قصور پاکستان کا بدقسمت ضلع ہے جہاں پر وقفے وقفے کے بعد المناک واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ افسوسناک اور شرمناک واقعات کے بعد حکومتی اعلانات اور اقدامات سامنے آتے ہیں جو روایتی نوعیت کے ہی ہوتے ہیں۔ پولیس کے متعلقہ افسروں کو معطل کردیا جاتا ہے اور جے آئی ٹی تشکیل دے دی جاتی ہے۔ کسی واقعہ کے بعد ایسے حفاظتی اقدامات نہیں کیے جاتے کہ جن کے نتیجے میں المناک واقعات دوبارہ رونما نہ ہوں۔ حکومت اور سوسائٹی پرانی ڈگر پر ہی چلتے رہتے ہیں۔ حکمران اشرافیہ نظام حکمرانی کو تبدیل نہیں کرتی کیوں کہ اسے یہی نظام سوٹ کرتا ہے اور سوسائٹی بھی منظم اور مربوط ہونے کی کوشش نہیں کرتی۔ حکومت اور سوسائٹی کے درمیان اعتماد کا بحران پیدا ہو چکا ہے جسے انقلابی نوعیت کی اصلاحات کے ذریعے ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔ چونیاں ضلع قصور کے ایک ویرانی علاقے میں تین کمسن معصوم بچوں کی لاشیں برآمد ہوئیں جو سات سے بارہ سال کی عمر کے تھے اور جن کے نام فیضان سلمان اکرم اور علی حسین تھے۔ تفتیش کے بعد معلوم ہوا کہ ان معصوم بچوں کو پہلے جنسی ہوس کا نشانہ بنایا گیا اور بعد میں ان کو قتل کر دیا گیا۔ اس المناک واقعے کے بعد عوام اشتعال میں آگئے اور انہوں نے پولیس سٹیشن ڈی ایس پی آفس اور ایک پٹرول پمپ کو نذرآتش کردیا عوام کا احتجاج اور غصہ فطری رد عمل تھا۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے ٹویٹ جاری کرکے افسوس کا اظہار کیا ۔ جبکہ پنجاب حکومت نے ڈی پی او قصور ڈی ایس پی اور تھانے کے ایس ایچ او کو معطل کردیا حسب دستور اور روایت ایک جے آئی ٹی تشکیل دے دی گئی جو تفتیش کرکے اپنی رپورٹ صوبائی حکومت کو پیش کرے گی۔
چونیاں قصور کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے گزشتہ چند سالوں کے دوران قصور میں کئی المناک واقعات رونما ہو چکے ہیں 2015 میں سینکڑوں ویڈیوز منظر عام پر آئیں جن میں معصوم بچوں کو جنسی کاروائیوں میں ملوث دکھایا گیا تھا۔ دسمبر 2018 میں چار ملزم گرفتار کیے گئے جو کم سن لڑکیوں کو اغوا کرکے فروخت کرتے تھے اور ان کو طوائف بننے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ 2018ء میں قصور کی سات سالہ زینب کو اغوا کرکے اس کی عزت کو لوٹا گیا اور اس کے بعد اسے قتل کرکے کوڑے کے ایک ڈھیر پر پھینک دیا گیا۔ اس واقعے کے بعد قصور میں شدید احتجاج ہوا جس کے نتیجے میں اس وقت کی حکومت نے ملزم عمران علی کو فوری سماعت کے بعد پھانسی کی سزا دے دی۔ اس نوعیت کے شرمناک واقعات بڑی تسلسل کے ساتھ ہورہے ہیں۔ انسانیت زوال پذیر ہے انتظامیہ بے حس ہے اور عوام مربوط اور منظم ہونے پر آمادہ نظر نہیں آتے کسی حکومت نے اس نوعیت کے واقعات کے اسباب جاننے اور روک تھام کے لئے سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ قصور میں سیاستدان اراکین اسمبلی بلدیاتی نمائندے سرکاری افسر پر وفیسر اساتذہ مذہبی رہنما وکلاء ڈاکٹر انجینئر نیز ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے پڑھے لکھے افراد موجود ہیں مگر کسی نے اس نوعیت کے واقعات کی روک تھام کے لیے مشاورتی اجلاس بلانے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی۔ اگر سماج کے پڑھے لکھے افراد بیدار ہو جائیں تو مجرموں پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ افسوس نفسانفسی کے عالم نے ہمارے سماج کو ہی برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ ہم محلوں میں اکٹھے تو رہتے ہیں مگر عملی طور پر تنہا ہی زندگی گزار رہے ہیں۔ حالانکہ ہمارے قومی شاعر علامہ اقبال نے تو ہمیں یہ سبق دیا تھا…؎
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں
پاکستان میں نظام حکمرانی کی ناکامی کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ جرائم کی شرح بڑھتی جارہی ہے جبکہ سزاؤں کی شرح شرمناک حد تک کم ہے۔ پاکستان کا عدل و انصاف کا نظام ناکارہ اور فرسودہ ہوچکا ہے۔ جرائم پر قابو پانے کی بنیادی ذمہ داری پولیس کی ہوتی ہے مگر پولیس 72 سال کے بعد بھی اپنے فرائض کی ادائیگی میں ناکام نظر آتی ہے پورے ملک میں یہ اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ پولیس کا نظام مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے اور پولیس میں انقلابی نوعیت کی اصلاحات لانے کی ضرورت ہے۔ جب تک عوام اور پولیس کے درمیان اعتماد بحال نہیں ہوتا پولیس کسی صورت جرائم پر قابو نہیں پا سکے گی۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان سے لوگوں کی بہت ساری توقعات تھیں کیونکہ انہوں نے خیبرپختونخوا میں پولیس کے نظام کو بہتر اور معیاری بنا دیا تھا۔ پنجاب کے عوام کا بھی یہی خیال تھا کہ عمران خان پنجاب کی پولیس میں بھی اصلاحات نافذ کرکے امن وامان کے قیام اور عوام کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنا ئیں گے مگر افسوس ابھی تک پنجاب میں اس سلسلے میں میں کوئی کوئی قابل ذکر اور نتیجہ خیز اقدام نہیں اٹھایا گیا۔ دنیا کے جن ممالک میں پولیس کا نظام فعال اور شفاف ہے اور بلدیاتی ادارے بااختیار اور فعال ہیں ان ممالک میں جرائم کی شرح بہت کم ہے۔ پاکستان میں ابھی تک مقامی حکومتوں کو بااختیار نہیں بنایا گیا اگر مقامی ضلعی حکومتیں مؤثر فعال اور بااختیار ہوں تو جرائم کی شرح کافی حد تک کم ہو سکتی ہے مگر افسوس کہ پاکستان کے سیاسی جمہوری نظام میں عوام کا کوئی کردار نہیں ہے۔عوام کے کے جان و مال کے تحفظ اور امن و امان کے قیام کیلئے لازمی ہے کہ پولیس کو عوام کے تابع کر دیا جائے۔ سیاسی مداخلت مکمل طور پر ختم کی جائے، پولیس کی بھرتیاں میرٹ پر کی جائیں، ان کو مناسب تنخواہیں دی جائیں، آزاد اور بااختیار پولیس کا ادارہ ہی جرائم کو ختم کرسکتا ہے۔ جب تک پولیس اور عوام ایک نہیں ہوں گے۔ جرائم اسی طرح بڑھتے جائیں گے اور عوام کی زندگیاں اجیرن ہوتی رہیں گی۔ پاکستان کے نوجوان وقت کے چیلنجوں کو قبول کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں ہر محلّے کو منظم اور مربوط بنایا جائے تاکہ عوام خود اپنی جان ومال کی حفاظت کیلئے موثر کردار ادا کر سکیں وہ اپنے محلوں کی پوری طرح نگرانی کریں۔ ہر مہینے محلے کے بزرگ آپس میں مشاورت کریں اور عوامی مسائل کو عوام کے تعاون کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ اگر عوام نے اسی طرح اپنے تمام مسائل کو بے حس حکومتوں پر چھوڑ دیا تو خدانخواستہ اسی طرح کے المناک اور شرمناک واقعات ہوتے رہیں گے لہٰذا جتنی جلد عوام جاگ جائیں اتنا ہی عوام کے اپنے مستقبل اور ان کی آنیوالی نسلوں کیلئے بہتر ہوگا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں پاکستان کے آئین کے مطابق مالی سیاسی اور انتظامی اختیارات مقامی ضلعی حکومتوں کو منتقل کریں تاکہ عوام یونین کونسل تحصیل ضلع میں اپنے معاملات خود اپنی مرضی سے حل کر سکیں۔ پولیس کے تمام اختیارات مقامی حکومتوں کے سپرد کیے جائیں اور اس میں وفاقی اورصوبائی حکومتیں کسی قسم کی مداخلت نہ کریں جب تک ہم انقلابی اصلاحات کی جانب نہیں آئینگے۔ اس وقت تک ہمارے قومی اور عوامی مسائل کبھی حل نہیں ہو سکیں گے نہ ہی پاکستان کی سلامتی اور آزادی کا تحفظ یقینی ہو سکے گا۔ حکومت اور عوام بامعنی اتحاد اور اتفاق سے ہی اپنے قومی اور عوامی مسائل پر قابو پا سکتے ہیں، سٹیٹس کو کا نظام ریاست کیلئے زہر قاتل ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024