حسینیت ہی سر اپاِ حق ہے
حق و باطل کی وہ جنگ جس کا آغاز باطل نے حق کو دبانے کے لئے کیا جب یزید نے انسانوں کو حق کا منہ نیچا کرنے کی غرض سے خرید لیا ،جب کوفی انحرا ف کرگئے اور سرکشی اختیار کر لی ۔اگر واقعہ کربلا کا بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ معرکہ کربلا کی شروعات کرنے میں حاکمِ وقت سے زیادہ اس کے حواریوں کی مرضی ملحوظ تھی بلاوجہ ـ’’تائید‘‘کو بنیاد بنا کر جنگ کا آغاز کیا گیاجسے دین کے دشمن ہر صورت شروع کروانا چاہتے تھے۔دو مرتبہ تو حاکم وقت نے خود اس جنگ کی مخالفت کی اور کہہ دیا کہ امامِ عالی مقامؓہمارے منشور کی تائید نہیں کرتے تو انہیں مجبور نہ کیا جائے ۔۔۔۔۔۔انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔۔۔۔۔۔۔ہمارے اقتدار کو ان سے کوئی خطرہ لاحق نہیں اور نہ ہی ان ہی وہ کسی قسم کے جارحانہ عزائم رکھتے ہیں۔دشمنانِ اسلام نے جب یہ سنا تو انہیں شکست کا خوف محسوس ہونے لگاانہوں نے ہر طرح اپنی سازش کو عملی جامہ پہنانے کے لئے تگ ودو شروع کردی اور باطلِ وقت کو اُکسایا اورباطل نے حق سے اپنی تائید کا فیصلہ کرلیا۔حق کی پناہ میں رہنے والے کچھ ناعاقبت اندیشوں نے اپنے ناقص مشوروں سے حق کو سرخم تسلیم کرنے پر اکسایا لیکن حسینؓ تو سراپاحق ہیںاور حق بھلا کہاں خلاف ِ دین منشور کی تائید کرنے والا تھا۔اسی کشمکش میں حق کو اپنی راہ سے ہٹانے کے لئے یزید کے بدبخت وزیروں،مشیروںنے اوچھے ہتھکنڈوں سے امام الشہدائؓ کامکہ مکرمہ میں رہنامحال بنادیا‘ ہجرت کا راستہ بہتر سمجھ کرکوفہ والوں نے دعوتِ قیام دی جب قافلہ حسینؓ ہجرت کر کے کوفہ کی جانب رواں ہوا تو معلوم ہواکوفی بھی باطل کے آگے گھٹنے ٹیک کر حق کی حمایت سے قاصرہیں۔۔۔۔۔دین کی سربلندی کیلئے حق بھی پیچھے ہٹنے کی بجائے ہجرت کی راہ پر گامزن رہا اور کربلا کے مقام پر قیام کو بہتر جاناکربلا ایک ایسا مقام۔۔۔۔۔زندگی کی سہولیات تو درکنار قیام وطعام کا بھی کوئی ٹھکانہ نظر نہ آیا صرف دریائے فرات کو پیاس بجھانے کا ذریعہ جان کر اس کے اردگرد خیمہ زن ہوگیا۔حق کے پورے قافلے میں اہلِ خانہ اور معصوم بچوں کے علاوہ صرف 72جانثاران ِاسلام تھے مگر حوصلے بلند تھے۔۔۔۔ بدن میں رحمت اللعالمین کے عطا کردہ صبر کا تقویٰ تھا اور توکل تھا کے فتح حق کی ہی ہوگی اورباطل کو نست و نابود ہونا ہوگا۔ مذاکرات شروع ہوئے ظالم حق پرستوں کی کوئی بات ماننے کو تیار نہ ہوئے اور 7محرم الحرام کو دین حق کے متوالوں پر پانی بھی بند کردیا گیا ۔دین کے سچے محافظ بھوک پیاس کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے حق کے راستے پر استقامت سے ڈٹے رہے، لشکر نے بھوکے پیاسے حق کے علمبرداروں کوکمزور اور ناتواں سمجھ کرطبل جنگ بجا دیا۔باطل کو مقابلے کی امید کہاں تھی وہ تو اپنی طاقت منوانا چاہتا تھا کربلا میں موجود حق پرستوں سے اسے اپنی تائیدکروانا تھی ۔ہرحال میں اپنی برتری اس آمر حاکم کے لئے ناگزیر تھی جگرگوشہ بتولؓ نے آمریت کوتسلیم کرنے کی بجائے جدوجہد کو ترجیح دی۔7 سے 9محرم الحرام تک۔۔ا۔ﷲکے دین کی سربلندی کیلئے سعی کرنے والے دین کے سپاہیوں نے بھوک و پیاس کو اپنے جذبے کے آڑے آنے نہ دیا اور جرات کو اپنا ہتھیار بنا کر کفر کو پسپا ہونے پر مجبو ر کیا ۔ایک ایک کرکے جہادِحق کے غازی اپنا اپنا فریضہ دیانتداری سے انجام دے کر شہادت کے رتبے پر جا پہنچے۔۔۔۔یومِ عاشور آپہنچا ہر طرف آمریت کے بھوکے شکاری اور دین حق کے میدان میںکھڑا ’’ایک شیر ِاسلام حضرت عالی مقام امام حسین ؓ ‘‘ جنہیںکفر اور باطل کے حامی زیر کرنے سے محروم ۔ رہے۔ آپ پر تیروں کی بارش ہوگئی پھر بھی حق کا سر بلند رہاسچے دین کو حیات رکھنے کے لئے زخموں کی پرواہ کئے بغیرحق کا یہ چراغ سرخم کرنے کیلئے تیار نہ تھے۔نماز کا وقت ہوا صدا آئی کے حسین ؓ جنگ بعد میں پہلے نماز جو حق پر قائم رکھتی ہے۔۔۔۔امن کی ضامن ہے۔… جب۔وقتِ شہادتِ حسین ؓ آ پہنچا آسماں اور زمین کانپ اٹھے جنات کے بھی اشک جاری ہوگئے اور حق نیزے پر چڑھ جانے کے باوجود سربلند ہوگیا اور کفرجیت کر بھی شرمندہ ہوگیا اور نادم ہوکر اس نے بھی تسلیم کر لیا کے حق کا راستہ ہی صحیح ہے۔۔۔۔ وہ حق کا راستہ جس پر قائم رہتے ہوئے حسین ؓ نے بلند و عظیم مرتبہ و مقا م پایا اور باطل طاقت میں ہونے کے باوجو د بھی ان کے سامنے حقیرقیامت تک باطل نے اپنے گلے میں ذلت و رسوائی گلے میں ڈال لی وہ لعنت کی پھٹکاراپنے او پر مل لی جسے کوئی سمندر نہ مٹا پائے گا کربلا کا یہ واقع ہمیں اس بات سے روشناس کرا گیا کے فتح حسینیت کی ہی ہوتی ہے چاہے ظلم کتنی ہی طاقت میں ہو اسے بعدازاں ہار سے دوچار ہونا ہی پڑتا ہے۔ اُمتِ مسلمہ کویہ اہم درس بھی دے گیا کے باطل کے آگے کبھی نہیں جھکنا اسے سرخم تسلیم نہیں کرنا بلکہ اس سے ٹکر لینی ہے اس بات کی پرواہ کئے بغیر کے اس کا لشکر کتنا بڑا ہے حسینیت انسانیت کے لئے مشعلِ راہ ہے۔
’’فرمانِ امام حسینؓ ہے کہ ظلم کے خلاف جتنی دیر سے اٹھوگے اتنی ہی زیادہ قربانی دینی پڑے گی‘‘ یعنی عالی مقام ؓنے ظلم کے خلاف سیساپلائی دیوار بننے کا کہا ہے اور اسے جڑ سے مٹا دینے کے لئے کوشش کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔شہزادہ دو جہاں امام حسینؓ نے یزید سے ٹکر اس لئے لی کیوں کے آپ ؓ اس بات سے واقف تھے کے یزید کی حکومت ایک ظالم حکومت ہے اس حکومت نے لوگوں کے حقوق سلب کرلئے ہیں اس نے امانت میں خیانت کو اپنی روش بنا لیا ہے ، یہ اپنے عیش و عشرت میں مگن ہے اور آنے والے دور میں اسلام کی تاریخ کو مسخ کر کے رکھ دے گا ۔آپؓ نے اپنے ناناکے برحق دین کی حفاظت کی اور اسلام کی اصل تعلیمات کو اوجھل ہونے سے بچایا آج اگر دنیا میں حریت اور آزادی کا شعور موجود ہے اور ظلم کا منہ توڑ جواب دینے کی جو رسم باقی ہے یہ حضرت امام حسینؓ کی سنت کے سبب ہے ۔
آپ جامِ شہادت نوش فرما گئے مگر حق کا لوہا منوایا ۔
’’قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد ‘‘