قتلِ حسینؑ اصل میں مرگِ یزید ہے
درحقیقت نیکی اور فرعونیت دو الگ الگ راستے اور مسافتیں ہیں۔ فرعونیت کا راستہ تھکا دینے والا ہے۔ مخلوقِ خدا کو راستے سے روکنا ، لوگوں سے پروٹوکول وصول کرنا، اپنے مقام اور مرتبے کا بھتہ وصول کرنا فرعونیت کے زمرے میں آتا ہے جبکہ نیکی کا سفر بہت آسان اور مختصر سا ہے۔ انسانوں کے دُکھ کا مداوا نیکی ہے۔ جبر و استبداد سے نجات دلانا نیکی ہے۔ اسلام کے شعائر کی حفاظت کرنا خدمت ہے۔ خدمت کے لئے نہ تو سیاست ضروری ہے نہ ریاست باطن کا حق اور سچ پر ڈٹے رہنا ہی خدمت ہے۔ امام حسینؑ نے اسلامی شعائر اسلامی اصولوں اور اسلامی نظریات کی پیروی کی اور بلند ترین منصب پر فائز ہو گئے۔ دنیا داروں کا آئین واضح ہوتا ہے۔ وہ اُس آئین کی بنیاد دولت اور طاقت پر رکھتے ہیں۔ جبکہ مومن کی اصل قوت اس کا دل اور اس کا اخلاص ہے۔ وہ اصولوں کو سربلند کرنے کے لئے سب سے پہلے اپنی انّا کو اللہ کی رضا کے سامنے سرنگوں کر دیتا ہے۔ اللہ کے احکامات کی تقلید کرتا ہے۔ دراصل جس نے تقلید کی اُس نے تصدیق کی اور جس نے اعتراض کیا وہ یزید کے پیروکاروں میں شامل ہو گیا، کیونکہ اُس نے طاغوت کی پیروی کی، جس نے طاغوتی طاقتوں کی پیروی کی وہ شعور کی وادی سے نکل گیا اور شور ، شر اور شورش کے عذاب میں داخل ہو گیا ا ور یہی شور، شر اور شورش طاغوتی طاقتوں کو ہلاکت کی طرف لے جاتا ہے۔ ایسے میں سچ، اور شعور کے رستے پر چلنے والے میدانِ عمل میں آتے ہیں ا ور طاغوتی طاقتوں کے خلاف صفِ آراء ہو جاتے ہیں۔ امام حسین ہی وہ سچ اور حق کے مسافر تھے، جن کی منزل اسلامی اصولوں کا احیاء اور اساس اور بقا کی حفاظت تھی۔ دل و دماغ پر سچ کی حکمرانی قائم کرنے کے لئے جھوٹ سے نجات لازم ہے۔ سچائی اُس مسافر کی ہم سفر ہوتی ہے جو سچائی کی شہادت کے لئے ہر قسم کی شہادت کے لئے تیار ہوں۔ حضرت امام حسینؓ نے جھوٹ کو مٹانے ا ور حق کا عَلم اٹھانے کے لئے اپنی جان کی بھی پرواہ نہ کی۔
انسان کو علم، شعور ا ور آگہی کے منصب پر فائز کیا گیا اور جو اس راستے پر چل پڑا درحقیقت وہ مشاہدے اور مجاہدے کے رستے پر چل پڑا۔ یہ رستہ مسافر کے لئے آسان ہو جاتا ہے اورمسافر خود سنگِ میل بن جاتا ہے، جنہیں دیکھ کر قافلے اپنی سمت درست کر لیتے ہیں۔ امام حسین ؓ کا سفر درحقیقت یہی سفر تھاکہ جس سے حق اور صداقت کے سرسہوتے پھوٹتے ہیں۔ امام حسینؓ کی شہادت نے اہلِ حق کو یہ راز سمجھا دیا کہ باطل کے خلاف گردن کٹائی تو جا سکتی ہے لیکن جھکائی نہیں جا سکتی۔
آپؓ کی شہادت اِس حقیقت کی بھی روشن دلیل ہے کہ حکمران وقت قرآن و سنت کے احکامات کو چھوڑ کر فسق و فجور کا دلدادہ بن چکا ہو تو اس کی سیادت قبول کرنا گناہِ عظیم ہے۔ گویا کہ ایک حکمران کی ذمے داریوں میں اسلامی اقدار کوزندہ رکھنا، معاشرے کو برائیوں سے پاک رکھنا، رزق حلال زندگی کا اہم مقصد بنانا۔ نظریہ اور اساس کی حفاظت کرنا، عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ ، عدل و انصاف اصلاح و فلاح کی حوصلہ افزائی اور برائیوں کا تدارک شامل ہے۔ شہادت حسینؓ کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ طاغوتی طاقتوں کے سامنے کلمہ حق بلند کیا جائے۔ حکومت دراصل ایک امانت ہے۔ امانت نااہل کے سپردکر دی جائے تو سلامت نہیں رہتی۔ حکومت زیردستوں کو زبردستوں کے ظلم و استبداد سے بچانے کا نام ہے لیکن جب زبردست لوگ زیردستوں کو مزید زبردست کرنے کے درپے ہو جائیں تو حق اور صداقت کی آوازیں سچ بن کر معاشرے میں سنائی دینے لگتی ہیں۔ حضرت امام حسینؓ اگر اس وقت خاموش ہو جاتے یا چپکے سے باطل کے سامنے سر جھکا دیتے حق گوئی ہمیشہ کے لئے مصلحت بینی اور عافیت کوشی کے نیچے دب کر رہ جاتی اور آئندہ کسی کو ایک فاسق اور فاجر اور جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنے کی جرأت نہ ہوتی۔ امام حسینؓ نے ایک بلند ترین مقصد اور نظریہ جہاد پر عمل پیرا ہو کرمسلمانوں کو باطل کے خلاف ایک چٹان کی مانند ڈٹ جانے کا سبق دیا۔
جُھک نہ سکے اور جان ہتھیلی پہ رکھ کے دی
سیکھا ہے میں نے یہ سبق میرے حسینؓ سے
نیکی کی راہ پر چلنے والا شخص راستوں کی تھکاوٹوں ا ور مصیبتوں سے نہیں گھبراتا۔ سچائی کی راہ پر چلنے والا درحقیقت ماسوا سے ماورا تک جا پہنچتا ہے۔ ماورائی کا درجہ تو اُسے ہی ملتا ہے جو اخلاص سچائی راست بازی کے راستے پر چلتا رہے۔ بنا احساس کئے کہ منزل کتنے پاس ہے یا کتنی دور ہے۔ راست بازی کی طرف تو اٹھنے والا ہر قدم ہی منزل ہوتا ہے۔ ہر قدم کی سربلندی کی طرف لے کر جاتا ہے۔ امام حسینؓ نے تو سربلندی اور معراج کا وہ سفر کیا کہ آنے والی نسلوں کے لئے عزم، ولولہ اور حوصلہ چھوڑ گئے۔
سرداد نہ داد دست درد ستِ یزید
حق کہ بنائے لا الِہٰ است حسینؓ
حضرت امام حسینؓ کا سفر سنت کی حرمت کے احیاء اور کلمتہ الحق کا اعلان اوراسلامی شعائر سے محبت کا سفر تھا۔ یزید طاقت کی محبت کے زعم میں مبتلا تھا۔ طاقت کی محبت میں مبتلا شخص ذات کے حصار سے باہر نہیں نکلتا۔ وہ باطن سے بیگانہ ہوتا ہے۔ طاقت کی دلیل دنیا فتح کر سکتی ہے دل فتح نہیں کرتی۔ محبت کے مقابلہ میں اگر طاقت وقتی طور پر غالب بھی آ جائے تو بھی زمانے کی نظر میں مغلوب ہے اور معتوب ہے اور محبت مصلوب بھی ہو جائے تو مقبول ہے۔ محبت تو میدانِ کربلا میں ہمیشہ کے لئے سرخرو ہے۔ یہی وہ سبق تھا جو امام حسینؓ نے شہادت کے بعد پوری نسل انسانی کو دیا کہ حق ہمیشہ زندہ ہے۔ جبر و استبداد نے مٹ جانا ہے۔ بنی نوع انسان کی تاریخ میں ایسی بے مثال نظیر نہیں ملتی کہ جبر و استبداد کو مٹانے کے لئے امام حسین ؓ نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ درحقیقت یہ قربانی ایک روشن اور زندہ مثال ہے اور آنے والی نسلوں کے لئے روشنی کا مینار ہے کہ جہاں کہیں ظلم اور بربریت پنجے گاڑے گی وہاں حق اور سچ پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہو گا۔
حد درجہ محترم ہے جو میرا حسینؓ ہے
اسلام کا بھرم ہے جومیرا حسینؓ ہے
آج ہمیں اُسی ولولے ہمت اور سچائی کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنے اندر اور باہر کے دشمنوں سے مقابلہ کر سکیں اور ا ن اصولوں کی پیروی کر سکیں جو امام حسینؓ کے اصولوں اور نظریات کا خاصہ ہیں۔ اِسی میں بقا اور سالمیت ہے۔