتی آئین کی دفعات 370‘ اور 35اے کو آئین سے نکال کر کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دی اور لداخ کو بھارت کا حصہ بنادیا۔ اسے اپنے اس جنونی اقدام کیخلاف کشمیری عوام کے سخت ردعمل کی پہلے ہی توقع تھی اس لئے مودی سرکار نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرتے ہی اسے بدترین کرفیو میں جکڑ دیا جو آج 48ویں روز بھی جاری ہے اور کشمیری عوام کو گھروں کی چار دیواری میں محصور کرکے انہیں بدحال‘ نڈھال اور زندہ درگور کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ انہی جابرانہ بھارتی اقدامات کیخلاف مقبوضہ کشمیر کے علاوہ بھارت کے اندر بھی اور بیرونی دنیا میں بھی سخت ردعمل سامنے آیا جبکہ پاکستان نے اپنی فعال سفارتکاری کے ذریعے کشمیریوں کی آواز ہر علاقائی اور عالمی فورم اور دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اسکی کوششوں سے یواین سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب ہوا جس میں کشمیر کو متنازعہ علاقہ قرار دیکر یواین قراردادوں اور چارٹر کے مطابق اس تنازعہ کو حل کرنے کا تقاضا کیا گیا۔ امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے پہلے ہی کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی جاچکی تھی جس کا انہوں نے بعدازاں چار بار اعادہ کیا جبکہ یورپی پارلیمنٹ‘ برطانوی پارلیمنٹ اور چین سمیت دنیا بھر کی قیادتوں اور عالمی و علاقائی اداروں کی جانب سے کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کیخلاف آواز اٹھائی جانے لگی۔ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اور آج اقوام عالم میں بھارتی مکروہ چہرہ مکمل طور پر بے نقاب ہوچکا ہے۔ اس طرح مودی سرکار کی کشمیر کوہڑپ کرنے کی بے تابی نے مسئلہ کشمیر کو عالمی برادری میں خود ہی اجاگر کر دیا ہے جبکہ پاکستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی بڑھا کر مودی سرکار نے علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کو بھی سنگین خطرات سے دوچار کیا ہے۔ اس تناظر میں اقوام عالم کی نظریں اس ماہ کے تیسرے ہفتے میں شروع ہونیوالے یواین جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس پر مرکوز ہوگئی ہیں اور توقع باندھ لی گئی ہے کہ دنیا کے اس نمائندہ فورم کو بھارتی جنونی ہاتھ روکنے اور اسے شٹ اپ کال دینے کیلئے بروئے کار لایا جائیگا۔
وزیراعظم عمران خان نے بھی اسی بنیاد پر جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں خود شرکت کرنے اور کشمیر میں جاری بھارتی مظالم اس نمائندہ فورم پر اجاگر کرنے کا فیصلہ کیا جس کیلئے پاکستان کا سفارتی محاذ پہلے ہی متحرک کیا جا چکا ہے اور وزیراعظم کے علاوہ وزیر خارجہ‘ سپیکر قومی اسمبلی اور دوسرے حکومتی اکابرین بھی اپنے ہم منصبوں سے ملاقاتوں اور ٹیلی فونک روابط کے ذریعے انہیں کشمیر کی تازہ ترین صورتحال اور بھارتی عزائم کے بارے میں مکمل بریف کرچکے ہیں۔ وزیراعظم نے اسی تناظر میں اپنا دورہ امریکہ شیڈول کرتے ہوئے سعودی عرب کے دورے کو بھی اپنے اس شیڈول کا حصہ بنایا تاکہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت سے پہلے برادر سعودی عرب اور دوسری مسلم قیادتوں کو کشمیر کے حوالے سے اپنے دیرینہ اصولی موقف سے آگاہ اور انکی حمایت حاصل کی جا سکے۔ برادر سعودی عرب نے پہلے بھی ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کا بے لاگ اور بے لوث ساتھ نبھایا ہے چنانچہ وزیراعظم عمران خان کے حالیہ دورہ سعودی عرب کے موقع پر بھی سعودی قیادت نے کشمیر سمیت ہر معاملے پر پاکستان کے ساتھ کھڑا ہونے کا عہد دہرایا جو یقیناً ہمارے لئے انتہائی حوصلہ افزاء پیش رفت ہے جس سے یواین جنرل اسمبلی میں کشمیر ایشو پر وزیراعظم عمران خان کی آواز مزید توانا ہوجائیگی۔ گزشتہ روز امریکی ریاست ٹیکساس کی ڈسٹرکٹ کورٹ نے کشمیریوں پر مظالم کیخلاف بھارتی وزیراعظم مودی اور دوسرے بھارتی حکام کو سمن جاری کرکے اور امریکی کانگرس کے ارکان نے ٹیکساس میں مودی کا خطاب سننے سے انکار کرکے بھی پاکستان کے کشمیر کاز اور کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی کو مزید تقویت پہنچائی ہے۔ اس طرح یواین جنرل اسمبلی کا موجودہ سالانہ اجلاس مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے مخصوص ہونے کا زیادہ امکان ہے۔
مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کا تسلسل برقرار رکھ کر‘ کشمیریوں پر مظالم کی انتہاء کرکے اور پاکستان کے ساتھ کنٹرول لائن پر کشیدگی بڑھا کر علاقائی اور عالمی امن کیلئے عالمی قیادتوں اور نمائندہ عالمی اداروں کی ذمہ داریاں بڑھا دی ہیں جنہیں بہرصورت جنونی مودی سرکار کے انتہاء پسندی پر اترے ہوئے ہاتھ روکنے کی ذمہ داریاں ادا کرنا ہیں بصورت دیگر مودی سرکار کے ہاتھوں علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کی تباہی نوشتۂ دیوار نظر آرہی ہے۔ عالمی قیادتیں یہ کردار جنرل اسمبلی کے پلیٹ فارم پر مؤثر انداز میں ادا کر سکتی ہیں جبکہ مسلم قیادتیں بھی اسی فورم پر یکسو ہو کر بھارت کو مسئلہ کشمیر حل کرنے پر مجبور کر سکتی ہیں۔ علاقائی اور عالمی امن کو محفوظ کرنے کا بہرحال یہ آخری موقع ہے اور جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اس حوالے سے کوئی عملی پیش رفت نہ ہوئی تو بھارتی جنونیت دو ایٹمی ملکوں میں جنگ کی نوبت لا کر رہے گی۔ اس جنگ میں اس کرۂ ارض کی جو تباہی ہوگی وہ انسانی تصورات سے بھی بالا ہے اس لئے عالمی قیادتوں کو یہ ممکنہ جنگ ہرصورت ٹالنے کی کوشش کرنی چاہیے جس کیلئے جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس ہی بہترین موقع ہے۔