مولانا فضل الرحمن نے قومی اسمبلی میں پاکستان کےلئے اسلام کو بنیاد قرار دیا۔ نجانے انہوں نے کیسے کہہ دیا کہ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ اور نوائے وقت نے اس کا خیرمقدم کیا ہے۔ اللہ حضرت مولانا کو ثابت قدم رہنے کی توفیق عطا کرے۔ میرے دل میں خوشی کی کیفیت نہیں ایک کپکپی طاری ہے۔ یہ تو طے ہے کہ وہ اسلام کے سیاسی طور پر حق میں ہیں۔ ان کی سیاست ہی اسلام کے نام چلتی ہے جبکہ انہوں نے اور ان کے والد محترم نے اسلام کےلئے کوئی عملی اقدام نہیں کیا۔ وہ صوبہ سرحد میں حکمرانی کرتے رہے۔ مگر سوائے اس کے کہ بسوں گاڑیوں میں گانے بجانے پر پابندی لگائی۔ انہوں نے اسمبلی میں بھی کوئی قانون تک پاس نہ کیا۔ مولانا فضل الرحمن کے والد مولانا مفتی محمود خود وزیراعلیٰ تھے اور پھر مولانا فضل الرحمن اکرم درانی کی شکل میں وزیراعلیٰ تھے۔ حضرت مولانا نے ایم ایم اے کے حوالے سے بھی کوئی ایسا اشارہ بھی نہ دیا کہ وہ اسلام کا عملی نفاذ چاہتے ہیں۔ ایم ایم اے تو اسٹیبلشمنٹ نے بنوائی تھی اور انہی کا کام کرتی رہی۔ صدر جنرل ضیاءنے جیسا اسلام لانے کی کوشش کی۔ اتنی کوشش بھی حضرت مولانا کی طرف سے نظر نہیں آتی۔ اسلام کا نام صرف نعرے کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا۔ ان کا مقصد اسلام آباد پہنچنا تھا اور وہ پہنچ گئے۔ مولانا نے ایم ایم اے کی طرف سے صدر جنرل مشرف کی حمایت کرائی اور اس کے بدلے میں اپوزیشن لیڈر بن گئے۔ فرینڈلی اپوزیشن کا آغاز ہوا۔ اس کا انجام نواز شریف کی فرینڈلی اپوزیشن کی صورت میں نہیں ہوا۔ اپوزیشن لیڈر چودھری نثار علی اب انٹرنیشنل ایجنسیوں کا آدمی ہے۔ اس کی بیوی امریکن ہے اور اس کے بچوں کے پاس امریکن نیشنلٹی ہے۔ پاکستان میں امریکن برانڈ جمہوریت چلے گی تو فرینڈلی اپوزیشن بھی چلے گی۔ اپنی باری کا انتظار نہیں ہو گا۔ حضرت مولانا بھی وزیراعظم بننے کے منتظر ہیں۔ صدر جنرل ایوب خان نے اپنے بھائی بہادر خان کو اپوزیشن لیڈر بنایا تھا۔ اس وقت بھی یہ فرینڈلی اپوزیشن تھی مگر بدنام نہ تھی۔
مفتی محمود کے بعد مولانا فضل الرحمن اسلام کے حق میں ہیں مگر اس اسلام کے حق میں نہیں ہیں۔ جس کے نام پر پاکستان بنایا گیا ہے۔ وہ پاکستان کے خلاف تھے۔ بلکہ مفتی صاحب کہتے تھے کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں۔ تو پھر پاکستان میں ممبر اسمبلی وزیراعلیٰ اور اپوزیشن لیڈر بن جانا کونسا گناہ ہے۔ اس گناہ کا بڑا ثواب مفتی صاحب اور حضرت مولانا کو ملا ہے۔ یہی حال اے این پی کا ہے۔ اس حوالے سے جمعیت العلمائے اسلام سابقہ جمعیت العلمائے ہند الگ ہیں۔ یہ نام جمعیت العلمائے پاکستان بھی ہو سکتا تھا۔ قیام پاکستان کے حامی سیاستدانوں نے یہ نام اپنی جماعت کےلئے پسند کیا۔ خان ولی خان نے اور اس سے زیادہ اسفند یار ولی نے پاکستان کی مخالفت کی اور پاکستان میں اقتدار کے مزے لوٹے۔ وہ آج بھی دل پر ہاتھ رکھ کر بتا دیں کہ وہ سچ مچ پاکستان کے حق میں ہیں۔ میں کسی پر غیرمحب الوطن کا الزام لگانے کے حق میں نہیں۔ اسفند یار ولی کے کہنے پر حاجی عدیل نے کہا تھا کہ اب پاکستان کو اسلامی جمہوریہ نہیں کہنا چاہئے۔ یہ سب اور ان کے جیسے لوگ بھارت کے حق میں زیادہ ہیں۔ انہیں وہ پاکستان چاہئے جو بھارت کو پسندیدہ ملک اور دوست ملک سمجھے۔ اسفند یار اپنے والد اور دادا سے آگے نکل گیا ہے۔ اس نے اٹھارویں ترمیم کے نتیجے میں صوبہ سرحد کا نام خیبر پختونخوا رکھوا لیا ہے۔ اس پر پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کے صدر اور سابق قائد نواز شریف نے بھی دستخط کئے ہیں۔ وہ مسلم لیگ کے صدر نہیں مسلم لیگ (ن) یعنی مسلم لیگ نواز شریف کے صدر ہیں۔ اپنے اپنے ناموں پر سیاسی جماعتوں بالخصوص مسلم لیگوں کے نام بہت نامناسب بلکہ ناجائز ہے۔ حضرت مولانا کی اسلامی جماعت جے یو آئی ف ہے۔ جمعیت العلمائے اسلام فضل الرحمن گروپ مولانا سمیع الحق کی جماعت بھی اپنا ایک مقام رکھتی ہے۔ وہ جے یو آئی ہے اور یہ جے یو آئی ف ہے۔
مولانا نے قومی اسمبلی میں پاکستان کےلئے اسلام کا ذکر کیا ہے۔ تو یہ نظریہ پاکستان کی حمایت ہے۔ جسے دو قومی نظریہ بھی کہتے ہیں۔ کیا ہندو اور مسلم دو قومیں نہ تھیں اس کے بغیر پاکستان نہیں بن سکتا تھا۔ دو قومی نظریے کے مخالف پاکستان بنانے کے حق میں نہ تھے اور اب بھی نہیں ہیں۔ اب نئے لوگ بھی نکل آئے ہیں۔ پہلے مسلمان تھے۔ اب سیکولر سامنے ہیں۔ انہوں نے سیکولرازم کے معانی بھی بگاڑ دیئے ہیں۔ مسلمان سے زیادہ کوئی سیکولر نہیں ہے۔ یہ منفی سوچ کے لوگ مسلمان اور سیکولر کو مقابل لے آئے ہیں۔ ان کا سیکولرازم اسلام دشمنی کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ن کے ایک رکن نے آواز لگائی۔
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
شاعر نے مثبت معنوں میں یہ بات کہی ہے مگر اب اُسے مولانا کے حوالے سے منفی معانی دیئے جارہے ہیں۔ لگتا ہے کہ یہ بھی حضرت مولانا کی کوئی چال ہے۔ جب قاضی حسین احمد نے حضرت مولانا کے ایم ایم اے کے حوالے سے لوگوں کی بیزاری کا ذکر کیا اور اسلام کےلئے واضح مﺅقف اختیار کرنے کی بات کی تو حضرت مولانا نے فرمایا۔ اسلام کےلئے ہمارے مدرسے کم نہیں ہیں۔ اسمبلی اور حکومت میں سیاست چلے گی۔ اسلام ہمارا سیاسی حربہ ہے۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ ہر سیاستدان کو اپنے لئے استعمال کر لیتی ہے کہ انہیں صرف اقتدار چاہئے مگر مذہبی سیاستدان زیادہ آسانی سے استعمال ہو جاتے ہیں۔
بہادر اور بے باک، شائستہ اور شگفتہ مزاج حافظ حسین احمد کے ساتھ حضرت مولانا کا انتقامی رویہ اچھا نہیں لگا۔ ایک مولوی ہو کر حافظ صاحب ایوانِ اسمبلی کو کشت زعفران بنائے رکھتے تھے۔
اصولی اختلاف پر حافظ صاحب کو جے یو آئی ف کی طرف سے ٹکٹ نہ دیا گیا۔ نئی جماعتوں نے حافظ صاحب کو ورغلانے کی کوشش کی مگر انہوں نے الیکشن ہی لڑنے سے انکار کر دیا۔
سیاست میں نجانے کتنی قسم کے اسلام کا نام لیا جاتا ہے۔ یہ معلوم نہیں کہ حضرت مولانا اصل میں کس اسلام کےلئے سیاست کرتے ہیں اور پاکستان کےلئے کونسے اسلام کی بات کر رہے ہیں۔ بہرحال ہم ان کے شکرگزار ہیں۔ اسلام اور عوام کے نام پر سیاستدانوں نے پاکستان میں کیا نہیں کیا۔ میرے قبیلے کے سردار منیر نیازی نے کہا ہے
شہر کو برباد کر کے رکھ دیا اُس نے منیر
شہر پر یہ ظلم میرے نام پر اس نے کیا
مفتی محمود کے بعد مولانا فضل الرحمن اسلام کے حق میں ہیں مگر اس اسلام کے حق میں نہیں ہیں۔ جس کے نام پر پاکستان بنایا گیا ہے۔ وہ پاکستان کے خلاف تھے۔ بلکہ مفتی صاحب کہتے تھے کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں۔ تو پھر پاکستان میں ممبر اسمبلی وزیراعلیٰ اور اپوزیشن لیڈر بن جانا کونسا گناہ ہے۔ اس گناہ کا بڑا ثواب مفتی صاحب اور حضرت مولانا کو ملا ہے۔ یہی حال اے این پی کا ہے۔ اس حوالے سے جمعیت العلمائے اسلام سابقہ جمعیت العلمائے ہند الگ ہیں۔ یہ نام جمعیت العلمائے پاکستان بھی ہو سکتا تھا۔ قیام پاکستان کے حامی سیاستدانوں نے یہ نام اپنی جماعت کےلئے پسند کیا۔ خان ولی خان نے اور اس سے زیادہ اسفند یار ولی نے پاکستان کی مخالفت کی اور پاکستان میں اقتدار کے مزے لوٹے۔ وہ آج بھی دل پر ہاتھ رکھ کر بتا دیں کہ وہ سچ مچ پاکستان کے حق میں ہیں۔ میں کسی پر غیرمحب الوطن کا الزام لگانے کے حق میں نہیں۔ اسفند یار ولی کے کہنے پر حاجی عدیل نے کہا تھا کہ اب پاکستان کو اسلامی جمہوریہ نہیں کہنا چاہئے۔ یہ سب اور ان کے جیسے لوگ بھارت کے حق میں زیادہ ہیں۔ انہیں وہ پاکستان چاہئے جو بھارت کو پسندیدہ ملک اور دوست ملک سمجھے۔ اسفند یار اپنے والد اور دادا سے آگے نکل گیا ہے۔ اس نے اٹھارویں ترمیم کے نتیجے میں صوبہ سرحد کا نام خیبر پختونخوا رکھوا لیا ہے۔ اس پر پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کے صدر اور سابق قائد نواز شریف نے بھی دستخط کئے ہیں۔ وہ مسلم لیگ کے صدر نہیں مسلم لیگ (ن) یعنی مسلم لیگ نواز شریف کے صدر ہیں۔ اپنے اپنے ناموں پر سیاسی جماعتوں بالخصوص مسلم لیگوں کے نام بہت نامناسب بلکہ ناجائز ہے۔ حضرت مولانا کی اسلامی جماعت جے یو آئی ف ہے۔ جمعیت العلمائے اسلام فضل الرحمن گروپ مولانا سمیع الحق کی جماعت بھی اپنا ایک مقام رکھتی ہے۔ وہ جے یو آئی ہے اور یہ جے یو آئی ف ہے۔
مولانا نے قومی اسمبلی میں پاکستان کےلئے اسلام کا ذکر کیا ہے۔ تو یہ نظریہ پاکستان کی حمایت ہے۔ جسے دو قومی نظریہ بھی کہتے ہیں۔ کیا ہندو اور مسلم دو قومیں نہ تھیں اس کے بغیر پاکستان نہیں بن سکتا تھا۔ دو قومی نظریے کے مخالف پاکستان بنانے کے حق میں نہ تھے اور اب بھی نہیں ہیں۔ اب نئے لوگ بھی نکل آئے ہیں۔ پہلے مسلمان تھے۔ اب سیکولر سامنے ہیں۔ انہوں نے سیکولرازم کے معانی بھی بگاڑ دیئے ہیں۔ مسلمان سے زیادہ کوئی سیکولر نہیں ہے۔ یہ منفی سوچ کے لوگ مسلمان اور سیکولر کو مقابل لے آئے ہیں۔ ان کا سیکولرازم اسلام دشمنی کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ن کے ایک رکن نے آواز لگائی۔
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
شاعر نے مثبت معنوں میں یہ بات کہی ہے مگر اب اُسے مولانا کے حوالے سے منفی معانی دیئے جارہے ہیں۔ لگتا ہے کہ یہ بھی حضرت مولانا کی کوئی چال ہے۔ جب قاضی حسین احمد نے حضرت مولانا کے ایم ایم اے کے حوالے سے لوگوں کی بیزاری کا ذکر کیا اور اسلام کےلئے واضح مﺅقف اختیار کرنے کی بات کی تو حضرت مولانا نے فرمایا۔ اسلام کےلئے ہمارے مدرسے کم نہیں ہیں۔ اسمبلی اور حکومت میں سیاست چلے گی۔ اسلام ہمارا سیاسی حربہ ہے۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ ہر سیاستدان کو اپنے لئے استعمال کر لیتی ہے کہ انہیں صرف اقتدار چاہئے مگر مذہبی سیاستدان زیادہ آسانی سے استعمال ہو جاتے ہیں۔
بہادر اور بے باک، شائستہ اور شگفتہ مزاج حافظ حسین احمد کے ساتھ حضرت مولانا کا انتقامی رویہ اچھا نہیں لگا۔ ایک مولوی ہو کر حافظ صاحب ایوانِ اسمبلی کو کشت زعفران بنائے رکھتے تھے۔
اصولی اختلاف پر حافظ صاحب کو جے یو آئی ف کی طرف سے ٹکٹ نہ دیا گیا۔ نئی جماعتوں نے حافظ صاحب کو ورغلانے کی کوشش کی مگر انہوں نے الیکشن ہی لڑنے سے انکار کر دیا۔
سیاست میں نجانے کتنی قسم کے اسلام کا نام لیا جاتا ہے۔ یہ معلوم نہیں کہ حضرت مولانا اصل میں کس اسلام کےلئے سیاست کرتے ہیں اور پاکستان کےلئے کونسے اسلام کی بات کر رہے ہیں۔ بہرحال ہم ان کے شکرگزار ہیں۔ اسلام اور عوام کے نام پر سیاستدانوں نے پاکستان میں کیا نہیں کیا۔ میرے قبیلے کے سردار منیر نیازی نے کہا ہے
شہر کو برباد کر کے رکھ دیا اُس نے منیر
شہر پر یہ ظلم میرے نام پر اس نے کیا