نواسۂ رسول ،جگرگوشۂ بتول ،امام عالی مقام ؓکی شہادت
جماعت صحابہؓ۔دانائے سبل، فخررسل،مولائے کل صلی اللہ علیہ وسلم کی پروردہ جماعت ہے کہ جن کاحکم، حکم الہٰی ،کلام الہٰی اورعمل منتہائے ربی ہے ۔رحمت اللعالمین ،فخردوجہاںصلی اللہ علیہ وسلم نے تین لاکھ سے متجاوزقدسی صفت صحابہ کی جماعت گراںمایہ میںفکرونظر اورشعوراحساس کا وہ نورمنتقل کیاکہ جوقیامت تک امت رسولؐ کے لیے ہدایت اورحریت کے راستوںکوروشن کرتارہے گا ۔نواسۂ رسول ،جگرگوشہ بتول ،نورنظرعلی المرتضیٰ ،سیدناحسین ابن علی رضی اللہ عنہ بھی اسی جماعت صحابہؓ کے فردفریداورلولوئے لالہ ہیںحضرت امام حسین رضی اللہ عنہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چھوٹے نواسے تھے ان کے بارے میںحضورپرنور ؐنے فرمایا تھا کہ ’’حسین منی وانامن الحسین ‘‘یعنی حسین ؓ مجھ سے ہیںاورمیں حسینؓسے ہوں،آپؓ عصت وطہارت کامجسمہ تھے سخی اتنے تھے کہ کوئی سائل آپ کے دروازے سے کبھی خالی ہاتھ نہیںگیاتھا آپ کی سخاوت کے بارے میںحضورپاکؐ نے فرمایاتھاکہ حسین میں میری سخاوت اور میری جرأت ہے آپ کے دروازے پرمسافروںاورحاجتمندوںکا سلسلہ برابررہتا تھا اس وجہ سے آپ کالقب ابوالمساکین ہوگیاتھا۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کمال کے زاہدوعابد تھے اپنے رب کے حضور عجزکااظہارکرکے طویل سجدے کرنے والے اورقیام میںایک یادوپارے نہیںسورۃ بقرہ ایک رکعت میں پڑھنے والے تھے ،جنہوںنے بچپن میںحضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارکی بہاروںکولوٹاہے ۔آپؐ کی گود میںکھیلے ہیںاوروہ ریحانتہ النبی ہیں۔
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام ؓ نے رسول اللہ ؐ سے عرض کیاکہ اہل بیت ، میںسے آپؐ کوکون سب سے زیادہ محبوب ہے ؟توآپ ؐ نے فرمایاحضرت حسن اورحضرت حسین رضوان اللہ علیھم اورآپ ؐ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایاکرتے تھے کہ میرے بیٹوںکو میرے پاس لے آئواور آپ ؐ ان کو اپنے سینے سے لگالیتے ۔حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے حضرت حسنؓ کو کندھے پراٹھایا ہواتھا کہ ایک شخص نے کہا ’’کیااچھی سواری ہے جس پرآپ ؐ نے نے ارشاد فرمایاکہ کتنااچھا سوارہے۔‘‘ مگرجب آنے والے حالات کا آپؐ کوعلم ہواتوآپؐ کی آنکھوںسے آنسو برس پڑے۔ آپ ؐنے فرمایاکہ میرے پاس جبرائیل آئے اورمجھے بتایاکہ میری امت میرے اس بیٹے کوقتل کردے گی ،جبرائیل اس جگہ کی سرخ مٹی بھی لائے جہاںاسے قتل کیاجائے گا ،سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو نبی کریم ؐ کی معیت جسدی اورمعیت زمانی حاصل ہے آپ براہ راست فیضان رسول حاصل کرنے کے شرف سے مشرف ہیںآپؓ کایہ مرتبہ ومقام اوراجلال واکرام ہی ہماری محبتوں کامرکزومحورہے ۔حادثہ کربلاکے پس منظر میںیہودیوں،سبائیوں اور مجوسیوںکی منافقانہ سازشیںکارفرما تھیں،خیبرکی شکست ،جزیرۃ العرب سے انخلاء اوراپنے اقتدارکے چکناچور ہونے کے بعد یہودیوںنے امت مسلمہ میںانتشار وافتراق کی گہری سازشیں شروع کردیںان سازشوں میں نمایاںکردارایک حسبی نسبی یہودی عبداللہ ابن سباء کاتھاجس نے شہید مظلوم سیدناحسین رضی اللہ عنہ کی شہادت میںاہم کرداراداکیا،20ھ جب امیر معاویہ کا سانحہ ارتحال پیش آیا توکوفہ کے کچھ منافقوں نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کوخط لکھاکہ ’’حسینؓ!تجھ کومبارک ہو، معاویہ مر گیا‘‘۔ سازش اورفساد کاآغازیہیںسے ہوا،سیدنا حسینؓ کوباربارخط لکھے گئے اورکہاکہ میدان خالی ہے ۔پھل پک چکاہے ۔
آئیے ہم آپ کوامام مانتے ہیںآپؓ نے حالات کاجائزہ لینے کے لیے اپنے چچازادبھائی مسلم بن عقیل کوکوفہ بھیجاتوپہلے ہزاروں کوفیوںنے ان کی بیعت کی پھرانہیںبے دردی کے ساتھ شہید کردیا ۔چنانچہ جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ مقام ثعلبیہ پرپہنچے توانہیںمعلوم ہواکہ مسلم بن عقیل کوشہید کردیاگیاہے توآپؓ نے مسلم بن عقیل کے بیٹوںسے مشورہ کے بعد یزیدسے ملاقات کا فیصلہ کرلیا۔حضرت مسلم بن عقیل کے بیٹے بھی آپؓ کے ساتھ تھے اوراسی مقام سے کوفہ کی بجائے شام کا سفرشروع کیا۔شمرجومسلم بن عقیل کے قتل میںبراہ راست شریک تھا اس نے سمجھ لیا کہ اگرسیدنا حسینؓ یزید کے پاس پہنچ گئے تواصل سازش عیاںہوجائے گی چنانچہ انہوںنے آپ کاراستہ روکااوراپنے ہاتھ پریزیدکی بیعت کامطالبہ کیا۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے اس موقع پرفرمایا ’’ابن زیاد کے ہاتھ پریزیدکی بیعت؟یہ میری موت کے بعدہی ممکن ہے ‘‘۔سیدناحسین رضی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ عین حق تھا اورغیرت حسین ؓ کا یہی تقاضاتھا ۔پھرمیدان کربلامیںسیدناحسین ؓ نے جوشرائط پیش کیں آپ نے کہا کہ ’’میری تین باتوںمیںسے ایک بات پسندکرلو۔یامیںاس جگہ لوٹ جاتاہوںجہاںسے آیا ہوں،یا تم میرے راستے سے ہٹ جائواورمجھے یزیدکے پاس جانے دو۔وہ میرے متعلق خود اپنی رائے قائم کرے گا۔یاپھرمجھے مسلمانوںکی سرحدات میںسے کسی سرحد کی طرف روانہ کردوتو وہیںکا باشندہ بن جائوںگا پھرجونفع اور آرام وہاںکے لوگوںکوہوگا وہی مجھے بھی مل جائے گا اورجونقصان اورتکلیف وہاںکے لوگوںکو ہوگی وہی مجھے بھی پہنچے گی۔(الشافی ص۷۱)
سیدناحسین نے اپنے خطبہ میں فرمایا کہ ’’میرے گروہ کے افراد نے مجھے دھوکہ دیا‘‘سیدناحسین رضی اللہ عنہ کوفی دھوکہ بازوں،منافقوں اورسبائی تحریک کی سازش کاشکارہوئے ۔انہوںنے مکہ سے ثعلبیہ تک کوسفر اصلاح احوال کے لیے فرمایا ۔سازش عیاں ہونے پرثعلبیہ سے کوفہ کی بجائے شام کارخ اختیار کیا۔یوںکربلاکا سفر ،سفر قصاص مسلم بن عقیل ہے۔کربلامیںآپ نے فرمایا ’’میں اصلاح احوال کے لیے آیاہوں‘‘۔9محرم الحرام 61ھ کوابن سعد کا دستہ حضرت حسین ؓ کے خیموںکے پاس آیا آپ نے حضرت عباس کے ذریعے ان کے آنے کا ارادہ معلوم کیا توانہوںنے کہاکہ امیرابن زیاد کا حکم ہے کہ تم اس کی اطاعت کرلوورنہ ہم آپؓکے ساتھ جنگ کریںگے۔ حضرت حسین ؓ نے حضرت عباسؓ سے کہاکہ ان لوگوں کوکہوکہ ہمیںایک رات کی مہلت دے دیںتاکہ اس آخری رات ہم اچھی طرح اللہ کی عبادت کرلیں اوردعاواستغارکرلیںاللہ پاک جانتاہے کہ عبادت سے مجھے قلبی سکون ملتاہے۔ ابن سعد کے دستہ نے یہ بات مان لی شب عاشور سیدناحسین ؓ خیمے کے دروازے کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھے تھے کہ ہلکی سی اونگھ آگئی بیدارہوتے ہیں توآپؓکاچہرہ چودھویںکے چاندکی طرح منورہے ہلکی سی مسکراہٹ نے فضامیںپھول بکھیر دیئے رفقاء سے فرماتے ہیںکہ ناناؐ خواب میںآئے تھے ،فرمایاکہ’’حسین ‘‘اب ہم سے ملنے کی تیاری کرلو،راہ حق کے متوالوںکی پوری رات عبادت میںگزری ۔صبح آپؓ نے یزیدی فوج کے سامنے ایک ولولہ انگیزتقریرکی ،اے لوگوتم جانتے ہوکہ میںرسولؐ اللہ کانواسہ اورحیدرکرارؓ کانورنظراورفاطمہؓ کا لخت جگرہوں،جنت کے نوجوانوںکا سردارہوںتم سب نے مجھے خط لکھ کربلوایا اوراب میرے ہی خون کے پیاس بنے ہوئے ہو،جنگ نہ کرواورمجھے اورمیرے رفقاء کومکہ یامدینہ واپس جانے دو۔اس تقریرسے متاثر ہوکر حُربن یزیدتمیمی نے اپنا گھوڑاآگے بڑھایا اورحضرت امام حسین ؓ کے ساتھ کھڑاہوگیایہ منظردیکھ کرابن سعدنے کہاکہ اب دیرنہ کرو ،عمرونے حضرت حسین ؓ کی جانب تیرپھینک کرسانحہ کرب وبلاکاآغازکردیااس جنگ میںآپؓ کے جانثارسا تھیوں نے بڑی جوانمردی سے یزیدیوںکا مقابلہ کیاآخرکار معصوموں اورمظلوموں کی شہادت نے کربلاکے میدان کواپنے خون سے رنگین کردیاامام عالی مقام حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے جسم اطہرپر33زخم نیزوںکے 43تلواروںکے تھے اورآپؓ کے پیرہن شریف پر121سوراخ تیروںکے تھے یہ تمام زخم جسم مبارک کے اگلے حصے میںتھے پشت مبارک پرکوئی زخم نہ تھا (جامع التواریخ)