کوئٹہ/ مستونگ (امجد عزیز بھٹی سے+ ریڈیو نیوز/ وقت نیوز) مستونگ کے علاقے میں کوئٹہ سے ایران جانے والے زائرین پر بس سے اتار کر نامعلوم حملہ آوروں نے فائرنگ کر دی، 26جاں بحق اور 7زخمی ہو گئے، کئی نے بھاگ کر جان بچائی، عینی شاہدین اور بس ڈرائیور کے مطابق زائرین کو قطار میں کھڑے کرکے فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا، سانحہ مستونگ میں جاں بحق ہونے والوں کی میتیں لینے جانے والی گاڑی پر کوئٹہ کے علاقہ اختر آباد میں فائرنگ سے 3افراد جاں بحق ہو گئے۔ کالعدم لشکر جھنگوی نے دونوں واقعات کی ذمہ داری قبول کرلی۔ مشتعل افراد نے کوئٹہ میں احتجاجی مظاہرے کئے اور ٹائر جلاکر سڑکیں بلاک کر دیں اور حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ تحفظ عزا داری کونسل ہزارہ، ہزارہ ڈیمو کریٹک پارٹی اور مجلس وحدت مسلمین نے آج کوئٹہ میں مکمل شٹرڈاﺅن اور صوبے بھر میں 7روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔ صدر آصف زرداری، وزیراعظم یوسف گیلانی، گورنر بلوچستان، وزیراعلیٰ اسلم رئیسانی نے واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ اپنے علیحدہ علیحدہ بیان میں انہوں نے اسے بزدلانہ کارروائی قرار دیتے ہوئے متاثرہ خاندانوں سے ہمدردی کا اظہار کیا ہے اور سکیورٹی کے متعلقہ اداروں کو ہدایت جاری کی ہے کہ وہ واقعے میں ملوث افراد کو فوری نشاندہی کرکے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ تفصیلات کے مطابق منگل کی شام چار بجے کوئٹہ سے تفتان جانے والی بس جیسے ہی مستونگ کے علاقے غنجہ ڈھوری کے قریب پہنچی تو 2گاڑیوں میں سوار 8سے 10مسلح افراد نے بس کے سامنے گاڑیاں کھڑی کرکے مسافروں کو نیچے اتار کر ان پر اندھا دھند فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں 26زائرین موقع پر ہی جاں بحق جبکہ 6افرادشدید زخمی ہوگئے۔ مرنے والوں میں عبداللطیف، علی جان ، احمد، محمد جان ، محمد ایاز، محمد طاہر، نور محمد، احمد جان ، علی شاہ، محمد علی، محمد جان، غلام رضا ، احسن اللہ، صبیح اللہ، علی محمد ، محمد حکیم ، سید نعمت ، محسن علی ، علی محمد اور دیگر شامل ہیں ۔ اطلاع ملتے ہی فرنٹیر کور ، پولیس اور لیویز فورس کی بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی زخمیوں اور نعشوں کو ایمبولینس اور پرائیویٹ گاڑیوں میں بولان میڈیکل ہسپتال پہنچا دیا گیا۔ بولان میڈیکل ہسپتال اور سول ہسپتال کوئٹہ میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے ڈاکٹروں کو فوری طور پر ڈیوٹی پر طلب کرلیا گیا ۔ بس کے ڈرائیور خوشحال خان نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ بس میں 45مسافر سوار تھے جو کوئٹہ سے ایران جانا چاہتے تھے ۔ دو گاڑیوں میں سوار افراد نے گاڑیاں کوچ کے سامنے لاکر کھڑی کردیں اور مسافروں کو نیچے اتار کر فائرنگ کردی اور کچھ لوگوں نے بھاگ کر جان بچائی۔ ڈرائیور خوشحال خان نے بتایا کہ حملہ آوروں کی تعداد 8 سے 10تھی اور وہ فائرنگ کے بعد واپس کوئٹہ کی طرف فرار ہوگئے۔ انہوں نے بتایا کہ بس میں کوئی سکیورٹی گارڈ یا اسلحہ موجود نہیں تھا۔ نعشیں بولان ہسپتال پہنچنے پر مشتعل افراد نے ہنگامہ آرائی شروع کردی اور میڈیاکے نمائندوں کو بھی نعشوں اور زخمیوں کے قریب جانے سے روک دیا۔ منگل کو جس علاقے میں زائرین کی بس پرحملہ کیا گیا وزیراعلیٰ بلوچستان نواب محمد اسلم رئیسانی کا حلقہ انتخاب ہے۔ ہزارہ برادری کے مظاہرین نے مستونگ اور کوئٹہ کے واقعہ کے خلاف بروری روڈ، علمدار روڈ اور میزان چوک پر ٹائر جلاکر ہر قسم کی ٹریفک معطل کردی اور حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ صوبے میں دہشت گردن دندناتے پھررہے ہیں اور حکومتی رٹ کہیں بھی نظر نہیں آرہی ہے۔ حکومت اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے فوری طور پر مستعفی ہوجائے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ڈرائیور نے کہا کہ بس میں خواتین، بچے سوار نہیں تھے تمام حملہ آور جیپ میں سوار تھے۔ حملہ آوروں نے کلاشنکوفوں سے فائرنگ کی، حملہ آور کس زبان میں بات کر رہے تھے سن نہیں سکا۔ انتظامیہ ایک گھنٹے بعد پہنچی، حملہ آوروں نے 6سے 10منٹ تک فائرنگ کی۔ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی نے شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ واقعہ حکومتی ناکامی کا کھلا ثبوت ہے۔ لاہور سے خصوصی رپورٹر کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے مستونگ میں زائرین کی بس پر حملے کی شدید مذمت کی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے قیمتی جانی نقصان پر گہرے رنج اور دکھ کا اظہار کیا ہے۔ سیکرٹری داخلہ بلوچستان نے کہا ہے کہ زائرین کے ایران جانے کے متعلق انہیں آگاہ نہیں کیا گیا تھا، حالانکہ اس سلسلے میں ہوم ڈیپارٹمنٹ سے اجازت ضروری ہوتی ہے، زائرین کی ٹرانسپورٹ کو کسی بھی طرح بغیر سکیورٹی کے اجازت نہیں دی جائے گی۔ مانیٹرنگ ڈیسک کے مطابق مستونگ روڈ کوئٹہ سے 100کے قریب افغان باشندے گرفتار کر لئے گئے۔ منور حسن، فضل الرحمان، الطاف حسین، عمران خان، احسن رشید، محمود الرشید، لیاقت بلوچ نے بھی حملے کی مذمت کی ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38