سب سے زیادہ تو عوام میں مایوسی اس وجہ سے ہے کہ تحریک انصاف نے اپوزیشن میں رہ کر اور انتخابی مہم کے دوران قوم کو اس قدر سبز باغ دکھائے کہ قوم سمجھ بیٹھی تھی کہ یہ پارٹی اقتدار میں آگئی تو پہلے دن سے ہی حالات یکسر بہتر ہوجائیں گے اور کچھ ہی عرصے میں دودھ و شہد کی نہریں بہنے لگیں گی۔ تحریک انصاف کی حکومت کے قیام سے قبل ہی پارٹی نے وفاقی وزیر خزانہ کے لئے نام کا اعلان بھی کردیا تھا جو 50لاکھ گھروں اور کروڑوں نوکریوں کی باتیں کرتے نہیں تھکتے تھے اور اپنے حلقے کے عوام کے تمام مسائل ایک سال میں مکمل طور پر حل کرنے کے لئے پرعزم تھے۔ ساتھ یہ بھی فرماتے تھے کہ اگر ہم ایسا نہ کرسکیں تو ہمیں ایک سال بعد عہدے اور قومی اسمبلی کی نشستیں رکھنے کا کوئی حق نہیں ہوگا اور ہمیں پھر اقتدار چھوڑ دینا چاہئے۔
جس وقت میں یہ کالم تحریر کر رہا ہوں اس وقت تمام میڈیا پر قصور میں ایک بار پھر درندگی کے واقعات کی خبریں اور احتجاج چل رہا ہے اور زینب کے والد کا بیان چل رہا ہے کہ اگر زینب کے قاتل کو سرعام پھانسی دی گئی ہوتی تو آج دوبارہ اس طرح کے واقعات نہ ہوتے۔ زینب اور اس جیسے واقعات کے رونما ہونے میں جہاں پولیس و انتظامیہ کی خامیاںہیں وہیں معاشرے میں موبائل فون‘ انٹرنیٹ اور کیبل کے ذریعے جو بے حیائی پھیلی ہے‘ اس کا بھی کردار ہے۔ حکومت کی جانب سے ایسے مجرموں کو نشان عبرت نہ بنانے سے بھی ایسے جرائم میں ملوث لوگ بے خوف ہیں۔ساہیوال میں پولیس کی درندگی کے ذمہ داروں کا کیا ہوا؟ اب حکومت پر ہر گزرتے دن کے ساتھ سوالات بڑھتے چلے جارہے ہیں لیکن عوام کی تسلی کرانے والا کوئی نہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی مخلصی‘ ایمانداری اور محنت پر کوئی دو رائے نہیں ہیں لیکن پھر ایسا کیوں ہورہا ہے؟ یہی وہ سوال ہے جس پر سب اپنی اپنی سوچ کے مطابق رائے کا اظہار کر رہے ہیں لیکن اس وقت قوم کی مایوسی میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے کیونکہ برادر ممالک سے امداد اور قرض ملنے کے بعد آئی ایم ایف کی ڈیل لی گئی لیکن پھر بھی معیشت میں بہتری کے نمایاں اشارے نہیں مل رہے اور مہنگائی میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ ہر وزارت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے کیونکہ ماضی کے مقابلے میں کوئی نمایاں فرق نظر نہیں آرہا اور وزیراعظم بارہا پنجاب ‘ کے پی کے اور وفاق میں وزراء کو تبدیل بھی کرچکے ہیں لیکن کارکردگی میں زیادہ بہتری نہیں آئی۔
وزیراعظم اور وزیراعلٰی پنجاب کو اگر کسی بہتری کے لئے کوئی تجویز ارسال کی جاتی ہے تو اب تک کوئی جواب ارسال نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس تجویز پر عمل ہوتا نظر آیا ہے۔ موجودہ حکومت کے آنے سے بیورو کریسی میں ڈر و خوف پیدا ہوگیا تھا اور شروع کے 6ماہ تو کوئی بھی کام اس خوف سے نہیں ہوا کہ اگر ہم نے دستخط کردیئے تو نیب کو کون جواب دے گا؟ اب کام تو ہونا شروع ہوئے ہیں لیکن جائز کام کے لئے بھی بڑی تگ و دو کرنا پڑتی ہے۔
میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ ایک دم سے ایف بی آر کی طرف سے بہت زیادہ سختی کرنے سے سارا کاروبار جام ہوچکا ہے۔ اس پر میں نے کئی چھوٹے کاروباری افراد سے دریافت کیا تو انہوں نے برملا کہا کہ ہم بھی محب وطن پاکستانی ہیں اور ملک کی ترقی کے لئے جائز ٹیکس دینا چاہتے ہیں۔ اگر ایف بی آر کاروبار کو مختلف کٹیگریز میں تقسیم کرکے سالانہ فکس ٹیکس رائج کیا جائے جس کا سال میں ایک بار چالان موصول ہو تو ہم بخوشی ادا کرنے کو تیار ہیں ۔ ہوٹل‘ کیٹرنگ‘ ڈیکوریشن‘ جنرل اسٹور‘ میڈیکل اسٹور سمیت تمام چھوٹے بڑے کاروبار والے افراد سالانہ مناسب فکس ٹیکس دینے کو تیار ہیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ایف بی آر مرحلہ وار بڑے شہروں میں کٹیگریز بناکر سالانہ ایک چالان جاری کرے لیکن روز روز کسی ادارے کا کاروباری افراد کے دروازے پر جانے کے خدشات کا ہر صورت خاتمہ ضروری ہے کیونکہ انہی خدشات کے باعث پاکستان میں لوگ ٹیکس نیٹ میں آنے سے گریز کرتے ہیں۔
تیز رفتار‘ عوام دوست اقدامات کی اشد ضرورت ہے اور عوام میں حکومت کے حق میں رائے عامہ اسی وقت ہموار ہوسکتی ہے جب معاشی معاملات میں ایسی نرم پالیسیاں تشکیل دی جائیں جو چھوٹے بڑے کاروباری طبقے کے لئے قابل قبول ہوں اور انتظامی معاملات میں بھی ایسی مثالیں قائم ہونی چاہئیں کہ جرائم میں ملوث لوگوں میں خوف طاری ہوجائے۔
میڈیا پر حکومت کے سخت ترین اقدامات کی تشہیر کے بجائے عوام دوست پالیسیاں تشکیل دیکر ان کی تشہیر ہونی چاہئے کیونکہ کاروباری طبقے کے لئے ایسی گھٹن کا ماحول پیدا کردیا گیا ہے جس سے وہ پریشان ہے اور تمام کاروبار جام ہوکر رہ گیا ہے ۔ اسٹیٹ بینک سے مارک اپ میں اضافے کے بعد سرمایہ کاری تقریباً رک چکی ہے اور حکومت کے کوئی بھی معاشی اہداف پورے ہوتے نظر نہیں آرہے۔ ایسے میں اعلٰی ایوانوں میں موجود کالی بھیڑوں اور جھوٹے اعداد و شمار سے کام چلانے والوں کی بیخ کنی کے بغیر معاشی و انتظامی خرابیاں ختم نہیں کی جاسکتیں ۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024