امام حسین ؑ میدان کربلا میں
افقِ زندگی پر مظالم کی موسلادھار بارش باربار ہوئی اور جو روستم کی سیاہ گھٹائیں شب وروز چھائیں۔ نمرود کی آگ آغوش میں لینے والی سر زمین اسی دنیا کی تھی۔ آدم علیہ السلام کو جنت میں دھوکہ دینے والے ہاتھ اسی زندگی کے تھے۔ یعقوب ؑ کو اندھا اور یوسف ؑ پر بہتان لگانے والی یہی دنیا تھی مگر سیّدہ ؑ کے لال ؑ پر میدانِ کربلا میں جو کچھ گزری اس کا شائبہ ادھر ہے نہ اُدھر۔ قربان اس نواسئہ کے جو ناناکی شان اس امت کو دکھا گیااور نثار اس نواسی کے جن کا صبر شکر زندگی کے ان نازک لمحوں میں احکامِ ربانی کی عملی تفسیر کر رہا تھا۔ اس قیامت خیز حالت میںکہ آسمان کی آگ زمین کو جھلسا رہی تھی اور زمین کے شعلے آسمان سے باتیں کر رہے تھے۔ہوا کے تھپیڑے جھلسا رہے ہیں۔ چرند اور پرند ہانپ ہانپ کر دور بھاگ گئے، حسین ابنِ علی ؑ کی آ نکھیں کیا دیکھتی ہیںاٹھارہ مہینہ کا معصوم بچہ عبداللہ علی اصغر ؑ پیاس سے تڑپ تڑپ کے اور بلک بلک کر ماں کی گود میں نڈھال ہو چکا۔ مامتا کی ماری بی بی شہر بانوؑ اس کی صورت تک رہی ہے اور چاہتی ہے کہ آنسوئوں کے چند قطرے حلق میں ٹپکائوں ۔ بچہ ہوش میں آ کر آنکھ کھولتا ہے اور ماں کی طرف دیکھ کر زبان باہر نکال دیتا ہے۔ نقاہت ،زبان کو ہونٹوں تک نہیں آنے دیتی آہستہ سے منہ کھول کر زبان اور حلق کے کانٹے ماں کو دکھاتا ہے، تو بے تاب ہو کر کہتی ہے ، قربان ہو جائوں اِن ہونٹوں کے اور اس زبان کے ۔ ماں کے فقرے اور بچہ کی کیفیت نے باپ کے ساتھ کیاکیا ۔ اس کا جواب اولاد والے دیں گے ۔ بچہ کو گود میں لے کر اپنی زبان اس کے منہ میں دی اور آنکھ سے زارو قطار آنسوئوں کی لڑیاں بہنے لگیں ۔ مگر دل سے اب بھی صبر و شکر کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں ۔ دوسری طرف نگاہ اْٹھاتے ہیں تو جوان شیر نشئہ شہادت میں چکنا چور خاموش کھڑا ہے۔ منہ سے کچھ نہیں کہتا مگر پیاس نے جان پر بنا دی ۔ باپ کی صورت دیکھتے ہی ادب سے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا۔ قریب پہنچے تو دل کٹ گیا، دیکھا تو پھول سا چہرہ ہوا کے تھپیڑوں سے کملا چکا ہے۔ پیاس کی شدت نے ہوش اْڑا دیئے ہیں۔ ایک آگ کا دریا خیمہ میں لہریں لے رہا ہے اور بڑے سے چھوٹے تک سب پیا س پیاس کے نعرے لگا رہے ہیں۔ علی اکبرؑ کچھ کہنا چاہتے تھے کہ پشت سے ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا آیا ، تعجب کی نگاہوں سے پلٹ کر دیکھا ماں جائی زینب ؑ اپنی ردا سے پنکھا جھل رہی تھی ۔ اس کی شفقت نے بے تاب کر دیا ، سر پر ہاتھ رکھ کر کلیجہ سے لگایا تو اس کے دونوں بچے عونؑ و محمدؑ قدموں سے آنکھیں مَل رہے تھے ۔ ان کو سینہ سے لگایا تو سامنے حضرت امام حسن ؑ کا لال ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔ یہ کیفیت تھی جو انسان کیا پتھر کے بھی ٹکڑے کر دیتی۔ باہر نکل کر دیکھا تو ہمراہی ہتھیا ر لگائے قربان ہونے کے شوق میں بے تاب تھے۔قاصد یہ پیام لے کر یزید کے پاس پہنچا ، شام قریب تھی اس لئے اس نے تجویز سے متفق ہونے میں تامل نہیں کیا۔ شمر سے مشورہ کیا تو اس نے کہا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حسین بن علی ؑ کے پاس جمعیت بہت کم ہے اور ہم چشم ِ زدن میں ان کا خاتمہ کر دیں گے لیکن حسین ؑ اس باپ کا بیٹا ہے جس کی شجاعت کا سکہ دنیا پر بیٹھا ہوا ہے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ ہم اس میں سے کس کس کے سر پر قضا کھیل رہی ہے اور حسین ؑ کا سر کس قدر جانیں لے کر ہاتھ آئے گا ۔ مہلت اس لئے دے دو کہ رات بھر پیاسے رہنے سے حسینؑ اور اس کا لشکر اس قدر مضحمل ہو جائے کہ کل لڑائی کی ہمت نہ رہے گی۔
کربلا کے میدان میں راتیں آئیں اور گئیں ، آئیںگی اورجائیں گی، مگرمحرم سن 61ھ کی نوویں رات، جس کی صبح کو ابن زیاد کے حکم سے عمر و سعد نے چمنستان زہراؑ کی سر سبز و شاداب کونپلیں توڑیں، پہاڑ وں سے سر پھوڑتی آئی۔ کربلا کے ذرات نے واویلا شروع کیا اور فرات کی لہریں سینہ کوبی میں مصروف ہوئیں ، یزید ی لشکر نے شب ما ہ کا لطف اٹھانے میں کسر نہ چھوڑی اور رات کا بڑا حصہ گلچھروں میں گزا را۔ مگر سیدالشہدؑا عشاء کے بعد ہی سے خدا سے رازو نیا ز میں مصروف ہو گئے ۔
جب آدھی کے قریب رات گزر چکی تھی اور چاند روتا ہوا رخصت ہو رہا تھا۔ اس اندھیرے گھپ میںجہاں اولاد ِ رسول اللہ ﷺ کو روشنی کرنے کے لئے تیل بھی میسر نہ تھا۔ سیّدہ کا لال ؑ سجدے میں گر گیا۔
اس کے بعد اما م حسین ؑ نے بی بی زینب ؑ کے گلے میں بانہیں ڈال دیں اور کہا ۔ ماں جائی ! اماں کے دودھ کا حق جو اماں کے بعد ادا کیا دنیا اس کا جواب نہیں دے سکے گی۔ حسین ؑ کی عاشق زار بہن ! بھائی کے گلے مل اور رخصت ہو کہ طبل جنگ بج رہا ہے اور ایک سر کے واسطے ہزار ہا مسلمان تلواریں لئے کھڑے ہیں ، جس طرح سوئے ہوئے بھائی کی بلائیں لے کر قربان ہوتی تھی اور دیکھ دیکھ کر شکرانے کے نوافل پڑھتی تھی، اسی طرح اس کے سر کو گلے سے لگا کر شکر ادا کرنا۔ زینب ؑ کس منہ سے تیرا شکریہ ا دا کروں تو نے اپنی عمر بھر کی کمائی نثار کر دی اور اس وقت کوئی اتنا نہیں کہ تیرا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دوں ۔ ماں جائی! زینب ؑ خدا تیرا بہترین وارث ہو گا۔ میری ماں کی صابر و شاکر بچی تیرے ہونٹوں پر حسینؑ قربان ہو۔ ہائے زینب زندگی کے آخری لمحوںمیں چیتھڑیاں بندھی ہوئی دیکھ رہا ہوں۔ میدان کربلا سے یزید نہال جائے گا مگر بنت علی ؑ خالی ہاتھ روتی پیٹتی روانہ ہو گی۔ جن بچوں کو بھائی کی حمایت کے واسطے لائی تھی وہ اس لق دق میں سو رہے ہیں ۔ بس میری بہن صبر کر اور جس طرح حسین ؑ نے علی ؑ کی شان دکھادی ، اسی طرح تُو بھی فاطمہؑ کی جھلک دکھا دے۔ آ میری پیاری بہن زینب ؑ بھائی سے مل اور رخصت ہو ، طبلِ جنگ بج رہا ہے۔ اس کے بعد امام حسین ؑ نے بی بی شہر بانوؑ کی طرف دیکھ کر کہا ۔ فاطمہ ؑاور علی ؑ کی بہو، تْو اس کی بھاوج ہے۔جس کا کلیجہ کٹ کٹ کر قے میں نکلا مگر قاتل کا نا م نہ بتایا ، تْو اس شیر خوار بچے کی ماں ہے جس نے حرملہ کے تیرپر مسکرا کر جان دی ۔ عمروسعد کے کڑوے گھونٹ شہد بن کر حلق سے اتریں ۔ اس کی شادمانی فانی ہے ۔ تْو تامل سے دیکھے گی کہ نصرت کے شاد یانے ابن زیاد اور یزید کے واسطے عبرت کے تازیانے ہوںگے۔ حسین ؑ کی بے کفن لاش تیرے سامنے پڑی ہواور خون آلود سر تیری آنکھوں کے سامنے تڑپ رہا ہو ، لیکن زبان سے اف نہ نکلے اور دل اس صداقت کا لطف اٹھائے جس پر حسین ؑسب کچھ قربان کر چلا ، خانماں برباد قافلہ جب حدودِیثرب میں داخل ہو تو درود پڑھ کر مسجد نبوی ﷺ میں جانا اور حریم مبارک کے پردے پکڑ کر بصد عجزونیازالتجا کرنا کہ فاطمہ ؑکا لٹا ہوا خاندان درِ اقدس پر حاضر ہے۔ دعا فرمایئے کہ میدان کربلا مسلما نوں کو سبق اور ان کی کشتی کا ناخدا بنے۔ شہر با نو تیرے کرم کا شکریہ آسان نہیں، اب تیرا خدا نگہبان ہے۔ علامہ اقبال ؒنے اس عظیم قربانی کی منظر کشی کچھ یوں فرمائی۔
صدق خلیلؑ بھی عشق صبر حسینؑ بھی عشق
معرکہ وجود میں بدرو حنین بھی عشق
خیر وشر کی بے مثال جنگ کا معرکہ میدان ِ کربلا ہے جو ظلم ستم امام ِ عالی مقام حضرت امامِ حسین ؑ کی ذات اقدس نے دیکھے اور ان کو سینہ سپر ہو کر سہا۔ کوئی پتھر ہوتا تو پگھل جاتا۔مگر آپؑ کی ذات نے دین اسلام کی آبیاری کا جو وعدہ فرمایا تھااسے پورا کر دکھایا۔ علی اکبرؑ علی اصغرؑ بھانجوں ، بھتیجوں کی قربانیوں کے بعد آپ نے زبانِ حال سے فرمایا!
کربل میں جانیں وار کے یہ کہہ علی کا پِسر گیا
یہ سنبھال اپنی امانتیں میرے َسر سے قرضہ اتر گیا
شہدائے کربلا اور شہادت امامِ حسین ؑ کا پیغام استقامت ، جرات، عزت ، تاجدارِ مدینہ کی اطاعت اور بندگی، مالک کائنات کی ہے۔ حضرت امامِ حسین ؑ کا جوانوں کی لاشوں میںادائیگیِ نماز کا کارنامہ ہمارے لئے مشعلِ راہ ہے کہ حالات جیسے بھی ہوںمگر نماز قضا ء نہیں ہونی چاہیے ۔