مشتاق ریحان ( ڈیرہ اسماعیل خان خیبر پختونخواہ)
(آخری قسط)
سر دست اس بارے میں یہ ”معاہدہ آب 1991“خاموش ہے ۔کیونکہ یہ پانی اسے وفاقی پول سے دیا جانا ہے۔ جس کےلئے تاحال چاروں صوبوں نے اپنے حصے سے پانی دینے کا اعلان نہیںکیا ہے۔ اور یوں یہ معاملہ کا لا باغ ڈیم کی تعمیر اور اتفاق نہ ہونے کا سبب بنا ہوا ہے۔ جبکہ صوبہ سندھ کے اس پر اٹھائے جانے والے اعتراضات محض ثانوی نوعیت کے قرار پاتے ہیں۔ کیونکہ معاہدہ آب1991کی رو سے کالا باغ ڈیم سے صوبہ سندھ کوبائیس لاکھ ایکڑ فٹ پانی فراہم ہوگا۔ جبکہ پنجاب کوساڑھے چودہ لاکھ ایکڑ فٹ پانی ، صوبہ سرحد کو26لاکھ 90 ہزار ایکڑ پانی، جبکہ بلوچستان کو سترہ لاکھ ایکڑ پانی ملے گا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے ،کہ تاحال کوٹری ڈاﺅن اسٹریم کے ایک کروڑ ایکڑ فٹ پانی کا مسئلہ جوں کا توں بر قرار ہے ۔جو صوبہ سندھ کے اعتماد کو بحال کرنے میں رکاوٹ کا باعث بن رہا ہے ۔کیونکہ یہی پانی سندھ کے ساحلی علاقوں اور سیلابے کے علاقے پر ڈیم کے بننے سے مرتب ہونے والے اثرات کو ختم کرنے اور پائے جانے والے خدشات کے بارے خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اس سے ظاہر ہوتاہے کہ اس کی تعمیر پر جہاں صوبہ سندھ کو پائے جانے والے خدشات سمیت آئینی تحفظات درکار ہیں۔ تو وہیں اس کی تعمیر کے بارے میں حمایت حاصل کرنے اور اتفاق رائے کے عمل کو یقینی بنائے جانے کی غرض سے” فیڈریشن “بھی اس کی تعمیر میں تاخیر کی اصل ذمہ دار ہے ۔ کہ جس نے اپنی ایک اکائی کی اعتماد سازی کےلئے بنیادی اہمیت اور ضرورت کےلئے اب تک کوئی پیش رفت نہیں کی ہے ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ فیڈریشن ہی اس کی تعمیر میں تاخیر کی اصل ذمہ دار ہے کہ جس نے تاحال اپنے حصے کی ذمہ داری پوری کرنے کا احساس نہیں کیا ہے تاکہ ایک کروڑ ایکڑ فٹ پانی کا معاملہ حل ہو سکے۔ اورصوبوں کے درمیان اعتماد سازی کا ماحول پیدا ہو سکے۔ کالا باغ ڈیم کی تعمیر پر ایک یہ بھی خدشہ پایا جاتا ہے، کہ ڈیم میں پانی جمع کرنے سے دریائے سندھ کے پانی میں آنے والی زرخیر مٹی، ڈیم میں رک کر اس کی زرخیزی کو کم کرے گی۔ اور اس کے اثرات سندھ کی زمینوں پر پڑیں گے۔ اس پر ماہرین نے سندھ کے اس خدشے کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے، اس رائے کا اظہار کیا، کہ کالا باغ ڈیم میں سرے سے مٹی جمع ہی نہیں ہو سکے گی۔ اور وہ بدستور دریا کے پانی میں شامل ہو کر سندھ کے ساحلی علاقوں میں آتی رہے گی۔ جس سے نہ تو سندھ کی زرخیزی ختم ہوگی، اور نہ ہی ماحولیاتی تبدیلیاں رونما ہوسکیں گی۔
کالا باغ ڈیم پر صوبوں کے اعتراضات کے حوالے سے اس پر دو کمیٹیاں قائم کی گئیں۔ جن میں ایک کو” سیاسی کمیٹی“ جبکہ دوسری کو ”تکنیکی کمیٹی“ قرار دیا گیا۔ سیاسی کمیٹی کے سربراہ نثار میمن (سندھ) جبکہ اراکین میں انیسہ زیب طاہر خیلی (صوبہ سرحد پی پی پی)، شیر اکبر (صوبہ سرحد)، صوبہ پنجاب سے سید دلاو ر عباس ، جہانگیر خان ترین(مسلم لیگ ق)، نصیر مینگل سینیٹر (صوبہ بلوچستان)، سید عبد القادر گیلانی (صوبہ بلوچستان)، سینیٹر محمد علی ملکانی (صوبہ سندھ) شامل تھے ۔جبکہ تکنیکی کمیٹی میں 9، ماہرین شامل کئے گئے تھے۔ جن میں سے صوبہ سندھ کے حوالے سے3اراکین جبکہ باقی صوبوں سے دو ، دو افرا د کے رکن نامز د کئے گئے ۔ کمیٹی کا سربراہ انجینئر اے جی این قاضی(صوبہ سندھ) کو مقرر کیا گیا ۔ ان دونوں کمیٹیوں نے سالوں کی کوششوں کے بعد اس منصوبے پر اپنی رپورٹ میں اسے مسترد کرنے کی بجائے اس کی تعمیر پر اتفاق کیاتھا۔اور اس کی تعمیر کے با رے میںرائے دی ۔ اور اس طرح یہ منصو بہ ملک و قوم کے حق میں دو ررس اثرات کا حامل ترقیاتی منصوبہ قرار پایا ۔ اور اس پر صوبہ سندھ اور صوبہ خیبرپختونخواہ کے اعتراضات کو رد کرتے ہوئے انہیں تسلیم کرنے سے انکار کیاگیا۔ 2006ءمیں و فاقی کابینہ کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا، کہ 2016ءتک ملک میں5نئے آبی ذخائر تعمیر کئے جائیں گے ۔ جن میں بھاشا ، اکھوڑی، منڈا اور کالا باغ ، کرم تنگی ڈیم شامل ہیں۔ کابینہ کے فیصلے کے بعد کالا باغ ڈیم پر صوبہ خیبرپختونخواہ اور صوبہ سندھ کے پائے جانے والے خدشات کو دور کرنے کےلئے اس پر صوبوں میں اتفاق رائے پید ا کرنے کی غرض سے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی قائم کی گئی۔ جسکا آخری اجلا س جنوری2006ءمیں وفاقی سیکرٹری پانی و بجلی اشفاق محمود کی صدارت میں اسلام آباد میں منعقد ہوا ۔ اس اجلاس میں دونوں صوبوں نے کالا باغ ڈیم پر اپنا موقف پیش کیا۔ اور 19صفحات پر مبنی اعتراضی بیان پیش کیا۔ جس میںدریاﺅں میںپانی کی موجودگی سمیت بعض فنی اور اراضیاتی مسائل کے باے میں آگاہ کیا گیا۔ جس میں سر فہرست کوٹری ڈاﺅن اسٹریم سے پانی چھوڑنے اور سالانہ ایک کروڑ ایکڑ فٹ پانی کی عدم دستیابی کا ذکر کیا گیا ۔ واضح رہے کہ صوبہ سندھ کو اگر کالا باغ ڈیم پر کئے جانے والے اعتراضات اور خدشات کو زمینی حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے توا ن میں ذرا بھی سچائی اور صداقت نہیں پائی جائے گی۔ مستند عالمی ماہرین اس بارے میں اپنی رائے اور رپورٹیں پیش کر چکے ہیں۔ جنہیں حقائق کی روشنی میں رد کیا گیا ہے۔
صوبہ سندھ کو کالا باغ ڈیم پر ایک یہ بھی اعتراض ہے کہ اس میں پانی ذخیرہ کرنے سے صوبہ سندھ خشک اور غیر آباد ہو جائے گا۔ اور اس کی زمینیں بنجر ہو جائیں گی۔ دوسرا خدشہ وہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ سندھ کا پانی پنجاب استعمال کرے گا۔ جہاں تک پہلے اعتراض کا تعلق ہے تو واپڈا کے سابق چیئرمین شمس الملک کچھ یوںجواب دیتے ہو ئے اسے دور کرتے ہیں، کہ کالا باغ ڈیم میں دریائے سندھ کے بہاﺅ میں سے صرف6%پانی ذخیرہ کیا جائے گا۔ اور اس ڈیم سے صوبہ سندھ کو یہ فائدہ ہو گا کہ وہ دریائے جہلم کا جو پانی منگلا ڈیم بھرنے کےلئے استعمال ہوتا ہے وہ اسے ملے گا ۔اوروہ مٹی جو تربیلا ڈیم میں رک جاتی ہے اور جس وقت صوبہ سندھ کو گزرے سیزن کا کھڑا ہوا پانی فراہم کیا جاتا ہے اس پانی میں مٹی موجود نہ ہونے سے سندھ کی زرخیزی کو متاثر کرنے والے اس منفی عمل کو کالا باغ ڈیم سے ملنے والے پانی سے دور کیا جا سکے گا۔ کیونکہ کالاباغ ڈیم سے صوبہ سندھ کو سیزن کاتازہ پانی دستیاب ہو گا۔ او ر اس پانی میں مٹی شامل ہونے سے سندھ کی زمینوں پر گہرے مثبت اثرات مرتب ہوں گے ، اور ان کی پیداواری صلاحیت میں بھی اضافہ ہوگا۔اور اس ڈیم سے ملنے والے پانی سے سندھ کی زمینوں پر مرتب ہونے والے منفی اثرات بھی زائل ہو سکیں گے ۔جبکہ اسے دوسرا خدشہ یہ لاحق ہے کہ اسکا پانی پنجاب استعمال کرے گا۔ دراصل ماضی میں اُس ابتدائی واقعے کے باعث درپیش ہے ۔ورنہ اس پر صوبہ سندھ کے اعتراضات کی نوعیت اور اس بارے ظاہر کئے جانے والے خدشات محض منصوبے کے بارے میں منفی جذبات پیدا کرنے کی غرض سے پروپیگنڈہ کا حصہ ہیں۔ ورنہ اصل میں تو ان میں ذرا بھی صداقت نہیں پائی جاتی ہے ۔اس مقام پر اگر دریائے سندھ کے آبی وسائل اور ان کی تقسیم کا جائزہ لیا جائے، تو اس سے یہ حقیقت ابھر کر سامنے آئے گی، کہ ہر سال کوٹری ڈاﺅن اسٹریم سے نیچے سمندر میں تین کروڑ 52لاکھ ایکڑ فٹ پانی جا رہا ہے۔ اس میں سے 86لاکھ ایکڑ فٹ پانی دستیاب ہوگا۔تو دریائے کابل پر افغانستان کا حق استعمال 5لاکھ ایکڑ فٹ ہوگا۔ مغربی دریاﺅں پر سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت 20 لاکھ ایکڑ فٹ پانی استعمال کرےگا۔ اور منگلا ڈیم کے توسیعی منصوبے کے لئے29لاکھ ایکڑ فٹ پانی دستیاب ہوگا۔ اور نئے آبی ذخائر کےلئے ہمارے پاس دو کروڑ بیس لاکھ ایکڑ پانی اضافی دستیاب ہوگا۔ جس سے اس کی (یعنی صوبہ سندھ کی)آبپاشی کےلئے بائیس لاکھ ایکڑ فٹ پانی کالا باغ ڈیم سے دیا جائے گا۔ جوا س کی 18لاکھ ایکڑ اراضی کو پانی فراہم کرے گا۔ جبکہ ڈیم کی تعمیر کی صورت میں صوبہ سندھ ہی کےلئے حیدر آباد کے مقام سہون شریف پر ایک بیراج (سہون بیراج)تعمیر کیا جائے گا۔ جس سے دائیں بائیں نہریں نکالی جائیں گی ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ڈیم کی تعمیر سے صوبہ سندھ کو سب سے زیادہ فائدہ ہوگا۔
نیشنل ڈویلیپمنٹ کنسلٹنٹس کے ماہرین اس پر اپنی رائے کا اظہار کچھ یوں کرتے ہیں ،کہ 1997میں ایک برٹش اور دو پاکستانی مشاورتی فرموں نے ملکر ایک تحقیقی جائزہ لیا۔ جس کا مقصد کوٹری ڈاﺅن اسٹریم سے لیکر سمندر تک کا جو 174میل لمبا دریائی علاقہ ہے ۔اس پر کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ اس تحقیقی جائزے کے رپورٹ کے مطابق ماہرین نے سندھ کے ان خدشات اور تحفظات کے بارے میں اپنی رپورٹ دیتے ہوے واضح کیا ،کہ پہلی بات کا تعلق سمندر کے ساحلی علاقوں کے کٹاﺅکی حقیقت کو واضح کرتے ہوئے ان ماہرین نے اپنی رپورٹ میں کہا ،کہ سمندر کا پانی چونکہ بہت زیادہ نمکین ہوتا ہے۔ جو زمین میں رس کر اسے ناکارہ بنا دیتا ہے۔ جس کےلئے دریائے سندھ کا ایک کروڑ ایکڑ فٹ پانی ، کوٹری ڈاﺅن اسٹریم سے گرایا جانا ضروری ہے۔ تاکہ یہ سندھ کے ساحلی علاقوں کی زمین پر سمندر کے اثرات کو زائل کر سکے۔ مذکورہ رپورٹ اس حقیقت کوواضح کرتے ہوئے ثابت کر رہی ہے، جس میں کہا گیا ہے، کہ کوٹری ڈاﺅن اسٹریم سے سمندر تک زمین کا نیچے والا پانی کھاری ہے۔ جو آبپاشی اور پینے کے قابل نہیں۔ اس حقیقت کاحوالہ کوٹری ڈاﺅن اسٹریم پراجیکٹ کے پی سی ون پر وفارمہ میں بھی درج پایا جاتا ہے۔ جس کی وضاحت کرتے ہوئے یہ رپورٹ کہتی ہے، کہ کوٹری ڈاﺅن اسٹریم سے سمندر تک 174میل کے درمیان کوئی ٹیوب ویل نصب نہیں ہے۔ جبکہ دریائے سندھ کے اوپر والے حصے یعنی سکھر بیراج سے کوٹری بیراج تک 3700ٹیوب ویل کام کر رہے ہیں۔ جبکہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا، کہ دریا کے دونوں طرف بند بنے ہوئے ہیں۔ اور ان کے درمیان آبپاشی ہوتی ہے۔ وہ زیادہ تر دونوں بندوں سے باہر بہنے والی نہروں سے پمپ کر کے کی جاتی ہے ۔ اور اسوقت بھی ان نہروں پر 250پمپ لگے ہوئے ہیں۔ جبکہ تاریخی لحاظ سے کوٹری بیراج سے سمندر تک کا علاقہ پہلے سمندر تھا۔ اور اسے خشکی میں بدلے زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہے۔ دریائے سندھ اور اس کے 5معاون دریاﺅں کاتیرہ کروڑ تیس لاکھ ایکڑ فٹ پانی صدیوں بہتے رہنے کے باوجود اس کا زیر زمین پانی پینے کے قابل نہ ہو سکا۔ جبکہ آبپاشی کا جال بچھے جانے پر ایک کروڑ پانچ لاکھ ایکڑ فٹ پانی نہروں نے دریا سے نکال لیا۔ 3مشرقی دریاﺅں کاتین کروڑ 33لاکھ ایکڑ فٹ پانی ، ہندوستان نے لے لیا۔ اب اوسطاً ساڑھے تین کروڑ سے تین کروڑ 90 لاکھ ایکڑ فٹ پانی سمندر میں گر کر ضائع ہو جاتا ہے اور وہ بھی سیلابوں کے دوران باقی کے 6سے8ماہ کے دوران کوٹری ڈاﺅن اسٹریم سے آگے پانی جاتا ہی نہیں۔ سندھ کا زیر زمین پانی اب بھی ناقابل استعمال ہے ۔ اور کوٹری ڈاﺅن اسٹریم سے نیچے کے علاقوں میں انسان اور جاندار نے ماحولیات کی تبدیلی کے اثرات سے مطابقت پیدا کر لی ہے۔ اور اگر سیلاب کے دوران جو پانی سمندر میں گر جاتا ہے۔ اس میں سے کالا باغ ڈیم کےلئے درکار پانی کو ذخیرہ کر نے کے باوجود اس کا کوٹری ڈاﺅن اسٹریم کے ساحلی علاقوں پر ماحولیاتی اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔ جبکہ حکومت سندھ نے بھی اس حوالے سے ایک تحقیقی سروے کرایا تھا۔ وہ بھی یہی رپورٹ دے چکا ہے، کہ جواس ادارے کے ماہرین اپنی رپورٹ میں دے چکے تھے۔ کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے صوبہ سندھ کے ساحلی علاقوں پر اس کے کوئی منفی یا ماحولیاتی اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔ اور ڈیم سے چھوڑا جانے والا ایک کروڑ ایکڑ فٹ پانی اس عمل کو روکنے اور اس خدشے کو دور کرنے کےلئے اطمینا ن بخش حدتک ان خدشات کو دورکر نے کے لئے کافی ہوگا۔ اسطرح صوبہ سندھ کی زمینی اور ماحولیاتی اثرات سے متعلق خدشات کو ماہرین درست قرار نہ دیکر حقائق کو تسلیم کرنے سے انکار ہونے کے مصداق قرار دیتے ہیں۔ البتہ مینگرون کے جنگلات کی نشوو نما کے متعلق خدشات کو بھی ماہرین بے بنیاد قرار دیتے ہیں۔ مینگرون کے یہ جنگلات سندھ کے ساحلی علاقوں میں جنگلات کا قدرتی نظام ہے۔ جو مچھلیوں کی نشوونما کے علاوہ ساحلی علاقوں میں ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔اور ساحلی علاقوں میں سمندری کھارے پن کو کم کرتے ہیں۔ا ور سمندری طوفانوں کے دوران سمندری لہروں کی تندی اور رفتارکو بھی کنٹرول اوراس مےں رکاوٹ پیدا کرنے کا سبسب بنتے ہیں۔ یوں یہ ساحلی علاقوں میں حفاظتی دیوار کا فریضہ بھی انجام دیتے ہیں۔ یہ پودے 85000ہزارپی پی ایم تک کھارے پن کو برداشت کر لیتے ہیں۔ جبکہ سمندری پانی کا کھارا پن 35000ہزار پی پی ایم تک ہوتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مینگرون کے یہ جنگلات سندھ کے ساحلی علاقوں میں پانی کے کھارے پن اور ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ اس وقت ساحل سمندر کے ساتھ مینگرون جنگلات کا کل رقبہ تین لاکھ 21ہزار 510ایکڑ ہے۔ جو کراچی سے بھارتی سرحد تک ڈیلٹا کے علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میں سے دریائے سندھ کے ڈیلٹا میں صرف 4700ایکڑ رقبے پر محیط ہےں۔ جو کل مینگرون جنگلات کا2.3%بنتے ہیں۔ ماضی میں دریائے سندھ کا پانی کراچی سے بھارتی سرحد تک پھیل جاتا تھا۔پانی کے اس پھیلاﺅ کو روکنے کےلئے حکومت سندھ نے دریائے سندھ کے اطراف میں سیلابی بند بنا دیئے ہیں۔ جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ کراچی سے انڈس ڈیلٹیا تک اور انڈس ڈیلٹیا سے بھارتی سرحد تک تازہ پانی کی سپلائی کم ہوگئی۔ اور مینگرون کے ان جنگلات کی خاص نسل نے نشو و نما پائی۔ جس سے ظاہر ہو تا ہے کہ جب بند بنا دینے سے ان کی نشو ونما پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوئے تو کالا باغ ڈیم سے تو ان پر پڑنے والے اثرات کو اور بھی کم کیا جاسکے گا۔
اس مطالعاتی سروے میں مجوزہ منصوبے سے مرتب ہونے والے اثرا ت اور پلا مچھلی اور اس کی نشو و نما پر مرکوز رہی، کہ کالا باغ ڈیم سے پلا مچھلی کی افزائش رک جائے گی۔ اور اس کی نسل ختم ہو کر رہ جائے گی۔ جبکہ رپورٹ کے مطابق حقیقت یہ ہے کہ پلا مچھلی سمندر کے پانی کی طرف ہجرت کرنے والی مچھلی ہے ۔جو دریائے سندھ کے میٹھے پانی میں پرورش پاکر سمندر کی جا نب ہجرت کر جاتی ہے۔ پلا مچھلی دریائے سندھ سے اسوقت سمندر کی جانب ہجرت کرتی ہے، جب سیلاب کے آغاز میں دریائے سندھ کا پانی سمندر میں جانا شروع ہوتا ہے۔ اور دریا میں پانی کی گہرائی 5فٹ جبکہ اس کا اخراج 30ہزار کیوسک ہوتا ہے۔ پانی کی یہ گہرائی دریامیں پورے سیلاب کے دوران بر قرار رہتی ہے۔ اور اس مچھلی کی دریا سندھ سے سمندر کی جانب منتقلی میں کوٹری ڈاﺅن اسٹریم کا ڈیزائن ان کی منتقلی میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے۔ اور یہ کوٹری ڈاﺅن اسٹریم کے دوسری طرف بڑی تعداد میں پرورش پاتی رہتی ہے ۔ جو بڑی مقدار میں پکڑ لی جاتی ہے جس سے علاقے کے لوگوں کو روزگار کے مواقع کا باعث ہے۔
یہی رپورٹ اس بات کو اور بھی واضح کرتے ہوئے کہتی ہے کہ 1974ءسے اس مچھلی کی پیداوار میں اضافہ ہوتا آرہا ہے۔ اور کوٹری بیراج سے نیچے پانی کی کمی سے نہ اس کی افزائش پر کوئی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔اور نہ ہی ان کی نسل ختم ہو ئی ہے ۔ دوسری جانب مذکورہ رپورٹ آبی ذخائر کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے واضح کرتی ہیں کہ کوٹری بیراج سے نیچے دریا کے ساحلی جنگلات کا کل رقبہ ایک لاکھ چار ہزار 405ایکڑ ہے۔ اور پانچ لاکھ ایکڑ کیوسک پانی سے صرف45.7%رقبے کو پانی دستیاب ہوتاہے۔ اور وہ بھی 11سالوں میں صرف 5برسوں کے دوران کہ جب دریائے سندھ میں شدید طغیانی آئی ہوئی ہوتی ہے۔ دریاﺅں پر تعمیر کئے گئے بند کے اندر ، دریائی آبپاشی کل رقبہ95038ملین ایکڑ ہے۔ جس میں سےدو کروڑ 4لاکھ 51 ہزار ایکڑ رقبے کو پانی بند کے متوازی چلنے والی نہروں پر 250پمپ نصب کر کے سیراب کیا جاتا ہے ۔ واضح رہے کہ سندھ اس کو” سیلابے “کا علاقہ قرار دیتا ہے ۔ جس کے بارے ماہرین کہتے ہیں، کہ اگر کالا باغ ڈیم تعمیر کیا جاتا ہے تو سندھ کے اس ”سیلابے“ کے علاقے پر اس کے کوئی خاص اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔ اور اس کےلئے دریا کا بہاﺅ معمول پر برقرار رکھا جائے گا۔ اور اگر اس دوران دریائے سندھ میں پانی کی کمی اور بہاﺅ پر کوئی فرق مرتب ہوگا اسی وقت ڈیم کی جھیل سے بہاﺅ برقرار رکھنے کےلئے پانی چھوڑ دیا جائے گا۔ جبکہ زیر تعمیر بھاشا ڈیم میں بھی دریائے سندھ کے بہاﺅ اور پانی کی کمی کوپورا کرنے کیلئے 20%کے حساب سے پانی موجود ہوگا۔ مذکورہ رپورٹیں معاملے کی حقائق پر مبنی صورت حال کو واضح کرتی ہیں۔کہ اصل میں حقیقت کیا ہے ؟
اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ فیلڈ مارشل ایوب خان کے زمانے سے ملک کے اس قومی ترقیاتی منصوبے کوجسے1953ءمیں تعمیر کےلئے منتخب کیا گیا تھا ۔ 36برسوں میں اس پر جتنا تحقیقی کام ہوا ہے دنیا کے کسی اور آبی ذخیرے پر نہیں ہوا ہے۔ اربوں روپیہ کے اخراجات اس پر صرف کئے جا چکے ہیں ۔ اوراسی لیے اس کی تعمیر کو چھٹے پانچسالہ منصوبے میں شامل کیا گیا تھا۔ اور اس کی تعمیر کےلے سندھ سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے بھی تعمیر کا بیڑا اٹھاتے ہوئے صوبوں میں اتفاق رائے کےلئے کوششیں کیں۔ تاہم ان کی حکومت کی رخصتی کے بعد یہ منصوبہ بھی التواءکا شکار ہوگیا۔ جسے دوبارہ صدر جنرل ضیاءالحق مرحوم نے منظور کرتے ہوئے ،اس کی تعمیر کی ہدایات جاری کی تھیں۔ جو ان کے طیارے کے پر اسرار حادثے میں جاں بحق ہونے سے زندہ درگو ر ہوا۔ اسے تیسری بار وفاق کی علامت جماعت پی پی پی کی مقتول سربراہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے ملک وقوم کی ترقی اور فلاح و بہبود کے انقلابی منصوبے کے طور پر باقاعدہ تعمیر کےلئے منظور کرتے ہوئے اس کےلئے تعمیراتی اداروں سے پیشکشیں طلب کی تھیں ۔ حالانکہ انکا تعلق بھی صوبہ سندھ سے تھا۔ تاہم انہوں نے اسے ملک و قوم کے بہترین مفاد کا منصوبہ قرار دیکر صوبہ سندھ میں اسکے خلاف پائی جانے والی مخالفت اور خدشات کو بھی نظر اندا ز کر دیا تھا۔ جو ان کی 18ماہ کی حکومت کے رخصت ہونے سے سرد خانے کی نذر ہو گیا۔ جبکہ اسے چوتھی بار مسلم لیگ (ن)کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے سر د خانے سے نکال کر اس پر پائے جانے والے خدشات اور اٹھائے جانے والے اعتراضات پر صوبوں کے درمیان اتفاق رائے کی کوششیں کرتے رہے جو بڑی حد تک کامیابی سے ہمکنار ہوئیں ،کہ ان کے اقتدار سے علیحدہ ہو جانے پر اسے پھر سے تاریکیوں کے پردوں میں چھپا دیا گیا۔ جبکہ اسے پانچویں بارسابق صدر جنرل پرویز مشرف نے تاریکیوں سے نکال کر دوبارہ تعمیر کےلئے اپنی کو ششیں کیں جو ان کے 8سالہ اقتدا ر کے دو ر ان کسی حد تک کا میا ب ثابت ہو ئیں کہ جو ان کی اقتدار سے رخصتی کے بعد پھر سے سرد خا نے کی نظر ہو چلا ہے ۔
حالانکہ صوبہ سندھ میں اس منصوبے کو ، صوبہ پنجاب کے ماہرین کامنصوبہ قرار دیکر اس کی مخالفت کی جاتی ہے۔ جبکہ اس کی حقیقت کچھ یوں بنتی ہے کہ جب 1948میں بھارت نے پاکستان کے نہری پانی کو روک لیا تھا ۔جیسے حالات سے نمبٹنے کےلئے بڑی محنت اور عرق ریزی سے اسے تعمیر کےلئے منتخب کیا گیا تھا ۔اورجس قسم کے حالات حالیہ مہینوں میں پیش آئے ہیں کہ جب بھارت نے دریائے چناب کے پانی کو روک کر، اس جیسے واقعے کو دہرانے کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ اس وقت صوبہ پنجاب کے ماہرین کو ایک سنہرا موقع اس کی تعمیر کےلئے ملا ، پر انہوں نے اس تاریخی مو ڑ پر ملک وقوم کے وسیع تر مفاد میں پاکستان کے خلاف ہونے والی ایک عالمی سازش کو ناکام بناتے ہوئے اس کو تعمیر کرنے سے قبل تربیلا ڈیم بنائے جانے میں اہم کرادر ادا کیا۔ اگر اسوقت صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے یہ ماہرین اور بیوروکریٹس ملکی و قومی مفاد کو صوبائی مفادات پر ترجیح دیتے توشایدکالا باغ ڈیم تربیلا ڈیم سے قبل ہی 1974میں تعمیر ہو کر مکمل ہو جا تاہے۔
اب ان حالات میں کہ جب پاکستان کے توانائی اور آبی وسائل میں کمی واقع ہونے لگی ہے ۔ اور تربیلا ڈیم میں جمع ہونے والی ” گاد“ سے خطرناک صورتحال درپیش ہے۔ تو ان حالات کے باوجودکیا اس کی تعمیر سرد خانے کی نذر رہے گی کیا اس پر خلاف حقیقت اٹھائے جانے والے اعتراضات اور ظاہر کئے جانے والے خدشات زمینی حقائق کے خلاف نہیں ہیں ؟کہ جنہیں تسلیم نہ کر کے ملک و قوم کو مشکلات اور مسائل کا شکار بنایا جا رہا ہے ۔ اب ان حالات میں کہ جب پاکستان کے آبی وسائل ممکنہ خطرات سے دوچار ہو چکے ہیں ،اور ان آبی وسائل کی بقا ءاور تحفظ کیلئے اس کی تعمیر پر کب جا کر ”اتفاق رائے“ہوگا۔ اور اس کی تعمیر کب جا کر شرع ہو گی ؟یہ وہ سوالات ہیں کہ جو سردست عام پاکستانیوں کے ذہنوں میں پائے جا رہے ہیں ۔
(نوٹ: اس مضمون کی تین قسطیں ادارتی صفحہ پر شائع ہو چکی ہیں)
(آخری قسط)
سر دست اس بارے میں یہ ”معاہدہ آب 1991“خاموش ہے ۔کیونکہ یہ پانی اسے وفاقی پول سے دیا جانا ہے۔ جس کےلئے تاحال چاروں صوبوں نے اپنے حصے سے پانی دینے کا اعلان نہیںکیا ہے۔ اور یوں یہ معاملہ کا لا باغ ڈیم کی تعمیر اور اتفاق نہ ہونے کا سبب بنا ہوا ہے۔ جبکہ صوبہ سندھ کے اس پر اٹھائے جانے والے اعتراضات محض ثانوی نوعیت کے قرار پاتے ہیں۔ کیونکہ معاہدہ آب1991کی رو سے کالا باغ ڈیم سے صوبہ سندھ کوبائیس لاکھ ایکڑ فٹ پانی فراہم ہوگا۔ جبکہ پنجاب کوساڑھے چودہ لاکھ ایکڑ فٹ پانی ، صوبہ سرحد کو26لاکھ 90 ہزار ایکڑ پانی، جبکہ بلوچستان کو سترہ لاکھ ایکڑ پانی ملے گا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے ،کہ تاحال کوٹری ڈاﺅن اسٹریم کے ایک کروڑ ایکڑ فٹ پانی کا مسئلہ جوں کا توں بر قرار ہے ۔جو صوبہ سندھ کے اعتماد کو بحال کرنے میں رکاوٹ کا باعث بن رہا ہے ۔کیونکہ یہی پانی سندھ کے ساحلی علاقوں اور سیلابے کے علاقے پر ڈیم کے بننے سے مرتب ہونے والے اثرات کو ختم کرنے اور پائے جانے والے خدشات کے بارے خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اس سے ظاہر ہوتاہے کہ اس کی تعمیر پر جہاں صوبہ سندھ کو پائے جانے والے خدشات سمیت آئینی تحفظات درکار ہیں۔ تو وہیں اس کی تعمیر کے بارے میں حمایت حاصل کرنے اور اتفاق رائے کے عمل کو یقینی بنائے جانے کی غرض سے” فیڈریشن “بھی اس کی تعمیر میں تاخیر کی اصل ذمہ دار ہے ۔ کہ جس نے اپنی ایک اکائی کی اعتماد سازی کےلئے بنیادی اہمیت اور ضرورت کےلئے اب تک کوئی پیش رفت نہیں کی ہے ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ فیڈریشن ہی اس کی تعمیر میں تاخیر کی اصل ذمہ دار ہے کہ جس نے تاحال اپنے حصے کی ذمہ داری پوری کرنے کا احساس نہیں کیا ہے تاکہ ایک کروڑ ایکڑ فٹ پانی کا معاملہ حل ہو سکے۔ اورصوبوں کے درمیان اعتماد سازی کا ماحول پیدا ہو سکے۔ کالا باغ ڈیم کی تعمیر پر ایک یہ بھی خدشہ پایا جاتا ہے، کہ ڈیم میں پانی جمع کرنے سے دریائے سندھ کے پانی میں آنے والی زرخیر مٹی، ڈیم میں رک کر اس کی زرخیزی کو کم کرے گی۔ اور اس کے اثرات سندھ کی زمینوں پر پڑیں گے۔ اس پر ماہرین نے سندھ کے اس خدشے کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے، اس رائے کا اظہار کیا، کہ کالا باغ ڈیم میں سرے سے مٹی جمع ہی نہیں ہو سکے گی۔ اور وہ بدستور دریا کے پانی میں شامل ہو کر سندھ کے ساحلی علاقوں میں آتی رہے گی۔ جس سے نہ تو سندھ کی زرخیزی ختم ہوگی، اور نہ ہی ماحولیاتی تبدیلیاں رونما ہوسکیں گی۔
کالا باغ ڈیم پر صوبوں کے اعتراضات کے حوالے سے اس پر دو کمیٹیاں قائم کی گئیں۔ جن میں ایک کو” سیاسی کمیٹی“ جبکہ دوسری کو ”تکنیکی کمیٹی“ قرار دیا گیا۔ سیاسی کمیٹی کے سربراہ نثار میمن (سندھ) جبکہ اراکین میں انیسہ زیب طاہر خیلی (صوبہ سرحد پی پی پی)، شیر اکبر (صوبہ سرحد)، صوبہ پنجاب سے سید دلاو ر عباس ، جہانگیر خان ترین(مسلم لیگ ق)، نصیر مینگل سینیٹر (صوبہ بلوچستان)، سید عبد القادر گیلانی (صوبہ بلوچستان)، سینیٹر محمد علی ملکانی (صوبہ سندھ) شامل تھے ۔جبکہ تکنیکی کمیٹی میں 9، ماہرین شامل کئے گئے تھے۔ جن میں سے صوبہ سندھ کے حوالے سے3اراکین جبکہ باقی صوبوں سے دو ، دو افرا د کے رکن نامز د کئے گئے ۔ کمیٹی کا سربراہ انجینئر اے جی این قاضی(صوبہ سندھ) کو مقرر کیا گیا ۔ ان دونوں کمیٹیوں نے سالوں کی کوششوں کے بعد اس منصوبے پر اپنی رپورٹ میں اسے مسترد کرنے کی بجائے اس کی تعمیر پر اتفاق کیاتھا۔اور اس کی تعمیر کے با رے میںرائے دی ۔ اور اس طرح یہ منصو بہ ملک و قوم کے حق میں دو ررس اثرات کا حامل ترقیاتی منصوبہ قرار پایا ۔ اور اس پر صوبہ سندھ اور صوبہ خیبرپختونخواہ کے اعتراضات کو رد کرتے ہوئے انہیں تسلیم کرنے سے انکار کیاگیا۔ 2006ءمیں و فاقی کابینہ کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا، کہ 2016ءتک ملک میں5نئے آبی ذخائر تعمیر کئے جائیں گے ۔ جن میں بھاشا ، اکھوڑی، منڈا اور کالا باغ ، کرم تنگی ڈیم شامل ہیں۔ کابینہ کے فیصلے کے بعد کالا باغ ڈیم پر صوبہ خیبرپختونخواہ اور صوبہ سندھ کے پائے جانے والے خدشات کو دور کرنے کےلئے اس پر صوبوں میں اتفاق رائے پید ا کرنے کی غرض سے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی قائم کی گئی۔ جسکا آخری اجلا س جنوری2006ءمیں وفاقی سیکرٹری پانی و بجلی اشفاق محمود کی صدارت میں اسلام آباد میں منعقد ہوا ۔ اس اجلاس میں دونوں صوبوں نے کالا باغ ڈیم پر اپنا موقف پیش کیا۔ اور 19صفحات پر مبنی اعتراضی بیان پیش کیا۔ جس میںدریاﺅں میںپانی کی موجودگی سمیت بعض فنی اور اراضیاتی مسائل کے باے میں آگاہ کیا گیا۔ جس میں سر فہرست کوٹری ڈاﺅن اسٹریم سے پانی چھوڑنے اور سالانہ ایک کروڑ ایکڑ فٹ پانی کی عدم دستیابی کا ذکر کیا گیا ۔ واضح رہے کہ صوبہ سندھ کو اگر کالا باغ ڈیم پر کئے جانے والے اعتراضات اور خدشات کو زمینی حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے توا ن میں ذرا بھی سچائی اور صداقت نہیں پائی جائے گی۔ مستند عالمی ماہرین اس بارے میں اپنی رائے اور رپورٹیں پیش کر چکے ہیں۔ جنہیں حقائق کی روشنی میں رد کیا گیا ہے۔
صوبہ سندھ کو کالا باغ ڈیم پر ایک یہ بھی اعتراض ہے کہ اس میں پانی ذخیرہ کرنے سے صوبہ سندھ خشک اور غیر آباد ہو جائے گا۔ اور اس کی زمینیں بنجر ہو جائیں گی۔ دوسرا خدشہ وہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ سندھ کا پانی پنجاب استعمال کرے گا۔ جہاں تک پہلے اعتراض کا تعلق ہے تو واپڈا کے سابق چیئرمین شمس الملک کچھ یوںجواب دیتے ہو ئے اسے دور کرتے ہیں، کہ کالا باغ ڈیم میں دریائے سندھ کے بہاﺅ میں سے صرف6%پانی ذخیرہ کیا جائے گا۔ اور اس ڈیم سے صوبہ سندھ کو یہ فائدہ ہو گا کہ وہ دریائے جہلم کا جو پانی منگلا ڈیم بھرنے کےلئے استعمال ہوتا ہے وہ اسے ملے گا ۔اوروہ مٹی جو تربیلا ڈیم میں رک جاتی ہے اور جس وقت صوبہ سندھ کو گزرے سیزن کا کھڑا ہوا پانی فراہم کیا جاتا ہے اس پانی میں مٹی موجود نہ ہونے سے سندھ کی زرخیزی کو متاثر کرنے والے اس منفی عمل کو کالا باغ ڈیم سے ملنے والے پانی سے دور کیا جا سکے گا۔ کیونکہ کالاباغ ڈیم سے صوبہ سندھ کو سیزن کاتازہ پانی دستیاب ہو گا۔ او ر اس پانی میں مٹی شامل ہونے سے سندھ کی زمینوں پر گہرے مثبت اثرات مرتب ہوں گے ، اور ان کی پیداواری صلاحیت میں بھی اضافہ ہوگا۔اور اس ڈیم سے ملنے والے پانی سے سندھ کی زمینوں پر مرتب ہونے والے منفی اثرات بھی زائل ہو سکیں گے ۔جبکہ اسے دوسرا خدشہ یہ لاحق ہے کہ اسکا پانی پنجاب استعمال کرے گا۔ دراصل ماضی میں اُس ابتدائی واقعے کے باعث درپیش ہے ۔ورنہ اس پر صوبہ سندھ کے اعتراضات کی نوعیت اور اس بارے ظاہر کئے جانے والے خدشات محض منصوبے کے بارے میں منفی جذبات پیدا کرنے کی غرض سے پروپیگنڈہ کا حصہ ہیں۔ ورنہ اصل میں تو ان میں ذرا بھی صداقت نہیں پائی جاتی ہے ۔اس مقام پر اگر دریائے سندھ کے آبی وسائل اور ان کی تقسیم کا جائزہ لیا جائے، تو اس سے یہ حقیقت ابھر کر سامنے آئے گی، کہ ہر سال کوٹری ڈاﺅن اسٹریم سے نیچے سمندر میں تین کروڑ 52لاکھ ایکڑ فٹ پانی جا رہا ہے۔ اس میں سے 86لاکھ ایکڑ فٹ پانی دستیاب ہوگا۔تو دریائے کابل پر افغانستان کا حق استعمال 5لاکھ ایکڑ فٹ ہوگا۔ مغربی دریاﺅں پر سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت 20 لاکھ ایکڑ فٹ پانی استعمال کرےگا۔ اور منگلا ڈیم کے توسیعی منصوبے کے لئے29لاکھ ایکڑ فٹ پانی دستیاب ہوگا۔ اور نئے آبی ذخائر کےلئے ہمارے پاس دو کروڑ بیس لاکھ ایکڑ پانی اضافی دستیاب ہوگا۔ جس سے اس کی (یعنی صوبہ سندھ کی)آبپاشی کےلئے بائیس لاکھ ایکڑ فٹ پانی کالا باغ ڈیم سے دیا جائے گا۔ جوا س کی 18لاکھ ایکڑ اراضی کو پانی فراہم کرے گا۔ جبکہ ڈیم کی تعمیر کی صورت میں صوبہ سندھ ہی کےلئے حیدر آباد کے مقام سہون شریف پر ایک بیراج (سہون بیراج)تعمیر کیا جائے گا۔ جس سے دائیں بائیں نہریں نکالی جائیں گی ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ڈیم کی تعمیر سے صوبہ سندھ کو سب سے زیادہ فائدہ ہوگا۔
نیشنل ڈویلیپمنٹ کنسلٹنٹس کے ماہرین اس پر اپنی رائے کا اظہار کچھ یوں کرتے ہیں ،کہ 1997میں ایک برٹش اور دو پاکستانی مشاورتی فرموں نے ملکر ایک تحقیقی جائزہ لیا۔ جس کا مقصد کوٹری ڈاﺅن اسٹریم سے لیکر سمندر تک کا جو 174میل لمبا دریائی علاقہ ہے ۔اس پر کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ اس تحقیقی جائزے کے رپورٹ کے مطابق ماہرین نے سندھ کے ان خدشات اور تحفظات کے بارے میں اپنی رپورٹ دیتے ہوے واضح کیا ،کہ پہلی بات کا تعلق سمندر کے ساحلی علاقوں کے کٹاﺅکی حقیقت کو واضح کرتے ہوئے ان ماہرین نے اپنی رپورٹ میں کہا ،کہ سمندر کا پانی چونکہ بہت زیادہ نمکین ہوتا ہے۔ جو زمین میں رس کر اسے ناکارہ بنا دیتا ہے۔ جس کےلئے دریائے سندھ کا ایک کروڑ ایکڑ فٹ پانی ، کوٹری ڈاﺅن اسٹریم سے گرایا جانا ضروری ہے۔ تاکہ یہ سندھ کے ساحلی علاقوں کی زمین پر سمندر کے اثرات کو زائل کر سکے۔ مذکورہ رپورٹ اس حقیقت کوواضح کرتے ہوئے ثابت کر رہی ہے، جس میں کہا گیا ہے، کہ کوٹری ڈاﺅن اسٹریم سے سمندر تک زمین کا نیچے والا پانی کھاری ہے۔ جو آبپاشی اور پینے کے قابل نہیں۔ اس حقیقت کاحوالہ کوٹری ڈاﺅن اسٹریم پراجیکٹ کے پی سی ون پر وفارمہ میں بھی درج پایا جاتا ہے۔ جس کی وضاحت کرتے ہوئے یہ رپورٹ کہتی ہے، کہ کوٹری ڈاﺅن اسٹریم سے سمندر تک 174میل کے درمیان کوئی ٹیوب ویل نصب نہیں ہے۔ جبکہ دریائے سندھ کے اوپر والے حصے یعنی سکھر بیراج سے کوٹری بیراج تک 3700ٹیوب ویل کام کر رہے ہیں۔ جبکہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا، کہ دریا کے دونوں طرف بند بنے ہوئے ہیں۔ اور ان کے درمیان آبپاشی ہوتی ہے۔ وہ زیادہ تر دونوں بندوں سے باہر بہنے والی نہروں سے پمپ کر کے کی جاتی ہے ۔ اور اسوقت بھی ان نہروں پر 250پمپ لگے ہوئے ہیں۔ جبکہ تاریخی لحاظ سے کوٹری بیراج سے سمندر تک کا علاقہ پہلے سمندر تھا۔ اور اسے خشکی میں بدلے زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہے۔ دریائے سندھ اور اس کے 5معاون دریاﺅں کاتیرہ کروڑ تیس لاکھ ایکڑ فٹ پانی صدیوں بہتے رہنے کے باوجود اس کا زیر زمین پانی پینے کے قابل نہ ہو سکا۔ جبکہ آبپاشی کا جال بچھے جانے پر ایک کروڑ پانچ لاکھ ایکڑ فٹ پانی نہروں نے دریا سے نکال لیا۔ 3مشرقی دریاﺅں کاتین کروڑ 33لاکھ ایکڑ فٹ پانی ، ہندوستان نے لے لیا۔ اب اوسطاً ساڑھے تین کروڑ سے تین کروڑ 90 لاکھ ایکڑ فٹ پانی سمندر میں گر کر ضائع ہو جاتا ہے اور وہ بھی سیلابوں کے دوران باقی کے 6سے8ماہ کے دوران کوٹری ڈاﺅن اسٹریم سے آگے پانی جاتا ہی نہیں۔ سندھ کا زیر زمین پانی اب بھی ناقابل استعمال ہے ۔ اور کوٹری ڈاﺅن اسٹریم سے نیچے کے علاقوں میں انسان اور جاندار نے ماحولیات کی تبدیلی کے اثرات سے مطابقت پیدا کر لی ہے۔ اور اگر سیلاب کے دوران جو پانی سمندر میں گر جاتا ہے۔ اس میں سے کالا باغ ڈیم کےلئے درکار پانی کو ذخیرہ کر نے کے باوجود اس کا کوٹری ڈاﺅن اسٹریم کے ساحلی علاقوں پر ماحولیاتی اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔ جبکہ حکومت سندھ نے بھی اس حوالے سے ایک تحقیقی سروے کرایا تھا۔ وہ بھی یہی رپورٹ دے چکا ہے، کہ جواس ادارے کے ماہرین اپنی رپورٹ میں دے چکے تھے۔ کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے صوبہ سندھ کے ساحلی علاقوں پر اس کے کوئی منفی یا ماحولیاتی اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔ اور ڈیم سے چھوڑا جانے والا ایک کروڑ ایکڑ فٹ پانی اس عمل کو روکنے اور اس خدشے کو دور کرنے کےلئے اطمینا ن بخش حدتک ان خدشات کو دورکر نے کے لئے کافی ہوگا۔ اسطرح صوبہ سندھ کی زمینی اور ماحولیاتی اثرات سے متعلق خدشات کو ماہرین درست قرار نہ دیکر حقائق کو تسلیم کرنے سے انکار ہونے کے مصداق قرار دیتے ہیں۔ البتہ مینگرون کے جنگلات کی نشوو نما کے متعلق خدشات کو بھی ماہرین بے بنیاد قرار دیتے ہیں۔ مینگرون کے یہ جنگلات سندھ کے ساحلی علاقوں میں جنگلات کا قدرتی نظام ہے۔ جو مچھلیوں کی نشوونما کے علاوہ ساحلی علاقوں میں ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔اور ساحلی علاقوں میں سمندری کھارے پن کو کم کرتے ہیں۔ا ور سمندری طوفانوں کے دوران سمندری لہروں کی تندی اور رفتارکو بھی کنٹرول اوراس مےں رکاوٹ پیدا کرنے کا سبسب بنتے ہیں۔ یوں یہ ساحلی علاقوں میں حفاظتی دیوار کا فریضہ بھی انجام دیتے ہیں۔ یہ پودے 85000ہزارپی پی ایم تک کھارے پن کو برداشت کر لیتے ہیں۔ جبکہ سمندری پانی کا کھارا پن 35000ہزار پی پی ایم تک ہوتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مینگرون کے یہ جنگلات سندھ کے ساحلی علاقوں میں پانی کے کھارے پن اور ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ اس وقت ساحل سمندر کے ساتھ مینگرون جنگلات کا کل رقبہ تین لاکھ 21ہزار 510ایکڑ ہے۔ جو کراچی سے بھارتی سرحد تک ڈیلٹا کے علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میں سے دریائے سندھ کے ڈیلٹا میں صرف 4700ایکڑ رقبے پر محیط ہےں۔ جو کل مینگرون جنگلات کا2.3%بنتے ہیں۔ ماضی میں دریائے سندھ کا پانی کراچی سے بھارتی سرحد تک پھیل جاتا تھا۔پانی کے اس پھیلاﺅ کو روکنے کےلئے حکومت سندھ نے دریائے سندھ کے اطراف میں سیلابی بند بنا دیئے ہیں۔ جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ کراچی سے انڈس ڈیلٹیا تک اور انڈس ڈیلٹیا سے بھارتی سرحد تک تازہ پانی کی سپلائی کم ہوگئی۔ اور مینگرون کے ان جنگلات کی خاص نسل نے نشو و نما پائی۔ جس سے ظاہر ہو تا ہے کہ جب بند بنا دینے سے ان کی نشو ونما پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوئے تو کالا باغ ڈیم سے تو ان پر پڑنے والے اثرات کو اور بھی کم کیا جاسکے گا۔
اس مطالعاتی سروے میں مجوزہ منصوبے سے مرتب ہونے والے اثرا ت اور پلا مچھلی اور اس کی نشو و نما پر مرکوز رہی، کہ کالا باغ ڈیم سے پلا مچھلی کی افزائش رک جائے گی۔ اور اس کی نسل ختم ہو کر رہ جائے گی۔ جبکہ رپورٹ کے مطابق حقیقت یہ ہے کہ پلا مچھلی سمندر کے پانی کی طرف ہجرت کرنے والی مچھلی ہے ۔جو دریائے سندھ کے میٹھے پانی میں پرورش پاکر سمندر کی جا نب ہجرت کر جاتی ہے۔ پلا مچھلی دریائے سندھ سے اسوقت سمندر کی جانب ہجرت کرتی ہے، جب سیلاب کے آغاز میں دریائے سندھ کا پانی سمندر میں جانا شروع ہوتا ہے۔ اور دریا میں پانی کی گہرائی 5فٹ جبکہ اس کا اخراج 30ہزار کیوسک ہوتا ہے۔ پانی کی یہ گہرائی دریامیں پورے سیلاب کے دوران بر قرار رہتی ہے۔ اور اس مچھلی کی دریا سندھ سے سمندر کی جانب منتقلی میں کوٹری ڈاﺅن اسٹریم کا ڈیزائن ان کی منتقلی میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے۔ اور یہ کوٹری ڈاﺅن اسٹریم کے دوسری طرف بڑی تعداد میں پرورش پاتی رہتی ہے ۔ جو بڑی مقدار میں پکڑ لی جاتی ہے جس سے علاقے کے لوگوں کو روزگار کے مواقع کا باعث ہے۔
یہی رپورٹ اس بات کو اور بھی واضح کرتے ہوئے کہتی ہے کہ 1974ءسے اس مچھلی کی پیداوار میں اضافہ ہوتا آرہا ہے۔ اور کوٹری بیراج سے نیچے پانی کی کمی سے نہ اس کی افزائش پر کوئی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔اور نہ ہی ان کی نسل ختم ہو ئی ہے ۔ دوسری جانب مذکورہ رپورٹ آبی ذخائر کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے واضح کرتی ہیں کہ کوٹری بیراج سے نیچے دریا کے ساحلی جنگلات کا کل رقبہ ایک لاکھ چار ہزار 405ایکڑ ہے۔ اور پانچ لاکھ ایکڑ کیوسک پانی سے صرف45.7%رقبے کو پانی دستیاب ہوتاہے۔ اور وہ بھی 11سالوں میں صرف 5برسوں کے دوران کہ جب دریائے سندھ میں شدید طغیانی آئی ہوئی ہوتی ہے۔ دریاﺅں پر تعمیر کئے گئے بند کے اندر ، دریائی آبپاشی کل رقبہ95038ملین ایکڑ ہے۔ جس میں سےدو کروڑ 4لاکھ 51 ہزار ایکڑ رقبے کو پانی بند کے متوازی چلنے والی نہروں پر 250پمپ نصب کر کے سیراب کیا جاتا ہے ۔ واضح رہے کہ سندھ اس کو” سیلابے “کا علاقہ قرار دیتا ہے ۔ جس کے بارے ماہرین کہتے ہیں، کہ اگر کالا باغ ڈیم تعمیر کیا جاتا ہے تو سندھ کے اس ”سیلابے“ کے علاقے پر اس کے کوئی خاص اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔ اور اس کےلئے دریا کا بہاﺅ معمول پر برقرار رکھا جائے گا۔ اور اگر اس دوران دریائے سندھ میں پانی کی کمی اور بہاﺅ پر کوئی فرق مرتب ہوگا اسی وقت ڈیم کی جھیل سے بہاﺅ برقرار رکھنے کےلئے پانی چھوڑ دیا جائے گا۔ جبکہ زیر تعمیر بھاشا ڈیم میں بھی دریائے سندھ کے بہاﺅ اور پانی کی کمی کوپورا کرنے کیلئے 20%کے حساب سے پانی موجود ہوگا۔ مذکورہ رپورٹیں معاملے کی حقائق پر مبنی صورت حال کو واضح کرتی ہیں۔کہ اصل میں حقیقت کیا ہے ؟
اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ فیلڈ مارشل ایوب خان کے زمانے سے ملک کے اس قومی ترقیاتی منصوبے کوجسے1953ءمیں تعمیر کےلئے منتخب کیا گیا تھا ۔ 36برسوں میں اس پر جتنا تحقیقی کام ہوا ہے دنیا کے کسی اور آبی ذخیرے پر نہیں ہوا ہے۔ اربوں روپیہ کے اخراجات اس پر صرف کئے جا چکے ہیں ۔ اوراسی لیے اس کی تعمیر کو چھٹے پانچسالہ منصوبے میں شامل کیا گیا تھا۔ اور اس کی تعمیر کےلے سندھ سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے بھی تعمیر کا بیڑا اٹھاتے ہوئے صوبوں میں اتفاق رائے کےلئے کوششیں کیں۔ تاہم ان کی حکومت کی رخصتی کے بعد یہ منصوبہ بھی التواءکا شکار ہوگیا۔ جسے دوبارہ صدر جنرل ضیاءالحق مرحوم نے منظور کرتے ہوئے ،اس کی تعمیر کی ہدایات جاری کی تھیں۔ جو ان کے طیارے کے پر اسرار حادثے میں جاں بحق ہونے سے زندہ درگو ر ہوا۔ اسے تیسری بار وفاق کی علامت جماعت پی پی پی کی مقتول سربراہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے ملک وقوم کی ترقی اور فلاح و بہبود کے انقلابی منصوبے کے طور پر باقاعدہ تعمیر کےلئے منظور کرتے ہوئے اس کےلئے تعمیراتی اداروں سے پیشکشیں طلب کی تھیں ۔ حالانکہ انکا تعلق بھی صوبہ سندھ سے تھا۔ تاہم انہوں نے اسے ملک و قوم کے بہترین مفاد کا منصوبہ قرار دیکر صوبہ سندھ میں اسکے خلاف پائی جانے والی مخالفت اور خدشات کو بھی نظر اندا ز کر دیا تھا۔ جو ان کی 18ماہ کی حکومت کے رخصت ہونے سے سرد خانے کی نذر ہو گیا۔ جبکہ اسے چوتھی بار مسلم لیگ (ن)کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے سر د خانے سے نکال کر اس پر پائے جانے والے خدشات اور اٹھائے جانے والے اعتراضات پر صوبوں کے درمیان اتفاق رائے کی کوششیں کرتے رہے جو بڑی حد تک کامیابی سے ہمکنار ہوئیں ،کہ ان کے اقتدار سے علیحدہ ہو جانے پر اسے پھر سے تاریکیوں کے پردوں میں چھپا دیا گیا۔ جبکہ اسے پانچویں بارسابق صدر جنرل پرویز مشرف نے تاریکیوں سے نکال کر دوبارہ تعمیر کےلئے اپنی کو ششیں کیں جو ان کے 8سالہ اقتدا ر کے دو ر ان کسی حد تک کا میا ب ثابت ہو ئیں کہ جو ان کی اقتدار سے رخصتی کے بعد پھر سے سرد خا نے کی نظر ہو چلا ہے ۔
حالانکہ صوبہ سندھ میں اس منصوبے کو ، صوبہ پنجاب کے ماہرین کامنصوبہ قرار دیکر اس کی مخالفت کی جاتی ہے۔ جبکہ اس کی حقیقت کچھ یوں بنتی ہے کہ جب 1948میں بھارت نے پاکستان کے نہری پانی کو روک لیا تھا ۔جیسے حالات سے نمبٹنے کےلئے بڑی محنت اور عرق ریزی سے اسے تعمیر کےلئے منتخب کیا گیا تھا ۔اورجس قسم کے حالات حالیہ مہینوں میں پیش آئے ہیں کہ جب بھارت نے دریائے چناب کے پانی کو روک کر، اس جیسے واقعے کو دہرانے کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ اس وقت صوبہ پنجاب کے ماہرین کو ایک سنہرا موقع اس کی تعمیر کےلئے ملا ، پر انہوں نے اس تاریخی مو ڑ پر ملک وقوم کے وسیع تر مفاد میں پاکستان کے خلاف ہونے والی ایک عالمی سازش کو ناکام بناتے ہوئے اس کو تعمیر کرنے سے قبل تربیلا ڈیم بنائے جانے میں اہم کرادر ادا کیا۔ اگر اسوقت صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے یہ ماہرین اور بیوروکریٹس ملکی و قومی مفاد کو صوبائی مفادات پر ترجیح دیتے توشایدکالا باغ ڈیم تربیلا ڈیم سے قبل ہی 1974میں تعمیر ہو کر مکمل ہو جا تاہے۔
اب ان حالات میں کہ جب پاکستان کے توانائی اور آبی وسائل میں کمی واقع ہونے لگی ہے ۔ اور تربیلا ڈیم میں جمع ہونے والی ” گاد“ سے خطرناک صورتحال درپیش ہے۔ تو ان حالات کے باوجودکیا اس کی تعمیر سرد خانے کی نذر رہے گی کیا اس پر خلاف حقیقت اٹھائے جانے والے اعتراضات اور ظاہر کئے جانے والے خدشات زمینی حقائق کے خلاف نہیں ہیں ؟کہ جنہیں تسلیم نہ کر کے ملک و قوم کو مشکلات اور مسائل کا شکار بنایا جا رہا ہے ۔ اب ان حالات میں کہ جب پاکستان کے آبی وسائل ممکنہ خطرات سے دوچار ہو چکے ہیں ،اور ان آبی وسائل کی بقا ءاور تحفظ کیلئے اس کی تعمیر پر کب جا کر ”اتفاق رائے“ہوگا۔ اور اس کی تعمیر کب جا کر شرع ہو گی ؟یہ وہ سوالات ہیں کہ جو سردست عام پاکستانیوں کے ذہنوں میں پائے جا رہے ہیں ۔
(نوٹ: اس مضمون کی تین قسطیں ادارتی صفحہ پر شائع ہو چکی ہیں)