سعودی عرب پاکستانیوں کے دلوں میں بستا ہے۔ اور ہمارے جذبوں میں دھڑکتا ہے۔ پاکستان پر کبھی ذرا بھی آ نچ آئے تو سعودیہ ہماری مدد اور حمائت میں پیش پیش ہوتا ہے۔ اب سعودی عرب پر کڑا وقت آیا ہے اور وہ ایک بہت بڑی آزمائش اور بحران سے دو چار ہے تو ہمارا بھی فرض بنتا تھا کہ ہم ان کے دل کے دروازے پر دستک دیں اور اس کے غم و اندوہ کے لمحات میں اس کے غم گسار بنیں۔ سعودیہ میں ڈرون حملے ہوئے جن سے ا سکی آئل ریفائینریز جل کر راکھ ہو گئیں اور سعودی عرب دنیا کو تیل کی سپلائی کرنے کے قابل نہیں رہا۔ اس نازک وقت پر پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے سعودیہ کا دو روزہ دورہ کیا۔ وہ حرمین شریفین کے خادم شاہ سلمان سے ملاقات کر چکے ہیں اور پاکستان کی محبت سے سرشار پرنس محمد بن سلمان سے بھی ان کی ملاقات ہو چکی ہے۔ ان کا صرف دو نکاتی ایجنڈہ تھا ۔ ایک تو اظہار ہمدردی۔ پاکستان کے بس میں ہوتا تو ہم ان کا نقصان پورا کر چکے ہوتے مگر ہم صرف اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمائت کرنے کے قابل ہیں ، میرا خیال ہے کہ اس میں وزیر اعظم نے کوئی کسر نہ چھوڑی ہو گی، اس دورے کا دوسرا نکتہ یہ تھا کہ کشمیر میں بڑھتے ہوئے بھارتی مظالم سے سعودیہ کو آگاہ کیا جائے اور ان کی حمائت مانگی جائے۔ یہ فریضہ بھی وزیر اعظم نے بحسن و خوبی ادا کر دیا۔ اب وہ بیت اللہ میں عمرہ ادا کرر ہے ہیں اور نماز جمعہ میں شرکت ہیں۔ ۔ سعودی حکومت نے ان کی عزت افزائی کے لئے حرم کے دروازے کھول دیئے ا ور انہیں حرم پاک کے اندر نوافل ادا کرنے کی سعادت نصیب ہوئی ۔ جہاں انہوںنے کشمیریوںکے حق میں دعا بھی کی ۔ اسی شام کو انہوںنے مدینہ منورہ جانا ہے اور حضور ﷺ کے روضے پر حاضری دے کر درود و سلام بھیجنے کی سعادت سے سرفراز ہونا ہے۔سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا ہے ۔ بھٹو دور میں او آئی سی کی کانفرنس لاہور میںمنعقد ہوئی تو نما زجمعہ بادشاہی مسجد میںادا کی گئی۔ اس کے صحن میں ایک جم غفیر کے درمیان شاہ فیصل مرحوم بھی دو زانو بیٹھے تھے۔ جب امام نے مظلوم کشمیریوں کے حق میں دعا کی تو شاہ فیصل کی آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑی لگ گئی اور ان پر رقت طاری ہو گئی۔ یہ بہت پرانی بات ہے مگر اب پچھلے کئی برسوں میں سعودی عرب ایک لحاظ سے پاکستان کے مفادات کی مکمل حفاظت کا فریضہ ادا کررہا ہے۔ کسی بھی وقت پاکستانی عوام کو معاشی مشکلات کا سامنا ہو تو سعودی عرب دل کھول کر امداد کرتا ہے اور مئوخر ادائیگی کے اصول پر دو دو سال کی ضرورت کا تیل فراہم کرتا ہے۔، یہ مئوخر ادائیگی والا فارمولا محض رسمی ہے۔ در حقیقت سعودی امداد کی ہمیں کبھی قیمت نہں چکانا پڑتی۔ سعودی عرب نے وسیع تر سطح پر پوری امہ کے مسائل کو درد جگر بنا لیا ہے، پچھلے برسوں میں روہنگیا پر قیامت نازل ہوئی تو سعودی عرب نے بنگلہ دیش حکومت کو پہلے تو روہنگیا کو پناہ دینے پر آمادہ کیا اور پھر ان کا سارا خرچہ اپنے ذمے لے لیا۔ دنیا بھر میں مسلمانوں پر کہیں بھی آفت آئے تو سعودی عرب ان کی مدد میں پیش ہیش ہوتا ہے۔ فرانس میں مساجد کی تعمیر کی اجازت نہیں لیکن سعودی عرب نے شانزے لیزے کے پوش علاقے میں ایک شاندار مسجد تعمیر کی۔ اسی طرح اٹلی میں سعودی حکومت نے ایک شاندار مسجد تعمیر کی۔یہ تو یورپ کے کلیسائوں میں اذان دینے والی بات ہوئی جسے اقبال نے اپنے ایک شعر میں بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ سعودی عرب کو بھی پاکستان کی طرح دہشت گردی کا سامنا ہے۔ یمن کی وجہ سے اسے سیکورٹی خطرات بھی درپیش ہیں۔ ہماری ماضی کی حکومتوں اور پارلیمنٹ نے سعودی درخواست کے باوجود فوجی امدا نہیں کی ۔ اس کی معقول وجوہ ہو سکتی ہیں لیکن ہمارے رویئے سے سعودیہ کی دل شکنی ضرو ر ہوئی جس کی تلافی کے لئے ہم نے اپنا ایک تجربہ کار جرنیل راحیل شریف انہیںسونپا ْ انہیں سعودی عرب نے مسلم افواج کی کمان سونپی۔ سعودیہ کا یہ اقدام پاکستان کی بے حد قدر افزائی کے مترادف ہے۔اس کے مقابلے میں پاکستان کو جب سوویت روس کی جارحیت کا خطرہ در پیش ہوا تو سعودی عرب نے بڑھ چڑھ کر افغان جہاد کے لئے مالی امداد دی جس سے ہم نے جدید ترین اسلحہ خریدا اور کئی برسوں کی جنگ کے بعد دنیا کی ایک سپر پاور سوویت روس کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اور روس ٹکڑوں میں بٹ گیا۔ پاکستان نے پچھلے اٹھارہ برسوںمیں دہشت گردوں کو کچل کر رکھ دیا تو اب پاکستانی افواج کی اس قدر دھاک بیٹھ گئی کہ ہر ملک اپنے ہاں دہشت گردی کو کچلنے کے لئے پاکستان کی طرف دیکھتا ہے۔ سری لنکا میں آخری دہشت گرد کے سرینڈر کرنے تک ہماری افواج نے ا س ملک کو فوجی ٹریننگ دی ۔دہشت گردی کے خلاف کامیابی کے اعتبار سے پاکستان دنیا میں ایک ماڈل ملک ہے جس کی بنا پر اب عالمی سازشوں کا رخ پاکستان کی جانب مڑ گیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جبر و ستم اور ہٹلرانہ فاشزم اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے،بھارت پاکستان کی قوت کو چیلنج کررہا ہے اور یوں خطے ہی کو نہیں بلکہ پوری انسانیت کو ایٹمی تباہی کی طرف دھکیلنے کی کوشش کررہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپنے آپ کو کشمیر کا سفیر قرار دیا ہے ، وہ اس حیثیت میں نہ صرف کشمیر میں امن کے قیام کے حامی ہیں بلکہ دنیا کو بھی ہوش کے ناخن لینے کی تلقین کرر ہے ہیں اور ایک عظیم تر ،وسیع تر تباہی سے بچنے کے لئے خبردار کر رہے ہیں۔ سعودی عرب اس سلسلے میں پاکستان کی بے حد مدد کر سکتا ہے۔ دنیا میں ا سکی آواز کو سنا جاتا ہے۔ا س نے بھارت میں ستر اب ڈالر کی خطیر سرمایہ کاری کی ہے تو بھارت کو سعودی حکومت کی آواز پر کان دھرنا پڑیں گے۔ اسی سلسلے میں وزیر اعظم عمران خان نے پہلا بیرونی سفر سعودیہ کا کیا ہے۔ وہ کشمیر کے سفیر کے طور پر یو این او بھی جانے کاا رادہ رکھتے ہیں مگر اس سے پہلے وہ ا یسی فضا بنانا چاہتے ہیں کہ جنرل اسمبلی میں جب ان کی تقریر ہو تو اس کے ایک ایک لفط پر عالمی برادری غور کرے اور سنجیدگی سے غور کرے۔اگرچہ سعودی عرب خود ایک گرداب میں گھرا ہوا ہے مگر اس کے لئے یہ چھوٹے مسائل ہیں ۔ اس کی آواز میں وہی وزن اور وہی طنطنہ ہے اور کوئی ملک اس کے کسی مطالبے کو نظر انداز کرنے کی غلطی نہیں کر سکتا۔پاکستان قدرتی طور پر اور جغرافیائی طور پر ا س پوزیشن میں ہے کہ عرب و عجم کے اختلافات میں ثالث بن سکے ۔ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ اس کی بات میںوزن نہ ہو ۔ پاکستان کو نظر انداز کر کے خطے میں کوئی فیصلہ کرنا ممکن نہیں اور اگر سعودی اور پاکستان ایک جان دو قالب میں ڈھل جائیں تو مسلم امہ کی طرف کوئی میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا ۔ مودی تو بس ایک معمولی چیز ہے۔ دشت تو دشت ہیں صحرا بھی نہ چھوڑے ہم نے۔ بحر ظلمات میں دوڑا دیئے گھوڑے ہم نے ۔ اس شعر کی تعبیر اب بھی سا منے لائی جاسکتی ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024