قرآن حکیم میں سورة نساءکی آیت نمبر ۶۹ میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا وہ اللہ کے انعام یافتگان کی معیت پائے گا۔ جو انبیاءصدیقین، شہداءاور اولیاءو صالحین ہیں۔ پھر فرمایا کہ وہ کتنے اچھے رفیق اور کتنے اچھے ساتھی ہیں۔ اس آیت میں جو مضمون بیان ہوا وہ دراصل سورہ فاتحہ کی اس آیت کریمہ کی تفسیر ہے، جس میں ہمیں یہ دعا کرنے کی تلقین فرمائی گئی کہ اے اللہ ہمیں صراط مستقیم عطا کر، پھر صراطِ مستقیم اور ہدایت کی راہ کی خود وضاحت کی کہ یہ اللہ کے انعام یافتہ بندوں کی راہ ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی راہِ ہدایت اور صراط مستقیم کی پہچان ان شخصیات کے حوالے سے کی جن پر اس کا خاص انعام ہوا۔ اللہ کے انعام یافتہ بندے کون ہیں؟ اس کا جواب سورة نساءکی مذکورہ بالا آیت میں دیا گیا کہ وہ انبیاءو رُسل علیہم السلام ہیں۔ اس کے بعد صدیقین، پھر شہداءاور پھر صالحین ہیں۔ ان سب کے نقوش قدم سے ہدایت کی منزل پائی جاسکتی ہے۔ اگر ان کی راہ سے تم نے گریز پائی اختیار کی اور مجرّد بحث مباحثوں، مناظروں میں الجھے رہے اور کتابوں میں کھوئے رہے تو ان سے علم تو حاصل ہوسکتا ہے مگر ہدایت بالیقین نہیں مل سکتی۔ علم تب ہدایت میں بدلتا ہے جب اللہ تعالیٰ کے ہدایت یافتہ بندوں سے راہنمائی حاصل کی جائے۔
آج یوم عاشور ہے۔آج کا دن بھی ہمیں انہی اللہ کے بندوں کی یاد دلاتا ہے جو اللہ کی راہ میں ڈٹ کر کھڑے ہوگئے، جو یزید کا ظلم سہہ کر رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے۔ آج سے چودہ صدیاں قبل وہ کیا دن تھا جب حسینؓ ابن علیؓ خود تو اپنے اصولی موقف پر ڈٹے رہے لیکن اپنے ساتھیوں کو بار بار کہتے رہے کہ اگر وہ جانا چاہیں تو جا سکتے ہیں۔ اس کے لیے انہوں نے اپنے ساتھیوں کو یہاں تک پیشکش کی کہ جب رات کے اندھیرے گہرے ہوں، چراغ گُل کر دیے جائیں اور انہیں جاتے ہوئے کوئی دیکھ بھی نہ سکے تو وہ جا سکتے ہیں۔اپنی زندگی کے وہ خود مالک ہیں وہ جیسے چاہیں اپنی زندگی گزاریں، وہ قطعاً پابند نہیں کہ وہ بھی اصولی موقف کی خاطر نواسہ رسول کے ساتھ کھڑے ہو کر دکھ و اذیت برداشت کریں۔ ان جانثار ساتھیوں کو بار بار کہا گیا کہ وہ رات کے اندھیرے میں جا سکتے ہیں تاکہ جاتے ہوئے انہیں شرمندگی کا بوجھ بھی برداشت نہ کرنا پڑے لیکن ایسا نہیں ہوا اور حضرت امام حسینؓ کے ساتھ ان کے قافلے کے سارے لوگ قوتِ ایمانی سے استقامت کی دیوار بن کر کھڑے رہے، ہو سکتا ہے کہ جانے والے مزید دس، بیس یا پچاس سال یا شاید اس سے بھی زیادہ جی لیتے لیکن آج ان کا نام ان بہادروں کے ساتھ نہ لیا جاتا جنہیں یقیناً اللہ کے ہاں عظیم مقام حاصل ہے۔آج کے دن ہم اُس دن کو یاد کرتے ہیں جس دن یزید کے ظلم نے حسینؓ کو امر کر دیا۔ وہ دن جس دن ارض کربلا پر خلافت راشدہ کو ملوکیت میں بدلنے کی کوشش کیخلاف سیدہ فاطمہؓ کے لعل سبط رسول فرزند حیدر حسین ابن علی نے کلمہ الحق کہتے ہوئے یزید کی بیعت سے انکار کا پرچم سر بلند رکھنے کی خاطر اپنی جان اپنے بیٹوں ، بھتیجوںاور بھائی سمیت اپنے دوستوں اور ساتھیوں کی قربانی دے کر قیامت تک کے دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایسا درس دیا جو تاقیامت قطع استبداد کرد کا نشان بن گیا۔ یہی وجہ ہے کہ 1400برس گزر جانے کے باوجود اس حریت فکر اور حق کی خاطر جان لڑا دینے کے عزم کو حسینیت کا نام دیا جاتاہے۔سیدنا امام حسینؓ نے خلافت راشدہ کے دور میں پرورش پائی، انہوں نے اصحاب رسول کو چلتے پھرتے حکومت کرتے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
وہ بھلا کب یہ برداشت کر سکتے تھے کہ جس اسلام نے آزادی مساوات اور انصاف کا درس دیا ہے جس کی بنیاد پرخلفائے راشدین نے عادلانہ حکومت کی۔جب اس پاکیزہ نظام کی جگہ روم و ایران کے بادشاہوں کی طرح خاندانی بادشاہت کو فروغ دیا جانے لگا۔ اس پر ظلم یہ کہ عوام سے زبر دستی بیعت بھی لی جانے لگی۔یہی وجہ ہے جب امام عالیٰ مقام کو یزید کی بیعت کے لئے مجبور کیا گیا تو آپؓ نے اس سے انکار کر دیا۔ اس وقت خود یزید کے دارالسطنت شام اور عراق سے ہزاروں افراد نے امام کو اپنی قیادت کے لئے بلایا کہ نظام حکومت میں جو خرابی پیدا ہو رہی ہے اسے درست کیا جائے۔ ملوکیت کی بجائے ایک مرتبہ پھر خلافت راشدہ کو زندہ کیا جائے۔ آپؓ ان لوگوں کے بار بار اصرار پر عراق روانہ ہوئے تو مدینہ میں آپؓ کے تمام رشتہ داروں خاندان والوںاور دوستوں نے آپؓ کو منع کیا کہ ان کوفیوں اور شامیوں کی باتوں پر نہ جائیں یہ حکومت سے ڈر کر آپؓ کا ساتھ چھوڑ دیں گے۔لیکن آپؓ نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ اگر آپؓ اس وقت رک جاتے تو پھر ملوکیت کے خلاف آواز بلند کرنے والا کوئی باقی نہ رہتا اور امت میں خلافت و ملوکیت کا وہ فرق نمایاں نہ ہوتا جو آپؓ کے خون نے کربلا کے تپتے ہوئے ریگزار میں لکیر کھینچ کر واضح کر دیا کہ خلافت کیا ہے اور ملوکیت کیا ہے۔ آپؓ اور آپؓ کے ساتھیوں نے بھوک ، پیاس ،تکالیف اور خوف برداشت کرکے جان و مال کے نقصان کی پرواہ کیے بغیر اپنی جانوں کو خدائی احکامات کے تحت نظام قائم کرنے کی جدوجہد میں قربان کرکے تسلیم ورضا کی وہ مثال قائم کی جو رہتی دنیا تک باقی رہے گی۔آپ جانتے تھے کہ آپ کے بعد آپ کی باپردہ باعظمت خواتین اور بچوںکے ساتھ ظلم و ستم کی راہ اختیار کی جائے گی۔ مگر بحکم قرآن آپ نے راہ خدا کی عظمت اور احکامات خداوندی کی بجا آوری کے لئے جان مال اور اولاد کی قربانی بھی دی اور آپ کی پاکیزہ خواتین نے بے پردہ کوفہ و شام کے بازاروں میں پھرائے جانے کا عظیم جانکاہ صدمہ بھی برداشت کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں جہاں کوئی ظالم و جابر مسلمانوں کو زبردستی اپنا غلام بنانے کی کوشش کرے وہاں مسلمانوں کو سیدنا امام حسینؓ کی حیات سے سبق حاصل کرتے ہوئے ہر روز کو یوم عاشور اورہر سرزمین کو کربلا بنا دینا چاہیے ،چاہے اس کے لئے جان و مال آل و اولاد کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے۔
آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیں ہم محض واقعات کو یاد کرکے نوحہ کناں ہوتے ہیں ،ہم چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطرگروہوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ہم کربلا کے میدان کی اُس قربانی کو اپنے لیے مشعل راہ بناتے ہوئے اپنی زندگی اس واقعے سے حاصل سبق کے تحت گزاریں، ملک اور دین کےلئے وہ کچھ کریں جس کا وقت متقاضی ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ یزید ایک شخص کا نام نہیں ہے، بلکہ ایک سوچ کا نام ہے، حسین ؓ بھی ایک شخص کا نام نہیں بلکہ ایک سوچ کا نام ہے۔ آج جن لوگوں نے قوم کے پیسے کھائے ہیں، قوم کو اس حال تک پہنچایا ہے۔ وہ کسی بھی طرح قابل معافی نہیں ہیں، یہ جہاد بندوق سے نہیں قلم سے کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے ایجوکیشن سسٹم کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، یہاں طالب علم ڈگری کے لیے نہیں تعلیم کے لیے اداروں میں داخلہ لیں۔ آج تک کسی ملک نے ترقی نہیں کی جن کا لٹریسی ریٹ 90فیصد سے کم ہو، جبکہ ہماری شرح خواندگی محض 20،25فیصد ہے۔
سب سے بڑا درس جو ہمارے لیے واقعہ کربلا میں مضمر ہے وہ یہ ہے کہ اقامت دین کے لیے تن من دھن سے کمربستہ ہونا اور طاغوتی و ابلیسی نظام کے خلاف سینہ سپر ہونا ہمارا اولین فرض ہے۔ سیدنا امام حسینؓ نے اس راہ میں اپنا سب کچھ قربان کردیا اور شہادت کا عظیم الشان مقام پاکرہمیشہ کے لیے جاوداں ہوگئے، لیکن ان کی شہادت کو محض سالانہ چند مخصوص ایام کے لیے محدود کرنا، اسلامی تعلیمات کو بالاے طاق رکھ کر خود کو اذیت دینا، کسی تہوار کی طرز پر منانا، نہایت افسوس ناک ہے۔ سانحہ کربلا پر جتنا رنج و غم کیا جائے اتنا کم ہے، مگر غم کیا جاتا ہے، منایا نہیں جاتا۔آئیے ہم تمام تفرقات اور گروہی تعصبات کو مٹاکر اور متحد ہوکر شہادت حسینؓ کے پیغام کو دنیا کے ہر کونے تک پہنچادیں۔ کیونکہ حسینؓ وہ مایہ ناز ہستی ہیں جن سے راہ وفا کو اعتبار ملا ہے۔ بقول شاعر
غرےب و سادہ و رنگےن ہے داستان حرم
نہاےت اس کی حسےن ابتدا ہے اسماعےل
٭٭٭٭٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024