زیر نظر کتاب ’’دیار مجدد سے داتا نگر تک‘‘ سینئر صحافی، مصنف، اور کالم نگار جمیل اطہر قاضی کی تازہ تالیف ہے۔ کتاب کے عنوان کو دیکھ کر اول نظر میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ مصنف نے اپنے روحانی سفر کی سرگزشت لکھی ہے۔ جس میں اپنی کرامات، فتوحات اور لطائف غیبی کا ذکر ہو گا۔ اس عمر میں بزرگ صحافی (چند مستثنیات کو چھوڑ کر) ہیر رانجھا اور قصہ سیف الملوک تو نہیں لکھے گا۔ لکھے گا تو اپنی روحانی کیفیات و مشاہدات و واردات (اگر کوئی ہیں) پر ہی لکھے گا۔ یا نئی نسل کے لیے پند و نصائح کی باتیں ہی لکھے گا لیکن جب کتاب کھولی اور مندرجات کی فہرست پر نظر ڈالی تو ’’ایں جہانِ دِگر‘‘ تھا ’’میری کہانی سے لے کر 110 ویں نمبر تک‘‘ کا ہر عنوان دلچسپ کہانی تھی۔ ان کا سفر صحافت و عزیمت کی داستان ہے۔ کتاب ہڈبیتی بھی ہے، اور جگ بیتی بھی۔ ان کی پہلی تالیف ’’شیخ سرہند‘‘ تھی جو امام ربانی حضرت مجددالف ثانیؒؒ کی زندگی و تعلیمات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کو د ینی حلقوں میں خوب پذیرائی ملی۔
ان کی اگلی تصنیف ’’ایک عہد کی سرگزشت‘‘ ہے۔ (اسے میں نے ایک دوست کی شیلف سے اُڑایا، بے حد دلچسپ تھی۔ جسے پڑھنے کے بعد (بادل نخواستہ چپکے سے وہی رکھ دیا جہاں سے نکالی تھی)کتاب میں اُن اصحاب کا تذکرہ تھا ، جن کی زندگی کے مختلف گوشوں نے انہیں متاثر کیا تھا۔ اس کتاب میں اگرچہ ان کی اپنی داستان کے کچھ حصے بھی کسی نہ کسی شکل میں شامل ہو گئے تھے، قاضی صاحب لکھتے ہیں: مگر ایک مربوط خودنوشت کی کمی بہرحال موجود رہی۔ اب ’’دیار مجدد سے داتا نگر تک‘‘ کے نام سے اپنی کہانی بیان کر کے انہوں نے یہ کمی پوری کر دی ہے۔ یہ تلخ و شیریں داستاں ہے، مگر جو کچھ پیش آیا ، اُسے پوری دیانت داری سے من و عن بیان کردیا ۔ دیانت داری سے لکھی گئی تحریریں ہی تاریخی حوالوں اور اسناد کا درجہ پاتی ہیں۔
دیارِ مجدد سے مراد سرہند شریف ہے جو ان دنوں بھارتی پنجاب کے ضلع گورداسپور کا ایک حصہ ہے۔ داتا نگر سے مراد لاہور ہے جہاں داتا گنج بخشؒ محو خواب ہیں۔ شہر کے ایک محلے کا نام بھی داتا نگر ہے، آمدم برسرِ مطلب: لکھتے ہیں -11 مئی 2019ء کو میری عمر عزیز کے 78 برس بیت چکے ہیں۔ ماشاء اللہ!1941ء میں سرہند کے ایک ذی وقار علمی و دینی گھرانوں میں جنم لیا ۔ والد محترم قاضی سراج الدین سرہندی، سرہند منڈی میں جنرل مرچنٹس تھے۔ تقسیم کے بعد والدین کے ہمراہ پاکستان ہجرت کی اور ٹوبہ ٹیک سنگھ میں مقیم ہوئے۔ گورنمنٹ کالج فیصل آباد سے بی اے کیا گریجویشن سے پہلے ہی دیار صحافت میں مقام بنا چکے تھے۔ مختلف شہروں کے آب و دانہ کو چکھتے ہوئے، داتا کی نگری ایسے وارد ہوئے۔ کہ پھر اسی کے ہو رہے۔ اس نگری کا سحر دیکھیں کہ جو یہاں گھڑی بھر کے لیے بھی ٹھہر گیا پھر عمر بھر کے لیے یہیں کا ہو کر رہ گیا۔ (راقم الحروف بھی اسی جادو کا اسیر ہے۔
حافظ آباد سے کوئی پانچ چھ کوس (کوس کو آج کل کے دو کلومیٹر کے برابر متصور فرمائیں) بہ جانب شمال چک کھرل نامی گائوں ہے۔ گورمے کے بانی اور زمیندار حاجی چودھری محمد نواز چٹھہ کا تعلق بھی اسی سرزمین کوکانوالہ سے ہے۔ راقم نے گائوں میں کھیتی باڑی کی، ڈنگر چرائے ہل چلائے ، مونجی اور گندم بوئی بھی اور کاٹی بھی۔ ایک دن نہ جانے کیا جی میں آئی ، کہ لاہور کی راہ لی اور ملک نصر اللہ خاں عزیز مرحوم کے چرنوں میں جا بیٹھے۔ انہوں نے دست گیری کی۔ اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے آمین) ملتان سے جماعت اسلامی کا روزنامہ جسارت نکالنے کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ ملتان بھجوا دیا ۔ میں اور برادرم رفیق ڈوگر نے صحافت میں ایک دن ہی قدم رکھا۔ جسارت کی ادارت محترم ریاض چودھری کے ذمہ تھی۔ بڑی محبت کرنے والے انسان ہیں۔ سال بعد جسارت بند ہوا تو داتا نگر پہنچ گئے۔ عظیم صحافی مرحوم سید سلطان عارف کی وساطت سے روزنامہ نوائے وقت میں کام کیا۔ یہاں صحافت کے ستونوں کے ساتھ چند ماہ گزارے اور پھر آب و دانہ کی کشش، شیخ ایم شفاعت مرحوم کے ’’مغربی پاکستان‘‘ لے گئی۔ کیسے کیسے لوگ تھے، تفصیل عرض کرنے بیٹھوں تو ضخیم کتاب بن جائے۔ قارئین کرام! معذرت! جملۂ معترضہ کی آڑ میں موضوع سے کافی دور چلا گیا ہوں!
زیر نظر کتاب کو کہیں سے بھی شروع کریں۔ ہر عنوان کو پہلے سے زیادہ دلچسپ پائیں گے۔ ہر موضوع دلچسپی میں ایک سے بڑھ کر ایک ہے۔ ذرا کتاب کے 44 ویں عنوان ’’حمید نظامی سے مجید نظامی‘‘ کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو۔ ’’حمید نظامی کی ادارت کا دور تھا کہ جمیل صاحب کو سبکدوش کرتے وقت بانی ٔنوائے وقت نے یہ سرٹیفکیٹ دیا۔ ’’ہم محض آپ کی صغر سنی اور طالب علمی کی وجہ سے آپ کی خدمات سے فائدہ نہیں اُٹھا سکے، ورنہ آپ کا کام اچھا تھا‘‘ اس بات کو کچھ مدت گزر گئی تو جمیل صاحب کو نوکری کی تلاش ہوئی، ’’جناب مجید نظامی کو فون کیا کہ میں ان سے ملنا چاہتا ہوں اُنہوں نے مجھے چند روز بعد کا وقت دے دیا، میں طے شدہ د ن شاہ دین بلڈنگ میں دفتر نوائے وقت میں مجید نظامی سے ملنے گیا اور عرفان چغتائی صاحب کے کیبن میں کئی گھنٹے تک ان کے بلاوے کا منتظر رہا۔ مجید نظامی کے پاس ان کے کچھ دوست موجود تھے۔ اس وجہ سے وہ منتظر لوگوں کو ملاقات کا وقت نہیں دے پا رہے تھے۔ بہرحال صبر آزما انتظار کے بعد میری باری آ گئی۔ مجید نظامی صاحب کو میں نے پہلی مرتبہ دیکھا تھا‘‘ آگے دیکھئے! کتنے دلکش انداز میں نظامی مرحوم کی لفظی تصویر کشی کی ہے، لکھتے ہیں ’’اس وقت وہ دبلے پتلے پُرکشش چہرے والے نوجوان تھے، ان کے گھنگھریالے بالوں نے ان کی شخصیت کا حُسن اور بھی عیاں کر رکھا تھا میں نے جیب سے وہ خط نکالا جو ادارہ نوائے وقت سے سبکدوش کرتے وقت مجھے لکھا گیاتھا…اُنہوں نے میرا خط پڑھا، قدرے مسکرائے اور فرمانے لگے کہ اب تو نہ صغر سنی دکھائی دیتی ہے نہ طالب علمی۔ اس لیے آپ کل سے ہمارے ڈیسک پر کام شروع کر دیں…!‘‘محترم جمیل اطہر قاضی صاحب اگر یہ کتاب نہ لکھتے تو اُردو صحافت میں بہت بڑا خلاء رہ جاتا اور پھر یہ کہ صحافت پر اس قسم کی کتاب قاضی جمیل اطہر صاحب ہی لکھ سکتے ہیں۔ کتاب ایک سو دس مندرجات 424 صفحات کے علاوہ متعدد نادر و نایاب تصاویر پر مشتمل ہے۔ ہمارے دوست اور ناشر مزنگ والے رانا عبدالرحمن (جو خوبصورت کتابوں کی اشاعت میں بڑی شہرت رکھتے ہیں) نے شائع کیا ہے۔ قیمت دو ہزار ہے لیکن قاری کو خرید کر مایوسی نہیں ہو گی۔
توقع ہے کہ محترم جمیل اطہر قاضی صاحب سلسلۂ تصنیف و تالیف کو یہیں پر ختم نہیں کر دیں گے ، بھلا جس شخص نے اتنی بھرپور زندگی گزاری ہو ، اُس کے پاس موضوعات کی کمی ہو گی؟ ممکن ہے مجھے یہ کتاب اس لیے بھی دلچسپ لگی ہو کہ اس میں مذکور درجنوں کرداروں سے کسی نہ کسی صورت واسطہ رہا ہے۔ صدر شعبۂ صحافت پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر مسکین علی حجازی مرحوم کو کیسے بھول سکتا ہوں کہ جن کے جذبۂ شفقت کے صدقے ایم اے صحافت کر لیا۔ اسی طرح شیخ ایم شفاعت مرحوم ہیں جنہوں نے سال بھر دفتر میں ہماری حاضری کی دیر سویر کو برداشت کیا۔ خلاصۂ کلام: کتاب گم گشتہ ، عہد تہذیب و نفاست کے ایک جمیل نفیس اور شائستہ انسان کی پر از معلومات کہانی ہے۔!
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024