شہادت حسین ؓ اور روشن چراغ
مولانا ابوالکلام آزاد رقمطراز ہیں ’’تاریخ ،اسلام میں حضرت امام حسین ؓ کی شخصیت جو اہمیت رکھتی ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ خلفائے راشدین کے عہد کے بعد جس نے خلفائے راشدین کے عہد کے بعد جس واقعہ نے اسلام کی دینی سیاسی اور اجتماعی تاریخ پر سب سے زیادہ اثرڈالا وہ ان کی شہادت کا عظیم واقعہ ہے بغیر کسی مبالغہ کے کہا جاسکتا ہے کہ دنیا کے کسی المناک حادثہ پر نسل انسانی کے اس قدر آنسو نہ بہے ہوں گے جس قدر اس حادثہ پر بہے۔ 14سوبرس کے اندر چودہ سومحرم گزرچکے اور ہرمحرم اس حادثہ کی یاد تازہ کرتا رہا ہے۔ امام حسینؓ کے جسم خونچکاں سے دشت کربلا میں جس قدر خون بہا تھا اس کے ایک ایک قطرہ کے بدلے دنیا اشک ہائے ماتم والم کا ایک ایک سیلاب بہا چکی ہے‘‘۔ جب میں سانحہ کربلا میں حق وباطل کے تاریخ ساز معرکہ میں امام عالیٰ مقام کے خطابات پر نظر دوڑاتا ہوں توصاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک ایک مسلمان کی حقیقی ودائمی کامیابی یہی ہے کہ وہ اللہ کے دین کی سربلندی کی خاطرشہید کردیا جائے لہذا ایک مومن کی دلی تمنا یہی ہوتی ہے کہ وہ اللہ کی راہ میں شہادت سے سرفراز ہو ۔
حضرت ابوہریرہ ؓسے صحیح بخاری میں ایک حدیث کی مستند روایت ملتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے میری یہ آرزو ہے کہ میں اللہ کی راہ میں قتل (شہید) کیاجاؤں پھرشہیدکیاجاؤں، پھرزندہ کیا جاؤں پھرشہید کیا جاؤں ، پھرزندہ کیا جاؤں اور پھرشہید کیا جاؤں۔
آقائے دوجہاں خاتم النبین رحمتہ للعالمینؐ کے نواسے جگرگوشہ تبول نوجوانان جنت کے سردار کربلا کے قافلہ سالار سبط رسول اور ان کے 72جانثار ساتھیوں نے حق وصداقت کے لئے شہادتوں کی وہ عظیم الشان روائتیں قائم کی ہیں جنہیں آج بھی میرے وطن کی پاک فوج کے روشن چراغ زندہ رکھے ہوئے ہیں۔گزشتہ سال رونما ہونیوالا واقعہ دل و دماغ پر نقش ہوکر رہ گیا ہے۔ لیفٹیننٹ ارسلان عالم فیس بک پر اپنے دوست سے شہادت کا اظہار کرتے ہوئے لکھتا ہے کچھ نہیں بس آپریشن کی تیاری ہے یعنی میدان کربلا میں اترنے کی تیاری ہے، دوست مذاق سے کہتا ہے کہ توبھی آپریشن کرلیتا ہے اس پر تین بہنوں کا اکلوتا بھائی ایک استاد کا لخت جگرکہتا ہے صاحب ہم کہاں ۔ شہید ہونے آئے ہیں گولی کا انتظار ہے تودوست نے کہا جذباتی نہ ہو مگرحسینی روایات کے علمبردار توآج کی کربلا کے میدان میں ظلم وانصافی اور دہشت گردی کو مٹانے کے لئے شہادت کے میدان میں ظلم وناانصافی اور دہشت گردی کو مٹانے کے لئے شہادت کا متمنی تھا ابھی تو وہ جوان رعنا تھا ابھی تواس نے دنیا میں کچھ بھی حاصل نہ کیا تھا مگرمحرم قریب تھا اسے توامام عالی مقام حضرت امام حسین ؓ کی روایت شہادت کو آگے بڑھانا تھاشہید کی آخری انسٹاگرام پوسٹ میں بھی آخرت کا ذکر ہے جس کے الفاظ کچھ یوں ہیں جگہ برائے فروخت …جگہ کا نام…جنت، دروازے… آٹھ … کاغذات …لاالہ الاللہ قیمت۔ رب کے ساتھ شرک نہ کر۔ محل وقوع ، فردوس اعلیٰ کبھی نہ ختم ہوے والی ازلی زندگی۔ آرمی چیف جنرل جاوید قمرباجوہ نے شہید کی قبرپر فاتحہ خوانی کی اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ پاک فوج اور قوم کو اپنے شہدا کی قربانیوں پر فخر ہے شہدا نے اپنے خاندان پر وطن کو ترجیح دی۔ جب تک اس طرح کے والدین اور وطن کے ایسے بیٹے موجود ہیں دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ہے کربلا کے شہیدوں سے لے کر شہدائے وطن کے آخری شہید کاراجگال میں جو خون کہتا ہے وہ یہ ثابت کرتا ہے۔
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہرکربلا کے بعد
ہردور میں اسلام کی سربلندی کے لئے ظلم او باطل کے خلاف نواسہ ٔ ر سول شہید کربلا کی شہادت مسلمانوں کے دلوں کو اس جذبہ حریت کو قائم رکھتی ہے کہ راہ حق میں اپنی جانیں قربان کرنے والوں کے نام رہتی دنیا میں عزت اور احترام کے ساتھ لئے جاتے ہیں اوردورکے یزید پر دنیا لعن وطعن کرتی ہے۔سیدنا حضرت حسین بن علیؓ اور ان کے خانوادہ کی شہادت اسلامی تاریخ کا اہم واقعہ ہے بلکہ پوری دنیا کی تاریخ میں ایسی روشن مثال نہیں ملتی ہے جہاں اہل حق کی مٹھی بھرجماعت باطل کے مقابلے پر جہاد کرتے ہوئے شہادتوں کے تاج پہن کر آنے والی نسلوں کے لئے ہزاروں حکمتوں کے پردے واکردیتی ہے آج ہمیں اسوہ شبیری پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اسلام کے حق وصداقت کے چراغ روشن کرنے ہیں۔ اس کے لئے ہمیں شہادت کا جذبہ اپنے اندر ہمیشہ بلند رکھنا ہے۔
چڑھ جائے کٹ کے سرتیرا نیزے کی نوک پر
لیکن یزیدیوں کی اطاعت نہ کر قبول
سن 60ہجری میں جب یزید تخت پر بیٹھا تولادینیت نا انصافی عہد شکنی ظلم وجبراور فسق وفجور کے نئے دورکا آغاز ہوا اسلام کی آفاقی تعلیمات کونظرانداز کرکے یزیدی ثقافت کو فروع دیا جانے لگا اور خلافت کی بساط لپیٹ کر ملوکیت کی بنیاد رکھی جانے لگی توایسے میں امربالمعروف اور نہی عن المنکرلازم ٹھہرا اور امام عالی مقام یزید کے باطل اقدامات کے سامنے آہنی دیوار دیوار بن کر کھڑے ہو گئے اور اس کی بیعت کرنے سے صاف انکارکردیا امام حسین نے تمام خطرات کے باوجود عزیمت کی راہ اختیارکی تاکہ اپنے نانا حضرت محمد ﷺ کے دین کی سربلندی پر کوئی حرف نہ آنے پائے۔
ایک مقام پر آپ نے اپنے خطبے میں اسلام کی حرمت برقرار رکھنے کے اپنے عزم اور ارادہ کو کچھ یوں بیان کیا اے لوگو! رسول کریمﷺ نے فرمایا ہے کہ جو کوئی ایسے حاکم کو دیکھے کہ وہ ظلم کرتا ہے اللہ کی قائم کی ہوئی حدیں توڑتا ہے‘ سنت نبوی کی مخالفت کرتا ہے اللہ کے بندوں پر گناہ اور سرکشی سے حکومت کرتا ہے اور یہ دیکھنے پر بھی نہ تو اپنے فعل سے اس کی مخالفت کرے ‘ نہ اپنے قول سے تو اللہ ایسے آدمیوں کو اچھا ٹھکانہ نہیں بخشے گا دیکھو یہ لوگ شیطان کے پیروکار بن گئے ہیں اور رحمان کے سرکش ہوگئے ہیں‘ مال غنیمت پرناجائز قابض ہیں اللہ کے حرام کو حلال اور حلال کو حرام ٹھہراتے ہیں‘ ان کی سرکشی کو حق وعدل سے بدل دینے کا سب سے زیادہ میں حق دار ہوں۔ اے اہل کوفہ تمہارے بے شمار خطوط اور قاصد میرے پاس پیام بیعت لے کر پہنچے۔ تم عہد کرچکے ہو کہ مجھ سے بے وفائی نہ کروں گا اگرتم اپنی اس بیعت پر قائم رہو تویہ تمہارے لئے راہ ہدایت ہے کیونکہ میں حسینؓ ابن علی بن فاطمہؓ اور رسول اللہؐ کا نواسہ ہوں میری جان تمہاری جان کے ساتھ ہے میرے بچے تمہارے بال بچوں کے ساتھ ہیں مجھے اپنا نمونہ بناؤ اور مجھ سے گردن نہ موڑو۔ لیکن اگر تم یہ نہ کرو بلکہ اپنا عہد توڑدو اور اپنی گردن سے بیعت کا حلقہ نکال پھینکو تویہ بھی تم سے بعید نہیں۔تم میرے باپ بھائی اورعم زاد مسلم بن عقیل کے ساتھ ایسا کرچکے ہو لیکن یاد رکھو تم نے اپنا ہی نقصان کیا ہے اور اب بھی اپنا ہی نقصان کرو گے تم نے اپنا حصہ کھودیا اپنی قسمت بگاڑدی جو بدعہدی کرے گا خود اپنے خلاف بدعہدی کرے گا عجب نہیں اللہ عنقریب مجھے تم سے بے نیازکردے گا۔ایک اور جگہ تقریر کرتے ہوئے امام حسین نے فرمایا اور معاملہ کی جوصورت ہوگئی ہے تم دیکھ رہے ہو دنیا نے اپنا رنگ بدل لیا ہے نیکی سے خالی ہوگئی ہے ذرا سی تلچھٹ باقی ہے حقیرسی زندگی رہ گئی ہے ہولناکی نے احاطہ کرلیا ہے افسوس دیکھتے ہیں کہ حق پس پشت ڈال دیا گیا ہے ۔
باطل پر علانیہ عمل ہورہا ہے کوئی نہیں جو اس کا ہاتھ پکڑے۔ وقت آگیا ہے کہ مومن حق کی راہ میں رضائے الٰہی کی خواہش کرے لیکن میں شہادت کی موت چاہتا ہوں ظالموں کے ساتھ زندہ رہنا بجائے خود ظلم ہے ۔
امام حسین ؓ نے اللہ تعالیٰ کی سرزمین پر اللہ جل شانہ کی حکومت قائم کرنے کے لئے بے مثال قربانیاں دی اورلاالہ الااللہ کا مفہوم اجاگرکیا حضرت معین الدین چشتی نے فرمایا۔
شاہ است حسین بادشاہ است حسین
دین است حسین دین پناہ است حسین
سرداد نہ داد دست در دست یزید
حقا کہ بنائے لاالہ است حسین !