ہفتہ ‘ 21 ؍ محرم الحرام 1441ھ ‘ 21ستمبر 2019 ء
لڑکیوں کے ساتھ ڈانس کی ویڈیو: بنوں یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو عہدے سے ہٹا دیا گیا
وائس چانسلر کو عہدے سے ہٹانا تو سمجھ میں آتا لیکن گورنر خیبر پی کے کی طرف سے جاری حکم میں معاملہ کی انکوائری کی مصلحت کی سمجھ نہیں آئی کہ انکوائری سے کیا معلوم کرنا مطلوب ہے۔ ہو سکتا ہے کہ لڑکیوں نے خود ’’سر‘‘ سے فرمائش کی ہو اور وہ ’’شاگردان رشیدات‘‘ کی فرمائش نہ ٹال سکے ہوں۔ دل شکنی کے خوف سے وہ ایک ایسے کام پر آمادہ ہوئے جس نے اُن کی روزی خطرے میں ڈال دی۔ یا کلاس لینے سے پہلے موڈ ’’سیٹ‘‘ کرنے کیلئے وہ یہ قدم اُٹھا بیٹھے۔ کیسا زمانہ آ گیا ہے۔ پہلے اُستاد اور شاگرد کا رشتہ اتنا مقدس تھا کہ یہ نہیں کہا جاتا تھا کہ فلاں بادشاہ کے صاحبزاد ے فلاں عالم سے پڑھتے ہیں بلکہ کہا جاتا تھا کہ شہزادوں نے فلاں عالم کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا ہے۔ اب کے شاگرد تو رہے ایک طرف اساتذہ کو زانوئے تلمذ تہہ کرنے کے معنی تک نہیں آتے۔ اب تو نہ وہ اُستاد رہے نہ شاگرد بلکہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ اُستاد کون ہے اور شاگرد کون؟ اب تو اساتذہ کو اپنی عزت برقرار رکھنے کیلئے علم کے علاوہ بھی کچھ آنا چاہئے۔ بھلے وہ مٹکنا اور تھرکنا ہی کیوں نہ ہو۔ اگر حکام کو انکوائری کرانا تھا تو ڈانس میں شامل لڑکیوں سے بھی پوچھا جانا چاہئے کہ تم پڑھنے آئی تھیں یا ڈانس کرنے کیلئے ۔ ہم روشن خیالی کے مخالف نہیں اور نہ ہی حُسن و جمال کے مظاہر کے البتہ حسن پرستی سے فاصلہ ہی رکھنا چاہئے‘ خصوصاً اساتذہ کو۔ یہ درست کہ وہ اسلامیات کی کلاس نہیں تھی‘ لیکن کم از کم طائوس و رباب کی نشست بھی نہیں تھی۔
٭٭٭٭٭
سعودی عرب غیرملکیوں کو ملازمت دینے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک
سعودی عرب میں جس کا سرکاری نام سعودیہ ہے۔ ایک کروڑ کے قریب غیرملکی کام کرتے ہیں۔ اگرچہ زیادہ کا تعلق تیسری دنیا کے ملکوں سے ہے‘ لیکن امریکہ سمیت یورپی ملکوں کے لوگوں کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے جو اگرچہ ایگزیکٹو عہدوں پر کام کرتے ہیں‘ لیکن ان کے گھروں کا چولہا بھی سعودیہ کی کمائی سے چل رہا ہے۔ خلیجی ممالک میں سو فیصد آبادی مسلمانوں کی ہے‘ لیکن انہوں نے یہ پابندی کبھی نہیں لگائی کہ ملازمت کی غرض سے آنیوالا‘ لازماً مسلمان ہو‘ مسلمانوں کی فیاضی اور غیر متعصب ہونے کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ خلیجی ممالک کی دولت و ثروت سے سب سے زیادہ فائدہ بھارت کو پہنچا۔ لاکھوں ہندو‘ سکھ اور عیسائی روزی کما رہے ہیں۔ شنید ہے کہ سعودی عرب بھارت میں 78 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ بہرحال عرب دوستوں کو بنیا لوگو ںسے محتاط رہنے کی ضرورت ہے‘ ایسا نہ ہو کہ وہ حیلے بہانے یہ رقم ہی ڈکار جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے عربوں کوبے تحاشا دولت سے نوازا ہے لیکن دینی عصبیت کی بڑی کمی ہے، بے شک بلاتخصیص مذہب‘ روزی کے دروازے سب پر کھلے رکھیں لیکن کم از کم اسلامی اخوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ کشمیریوں ا ور بھارت میں مسلمانوں پر مظالم پر بھارت کو یہ پیغام تو دے دیتے کہ وہ کشمیریوں کی آزادی سلب کرنے اور بھارتی مسلمانوں پر ظلم ڈھائے جانے پر خوش نہیں۔
٭٭٭٭٭
ٹرمپ کی جیب میں 20 ڈالر کا نوٹ، تصویر وائرل ہونے پر صارفین کے دلچسپ تبصرے
صدر ٹرمپ کیلی فورنیا دورے پر گئے ہوئے تھے۔ واپسی پر اپنے جہاز ائر فورس ون میں سوار ہونے کیلئے سیڑھیاں چڑھ رہے تھے کہ صحافیوں اور فوٹوگرافروں نے دیکھا کہ صدر ٹرمپ کی پتلون کی پچھلی جیب سے 20 ڈالر کا نوٹ باہر نکل آیا۔ ان سے پوچھا گیا آپ بٹوا نہیں رکھتے اس پر صدر ٹرمپ نے مسکرا کر کہا کہ وہ اپنے ہوٹل کے سٹاف کو خود ٹپ دینا پسند کرتے ہیں۔ اسی لیے وہ کھلے پیسے اپنے پاس رکھتے ہیں۔ صدر ٹرمپ ارب پتی کاروباری ہیں۔ اُنہیں بیس ڈالر ٹپ کی نشاندہی ہونے پر مسکرانے کی بجائے بغلیں جھانکنا چاہئے تھا۔ دُنیا کے امیر ترین ملک کا امیر ترین صدر اور ٹپ کیلئے صرف بیس ڈالر۔ اُنکے بُخل سے یہ کوئی بعید نہیں کہ ہوٹل کے سارے سٹاف کو صرف بیس ڈالر کا نوٹ تھما دیتے ہوں کہ اس کا خوردہ (چینج) لے کر آپس میں بانٹ لینا ۔ ہاں اگر یہی بیس کا نوٹ سابق صدر بارک اوباما کی جیب سے نکلتا تو لوگ اُن کی تعریف کرتے کہ جس کے پاس مال کے ڈھیر نہیں ہیں مگر دل بڑا ہے۔ فارسی کا محاورہ ہے ’’تونگری دل است نہ بہ مال‘‘ یہ بھی کوئی بعید نہیں کہ نوٹ ٹوہر جمانے اور دکھاوے کیلئے رکھا ہو۔ ہمیں اس بات پر کوئی افسوس نہیں کہ بے چارے امریکی صدر کے پاس بٹوہ بھی نہیں ہے لیکن یہ گمان ضرور ہے کہ جناب کے ہر کام میں نمایاں اور خبروں میں رہنے کا پہلو ضرور ہوتا ہے۔ اوپر سے مزاج بھی لا اُبالی پایا ہے۔ چلئے امریکیوں کو ایک دو دن کیلئے ہنسنے ہنسانے کا موضوع مل گیا۔
٭٭٭٭٭
نظام دکن کی دولت کا وارث کون؟
ریاست حیدر آباد دکن کے ساتویں حکمران میرعثمان علی خاں صدیقی کے وزیر خزانہ نواب معین نواز جنگ نے 1948ء میں ریاست پر بھارتی قبضے کے بعد برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر حبیب ابراہیم کے لندن بینک اکائونٹ میں دس لاکھ پونڈ کی رقم جمع کرائی جو اب بڑھ کر 36 گنا اضافہ کے ساتھ ساڑھے تین کروڑ پونڈ بن چکی ہے۔ برطانیہ کی ایک عدالت میں 60 سال سے کیس چل رہا ہے کہ یہ رقم نظام کے پوتوں کو دی جائے یا پاکستان کو۔ عدالت فیصلہ اکتوبر میں سنائے گی۔ میر عثمان علی خاں اپنی ذات پر خرچ کرنے میں بہت کنجوس تھے لیکن رفاہی اداروں اور علوم و فنون کی ترویج و اشاعت پر دل کھول کر خرچ کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ فورٹ ولیم کالج نے اُردو کو اُردو بنایا مگر اسے فروغ میرعثمان علی خاں کی فیاضی سے ملا جنہوںنے برصغیر میں پہلی اردو یونیورسٹی جامعہ عثمانیہ کے نام سے بنائی اور دارالترجمہ قائم کیا جس نے دنیا بھر کے بہترین لٹریچر اور بالخصوص سائنسی کتابوں کو اردو میں منتقل کیا۔ جامعہ عثمانیہ نے کئی مشہور اور نامور شخصیتوں کو جنم دیا جن میں دنیا کے معروف سائنسدان ڈاکٹر سلیم الزمان صدیقی اور اسلامی علوم اور فرانسیسی زبان کے نامور سکالر ڈاکٹر حمیداللہ بھی شامل ہیں۔ تقسیم سے قبل گورنر جنرل غلام محمد بھی ریاست کے وزیر مالیات رہے۔ بٹوارے کے بعد پاکستان کے اثاثے بھارت نے دبا لئے۔ حتیٰ کہ ملازمین کو تنخواہ دینے کے بھی پیسے نہیں تھے۔ اس آڑے وقت پرمیر عثمان علی خان نے پاکستان کی بہت مدد کی۔ بھارتی وزیرداخلہ بلکہ اس وقت کی بھارتی حکومت کی سب سے طاقتور شخصیت سردار ولبھ بھائی پٹیل کی نظر میں میر عثمان علی خان کا سب سے بڑا جرم آڑے وقت میں پاکستان کی مالی مدد کرنا تھا کیونکہ کانگریس تو یہ یقین کئے بیٹھی تھی کہ کوئی دن جاتا ہے کہ پاکستان بھارت کے قدموں میں آن گرے گا۔ ریاست حیدرآباد پر بھارتی قبضہ اور میر عثمان علی خان کی وفات سے عالم اسلام کو بالعموم اور پاکستان کو بالخصوص بڑا دھچکا لگا۔
٭٭٭٭٭