مقبوضہ کشمیر: کشمیری پھر نماز جمعہ سے محروم ، کئی مساجد کے امام گرفتار ، اثاثوں کی چھان بین
سری نگر (کے پی آئی، آن لائن) مقبوضہ کشمیر میں جمعہ کو مسلسل 47ویں روز سخت فوجی لاک ڈائون کی وجہ سے لوگ شدید تکلیف میں ہیں۔ بھارتی فوج کی بڑی تعداد میں تعیناتی نے خوف کا ماحول پیدا کردیا ہے۔ کشمیریوں کو پھر نماز جمعہ کی ادائیگی سے روک دیا گیا۔ دودھ، بچوں کے لئے خوراک اور زندگی بچانے والی ادویات جیسی بنیادی ضروریات زندگی کی قلت نے لوگوں کی مشکلات میں مزیداضافہ کردیا۔ جمعہ کے دن وادی کی کسی بھی بڑی مسجد اور خانقاہ میں نماز کی اجازت نہیں دی گئی۔ ان میں جامع مسجد اور حضرت بل کی درگاہ بھی شامل ہے۔ 5 اگست سے گھروں میں بند کشمیریوں کی زندگی بدتر ہوگئی۔ بھارتی فورسز کی طرف سے آئمہ مساجد کو بھی بڑے پیمانے پر ہراساں کیا جا رہا ہے اور اب تک کئی آئمہ کرام کو گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ مساجد میں نماز کیلئے آنے والوں پر بھی گہری نظر رکھی جا رہی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے سے مقبوضہ کشمیر میں ظلم وستم کے نئے راستے کھل گئے ہیں۔ امریکی صدر ہیوسٹن میں ہونے والی ریلی میں کشمیر میں ہونے والے بھارتی مظالم کو نہ بھولیں۔ ہیومین رائٹس واچ کی جنوبی ایشیا کی ڈائریکٹر نے ایک رپورٹ میں کہا کہ بی جے پی رہنما کشمیری خواتین کے بارے میں نازیبا زبان استعمال کررہے ہیں۔ بی بی سی کی سابق براڈ کاسٹر اور مقبوضہ کشمیر کی سابق حکمران جماعت پی ڈی پی کی رہنما نعیمہ احمد مہجور نے کہا ہے کہ بھارتی حکومت نے اب جبکہ کشمیریوں کا سب کچھ چھین لیا ہے۔ کشمیر کی80 لاکھ آبادی کو محصور کر کے بھارت اسرائیلی طرز کی حکمت عملی پر گامزن ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں گیارہ سال عمر کے بچے جموں و کشمیر کی آبادی کا 40 فیصد حصہ ہیں جنہیں حکومت نے اپنے والدین سمیت گھروں کے اندر قید رکھنے کی سزا دی ہے اور جو سزا تو بھگت رہے ہیں مگر بغیر جرم کیے اس سزا کے خلاف اندر ہی اندر غصے کی آگ میں بھڑک رہے ہیں۔ ادھر مقبوضہ کشمیر میں مذہبی طبقے کیخلاف کریک ڈائون کیا جارہا ہے۔ کئی امام مسجد کو گرفتار کرکے ان کی آمدنی اور اثاثوں کی چھان بیان کی جارہی ہے۔ نماز کیلئے مساجد آنے والے شہری بھی محفوظ نہیں۔ جامع مسجد سرینگر میں 5 اگست سے نماز جمعہ نہیں ہوسکی۔ کشمیری عوام نے کرفیو کو جوتے کی نوک پر رکھا اور پابندیاں توڑ کر سڑکوں پر آگئے۔ کشمیریوں نے نماز جمعہ کے بعد سری نگر، بارہمولہ ، کپواڑہ، بانڈی پورہ میں مظاہرے کئے۔ قابض فورسز نے آنسو گیس کی شیلنگ اور فائرنگ کی جس سے متعدد کشمیری زخمی ہوگئے۔ سری نگر سمیت دیگر بڑے شہروں کی مرکزی مساجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی کی اجازت نہیں دی گئی جبکہ متعدد شہروں میں شدید احتجاج کیا گیا۔ کشمیر میں بچوں کی گرفتاری کے واقعات سامنے آنے پر بھارتی سپریم کورٹ نے ان واقعات کی تحقیقات کا حکم دے دیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق قابض بھارتی حکام نے سری نگر کی جامع مسجد، درگاہ حضرت بل، دستگیر صاحب، چرار شریف اور جامع مسجد کشتواڑ سمیت دیگر مرکزی مساجد میں جمعہ کی نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ رپورٹ کے مطابق مقبوضہ جموں و کشمیر کے شہریوں نے سری نگر، بندی پورا، بارہ مولا، کپواڑا، اسلام آباد، پلواما، کولگام، شوپیاں اور دیگر مقبوضہ علاقوں میں نماز جمعہ کے چھوٹے چھوٹے اجتماعات ہوئے جس کے بعد شہریوں نے بھارت کے خلاف احتجاج شروع کردیا۔ مظاہرین نے آزادی کے حق میں اور بھارت مخالف نعرے لگائے اور نریندر مودی کی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کرنے کے فیصلے کو بھی مسترد کردیا۔ جموں و کشمیر ہائی کورٹ کی بچوں سے متعلق کمیٹی جووینائل جسٹس کمیٹی کو بھارتی سپریم کورٹ نے ہدایت کی ہے کہ وہ بچوں کی مبینہ گرفتاری کے الزامات کی تحقیقات کرے۔ بھارتی سپریم کورٹ میں بچوں کی گرفتاری سے متعلق درخواست بچوں کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن اناکشی گانگولی نے دائر کی تھی۔ اناکشی گانگولی کا دعوی ہے کہ جموں و کشمیر میں پانچ اگست سے شروع ہونے والے کریک ڈاون میں بچوں کو بھی بڑی تعداد میں گرفتار کیا گیا ہے۔ درخواست میں بتایا گیا تھا کہ کشمیر میں زیر حراست بعض بچوں کی عمر صرف 10 سال ہے جب کہ کچھ بچوں کی اموات بھی ہوئی ہیں۔ اِناکشی گانگولی نے اس پٹیشن کے ذریعے اس معاملے میں عدالتی مداخلت کی درخواست کی تھی۔ انہوں نے عدالت سے یہ اپیل بھی کی کہ وہ حکومت کو کشمیر میں گرفتار ہونے والے بچوں کی تعداد بتانے کی ہدایت کرے جبکہ یہ بھی معلوم کیا جائے کہ کتنے بچے ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔ اس درخواست پر سماعت کرتے ہوئے بھارت کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بینچ نے جموں و کشمیر ہائی کورٹ کی جووینائل جسٹس کمیٹی کو مذکورہ الزامات کی تحقیقات کا حکم دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وہ ان الزامات پر فی الحال کوئی رائے نہیں دیں گے البتہ اِناکشی گانگولی اور شانتا سنہا نے اہم ایشوز اٹھائے ہیں اور بچوں کی حراست کے الزامات لگائے ہیں۔ عدالت میں بھارتی حکومت کی نمائندگی کرنے والے تشار مہتا نے بچوں کی حراست کا ذکر کیے جانے پر اعتراض کیا لیکن عدالت نے ان کا اعتراض مسترد کر دیا۔ مقبوضہ کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ اور جموں کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما محبوبہ مفتی کے ٹوئٹر اکائونٹ نے 46روز بعد کام شروع کردیا ہے اور جمعہ کو اس اکائونٹ سے ٹوئٹر پیغامات جاری ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ یہ اکائونٹ اس وقت انکی صاحبزادی التجا، اجازت ملنے پر آپریٹ کررہی ہیں۔ جمعہ کو انکی صاحبزادی التجانے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ضروری اجازت نامہ ملنے کے بعد انہوں نے والدہ کا ٹوئٹر اکائونٹ آپریٹ کرنا شروع کردیا ہے۔ یہ معاملہ، سپریم کورٹ کے اس اعلان کے بعد سامنے آیا ہے جس میں سپریم کورٹ نے التجا کو اس ماہ کے اوائل میں انکی والدہ سے سری نگر میں ملاقات کی اجازت دی تھی۔