پاکستان کا معرضِ وجود میں آنا ایک معجزہ تھا۔ وہ طاقتیں جنہوں نے خلافت عثمانیہ کو ختم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا اور پھر اپنی مرضی سے سلطنت عثمانیہ کو بہت سے ٹکڑوں میں تقسیم کرکے ان کی طاقت کو ختم کرنا چاہا وہی پاکستان کو بننے سے نہ روک سکیں۔ چنانچہ انہوں نے بٹوارے میں ایسے مسائل چھوڑے جو آج تک حل طلب ہیں‘ نتیجتاً پورا خطہ ترقی نہ کرسکا جس کا وہ حقدار تھا۔ اسرائیل کے پہلے وزیراعظم بن گوریان نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ مستقبل میں ہمیں عرب ریاستوں سے نہیں بلکہ نظریاتی ریاست پاکستان سے خطرہ ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم اس وقت ایک ایسے ملک کے بارے میں بات کررہا تھا جو سینکڑوں میل دور اور شدید مشکلات کا شکار تھا۔ یہ ان قوتوں کی بھی سوچ تھی جنہوں نے اس ناجائز ریاست کو بنایا تھا اور بڑی طاقتیں اور خاص کر یہودی اپنی بقاء کے بارے میں بہت حساس ہیں۔ دشمن اور اہداف پر نظر رکھتے ہوئے کئی عشروں کی پلاننگ کرتے ہیں۔
لیاقت علی خاں کی شہادت اور اس کے بعد کے واقعات اور حکمرانوں کو دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پاکستان میں شروع دن سے کس درجہ کی بیرونی مداخلت رہی۔ وہ طاقتیں جو پاکستان کو توڑنا چاہتی تھیں انہوں نے سیدھا سا فارمولا اپنایا کہ پاکستان میں سسٹم کو کمزور رکھا جائے‘ جمہوریت کو طاقتور نہ ہونے دیا جائے‘ حکومتیں مسلسل تبدیل کی جائیں ان میں مسائل سے نبردآزما ہونے کی صلاحیت نہ پیدا ہونے دی جائے نتیجتاً یہ ملک مسائل کے انبار تلے دب کر ختم ہوجائے گا۔
جمہوری نظام کو مذاق بنا دیا گیا اپنے پروردہ کارندوں اور میڈیا کے ذریعے آہستہ آہستہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو یہ باور کرایا گیا کہ سیاستدان نااہل اور کرپٹ ہیں‘ آپ پڑھے لکھے اور بہتر تربیت یافتہ ہیں‘ آپ بہتر حکومت چلا سکتے ہیں۔ میرا یہ یقین ہے کہ تمام ڈکٹیٹر محب وطن تھے وہ لاشعوری طور پر پراپیگنڈے کا شکار ہوکر راستہ بھٹک گئے۔ پہلے ڈکٹیٹر کی حکومت نے معاشی میدان میں کچھ کامیابیاں تو حاصل کیں لیکن عوامی اقتدار نہ ہونے کی وجہ سے مشرقی پاکستان میں شدید بے چینی اور محرومی کے نتیجہ میں پاکستان ٹوٹ گیا۔ اتحاد ثلاثہ (امریکہ‘ انڈیا‘ اسرائیل) کو ایک بڑی کامیابی حاصل ہوگئی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو دستور دیا اور اس قوم کو سر اٹھا کر جینے کی بات کی۔ اس کے ایٹم بم بنانے کے اعلان اتحاد ثلاثہ پر بجلی بن کر گرا۔ ہنری کسنجر نے بات نہ ماننے پر بھٹو کو نشان عبرت بنانے کی دھمکی دی۔ اب کی بار ایک اسلامی ذہن رکھنے والے جرنیل کو پراپیگنڈے کی مدد سے یہ باور کرا دیا گیا کہ پاکستان میں اسلام خطرے میں ہے اور وہ ہی اسے بچا سکتا ہے پھر جمہوریت کو لپیٹ دیا گیا۔ جنرل ضیاء کو وہاں لاکر کھڑا کیا گیا جہاں ایک قبر اور دو لاشیں تھیں۔ چنانچہ بھٹو کو پھانسی پر چڑھوا دیا گیا۔ مختصراً ڈکٹیٹر اپنے طور پر پاکستان کی خدمت کرتے رہے لیکن اصل میں وہ وقت ضائع کرتے رہے۔ وہ اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے جمہوریت کا مذاق اڑاتے رہے اور وہ کام نہ کرسکے جس کیلئے وہ تربیت یافتہ نہ تھے۔ یعنی معاشی طور پر پاکستان کمزور تر ہوتا چلا گیا۔ پاکستان دشمن قوتوں نے نوے کے عشرے میں پھر جمہوریت اور سیاستدانوں کو مذاق بنا دیا۔ کسی نہ کسی طرح وہ اسٹیبلشمنٹ میں موجود لوگوں کو پراپیگنڈے کے ذریعے یا باور کراتے رہے کہ سیاستدان نااہل اور کرپٹ ہیں بلکہ سکیورٹی رسک بھی ہیں اس لئے انہیں اقتدار سے علیحدہ کرنا پاکستان کے ساتھ نیکی ہے۔ نتیجتاً دس سال میں چار حکومتیں ختم کردی گئیں۔ یہ وقت بھی ضائع کرا دیا گیا۔ سیاستدانوں نے کچھ کام تو کئے لیکن تسلسل نہ ہونے کی وجہ سے بڑا نقصان ہوا۔ نوازشریف اور بینظیر کی حکومتوں کو پورا وقت مل جاتا اور انہیں سکون سے حکومت کرنے دی جاتی تو آج پاکستان بھی خطے کی ایک معاشی طاقت ہوتا۔ جنرل مشرف اپنے دس سالہ اقتدار میں کیوں تعلیم‘ صحت اور میگا پراجیکٹس جو پاکستان کی اشد ضرورت تھے پر کام نہ کرسکے‘ صدر بش سے ذاتی تعلقات کے نشے میں سرشار رہے‘ معیشت اور عوام کی بھلائی کیلئے کوئی بڑا فیصلہ نہ کرسکے اور فیصلے لئے بھی تو وہ جن کی وجہ سے پاکستان میں دہشت گردی کا طوفان اُمڈ آیا۔
ڈکٹیٹر اپنی حکومتوں کو جمہوریت کا جعلی لبادہ پہنانے کیلئے بے ضمیر اور کرپٹ سیاستدانوں کو ساتھ ملاتے ہیں۔ ان جیسے جوکروں کی وجہ سے ہی سیاست اور سیاستدان بدنام ہوتے ہیں۔ غیرملکی سازشیں تو پاکستان کیخلاف پہلے دن سے بھرپور طریقے سے جاری ہیں جبکہ اندرونی قوتیں جن میں اسٹیبلشمنٹ‘ عدلیہ‘ میڈیا اور سیاسی پارٹیاں غیرشعوری طور پر اس سازش کے معاون بن جاتے ہیں پہلے پاکستان میں بھٹو اور اینٹی بھٹو ووٹ تھا اب نواز اور اینٹی نواز ووٹ ہے جس کی بھی حکومت ہو اپوزیشن اسے گرانے میں لگ جاتی ہے۔ اپوزیشن تعمیری نہیں تخریبی ہے اور اس حد تک کہ اپنے مدمقابل کو غدار تک بنا دیا جاتا ہے۔ جب سے کامیاب نعرہ کرپشن کا ہے ایک دوسرے کا منہ کالا کیا جاتا ہے اور نقصان صرف پاکستان کا ہوتا ہے۔
پاکستان دشمن طاقتیں آج بھی کامیاب ہیں وہ چاہتی ہیں کہ پاکستان میں طاقتور سیاسی حکومتیں نہ بنیں‘ اگر بن جائیں تو انہیں کام نہ کرنے دیا جائے‘ وقت ضائع کیا جائے ان کیخلاف جلسے‘ جلوس‘ دھرنے اور لاک ڈائون کرایا جائے۔ انہیں یا تو ڈکٹیٹر سوٹ کرتے ہیں یا کمزور جوکر سیاستدانوں کی حکومتیں جو کوئی بڑی فیصلہ نہ کریں صرف حکومت کریں کام نہ کریں اور جو کام کرے اسے کسی نہ کسی طریقے سے فارغ کردیا جائے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38