ڈاکٹر اے آر خالد
اگر حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے تو انتہا پسندی کےخلاف اعلان جنگ کو خواہ امریکہ کی جنگ قرار دیا جائے یا اسے اپنی جنگ بنانے کےلئے دلائل کے انبار لگائے جائیں۔ پاکستان کو کسی طرح بھی حالت جنگ میں نہیں سمجھا جاسکتا۔ یہ فی الحقیقت حالت امن ہے۔ بالکل امن کا زمانہ ہے مگر ہماری حالت عملاً جنگ والی ہے۔ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جہاں حالت جنگ کے جملہ اشارے پوری شدت سے محسوس نہ ہو رہے ہوں۔
حکومت حالت جنگ میں ہے تو اپوزیشن بھی حالت جنگ میں نظر آتی ہے۔ عدلیہ پر حالت جنگ کا تو یہ حال ہے کہ ہر مقدمہ ہی میدان جنگ لگانے یا لگنے کا پیغام دیتا ہے۔ مقننہ قانون سازی اور قوانین میں ترامیم و اضافے کے حوالے سے ہمہ وقت جنگ کی حالت میں نظر آتی ہے۔ مملکت کا چوتھا ستون میڈیا تو حالت جنگ میں نہیں بلکہ گھمسان کی لڑائی میں الجھا ہوا ہے۔ اس کو ہر طرف افراتفری نظر آتی ہے یہی افراتفری وہ دکھاتا ہے۔ یہ ساری کیفیت ایک ذہنی عذاب کی ہے جس نے پورے معاشرہ کو اپنی آہنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ ہر کوئی بے بس ہے، مجبور ہے، مایوس ہے، جن کے ذمہ یہ بے بسی، مجبوری اور مایوسی دور کرنے کا کام کوئی معاشرہ سونپتا ہے۔ جو مایوسی کو حوصلے میں بدل سکتے ہیں۔ بے بسی کو بہادری میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ جو مجبوری کو اعتماد و یقین سے مجبوری نہیں رہنے دیتے جن کے پاس ہر بات کا توڑ ہوتا ہے جنکی لغت میں گھبراہٹ، پریشانی اور مایوسی کے الفاظ نہیں ہوتے وہ خود عام آدمی سے زیادہ پریشان ہیں۔ زیادہ گھبرائے ہوئے ہیں اور زیادہ خوفزدہ ہیں۔
خارجی حالات سے زیادہ داخلی معاملات کا خوف ہے۔ جن کو محافظوں کی موجودگی میں بھی اپنی حفاظت کئے جانے کا یقین پیدا نہیں ہو رہا۔ جو خود کو غیرمحفوظ اور خوفزدہ بتاتے ہیں وہ کسی کا خوف کیا دور کرینگے۔ اس لئے اس کام کے ذمہ دار اپنی ذمہ داری نبھانے سے قاصر ہیں۔ محروم ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اصلاح احوال کی ذمہ داری کوئی قبول نہیں کر رہا اور معاملات دن بدن سنگینی کی جانب بڑھ رہے ہیں بلکہ انکی سنگینی میں اضافہ کرنے کا ہر شخص اپنی اپنی حیثیت میں ذمہ دار گردانا جاسکتا ہے۔ وہ اپنے اپنے حصہ کی سنگینی بڑھا رہا ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کا تازہ ترین ارشاد جسے اخبارات نے شہ سرخی کی شکل میں شائع کیا ہے‘ خوف و خدشے دونوں میں اضافہ کا موجب بنا ہے۔ اخباری سرخیوں میں تو اس طرح کہا گیا ہے۔ جان جاتی ہے تو جائے پاکستان کو بچانے کےلئے ہر قربانی دینگے۔ یہ انہوں نے امن و امان کی حالت میں اخبار نویسوں سے بات کرتے ہوئے کہا۔ نہ انکے جلسہ میں کوئی بلوہ ہوا نہ ہنگامہ ہوا نہ کسی اخبار نویس نے ایسا سوال کیا کہ جان جانے تک نوبت پہنچ جائے۔ نہ کوئی خدشہ نہ خوف پھر یہ کونسا موقع تھا اس طرح کی بات کر کے معاشرہ کو ہراساں کرنے کی کوشش کرنے کا۔ شہباز شریف کی حفاظت پر تو انکے منصب کے سبب ایلیٹ فورس سے لےکر رینجرز تک منجھے ہوئے اور پھرتیلے جوانوں کی ایک فوج ظفر موج ہے۔ وہ وزیراعلیٰ نہ رہے تب بھی انکی حفاظت کا یہ انتظام تھوڑا کم ہو سکتا ہے ختم نہیں ہوگا۔ وہ کسی محاذ جنگ پر بھی نہیں جارہے تھے کسی ایسی کشتی میں سوار بھی نہیں ہو رہے تھے جو سیلابی پانی کے تھپیڑوں کے رحم و کرم پر چھوڑی جارہی تھی۔
وہ کہیں اس تقریب کے بعد سیاسی اور مذہبی انتہا پسندوں سے مذاکرات کرنے یا ان کو راہ راست پر لانے کےلئے بھی نہیں جارہے تھے نہ فیصل آباد میں امن و امان کا مسئلہ اس حد تک سنگین ہوا ہے یا ہونے کی امید تھی کہ وزیراعلیٰ اپنی سپاہ کے نرغے میں بھی خود کو غیرمحفوظ سمجھتے نہ ہی وہ پاکستان بچانے کےلئے کسی ”ہائی رسک ایکٹیویٹی“ کا منصوبہ بنا رہے تھے۔
البتہ ایک فقرہ اس سے پہلے ان کے منہ سے نکلا کہ ”ملکی تباہی اور بدعنوانی کا ذمہ دار اسلام آباد کی پہاڑی پر بیٹھا شخص ہے“ نہ انہوں نے صدر آصف علی زرداری کا نام لیا بلکہ اشارے سے بات کی اگر وہ نام لے بھی لیتے تو بھی یہ فقرہ بولنے والے کی جان جانے کا خطرہ پیدا نہیں کرتے اگر اس طرح آصف علی زرداری جان لینے لگتے اور اس طرح کے فقرے بولنے والوں کو نشان عبرت بناتے تو آج پاکستان کی آبادی ایک تہائی ہوتی۔ جتنی صدر آصف علی زرداری پر تنقید ہوئی ہے جتنی بدزبانی انکے بارے میں کی گئی ہے وہ اس سے پہلے کسی بھی تخت نشین صدر کے بارے میں نہیں کی گئی اور جتنی برداشت کا اس حوالے سے آصف علی زرداری نے مظاہرہ کیا ہے وہ بھی شاید کوئی تخت نشین صدر بلکہ کوئی بھی تخت نشین نہیں کر سکتا۔ موجودہ صدر میں یہ برداشت بے نظیر کے قتل کے بعد بالخصوص دیکھی گئی ان پر تو تنقید روز اول سے جاری ہے اس دور سے جاری ہے جب شریف برادران، صدر زرداری سے ملاقات کےلئے اداس ہو جاتے تھے۔ اسلام آباد جا کر ملتے، دبئی ملاقات کرنے چلے جاتے انہیں رائےونڈ بلا لیتے، گلے ملتے نہ شکوے ہوتے نہ شکایتیں مسکراہٹوں کے تبادلے ہوتے۔ مستقبل کے منصوبے بنتے چھوٹے بھائی اور بڑے بھائی کا روایتی پہلو ان ملاقاتوں میں محسوس ہوتا۔ پھر جب ملاقاتوں میں خلوص کم ہوا سیاست نظر آنے لگی۔ مسکراہٹیں پھیکی پڑنے لگیں۔
شکوے زبان پر آنے سے پہلے آنکھوں سے کئے جانے لگے باڈی لینگوئج بدل گئی تب بھی آصف زرداری پر تنقید جاری رہی مگر وہ خاموش رہے خاموشی سے سب سنتے رہے یا سننے سمجھنے سے خود کو الگ تھلگ کر کے اقتدار کے مزے لوٹتے رہے۔ فرینڈلی اپوزیشن سے اپوزیشن اور پھر اب اس نوع کی اپوزیشن کہ ایک فقرہ منہ سے نکل جانے پر جان جانے کا خوف استغفراللہ ثُم استغفراللہ ۔
اس سے سخت زبان تو ذوالفقار مرزا نے استعمال کی ہے۔ اگرچہ مرزا نے بھی کہہ دیا ہے اسے کچھ ہو گیا تو اسکی موت کے ذمہ دار ٹارگٹ کلر ہی ہونگے۔ یعنی خوفزدہ ذوالفقار مرزا بھی ہے مگر شراب پینے اور شراب پلانے کی بات کر کے مرزا نے اپنے مﺅقف کو اس طرح کمزور کر لیا ہے کہ انکی ان باتوں پر بھی یقین کرنے والوں کا یقین کچھ کمزور ہوا ہے جو ذوالفقار مرزا نے قرآن سر پر رکھ کر کی نہیں کہیں کہ وہ شراب پی کر ہی تو وہ سب کچھ نہیں کہا جسے کوئی مسلمان ہوش و حواس میں کہے تو کوئی دوسرا مسلمان اس پر شک نہیں کرتا اب خود مرزا صاحب کہتے ہیں ‘ وہ خرید کر شراب پیتے ہیں اور خرید کر ہی دوستوں کو پلاتے ہیں۔ خریدی شراب کا بھی نشہ اتنا ہی ہے وہ اس طرح ام الخبائث ہے مگر شراب پی کر ایسی حرکت سرزد کرنےوالا بھی خوفزدہ ہے۔ شہباز شریف کے اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض بھی خوفزدہ ہیں۔
فرماتے ہیں مجھے کچھ ہو گیا تو ذمہ دار شہباز شریف ہو گا۔ بھلا شہباز شریف کو کیا پڑی ہے کہ راجہ ریاض کا خون سر پر لیں وہ کونسا انکی حکومت کےلئے کوئی مسئلہ بنا ہوا ہے۔ اسی طرح راولپنڈی سے ن لیگ کے ایم این اے حنیف عباسی خوفزدہ ہیں۔ وہ اپنے مارے جانے کی شکل میں اس کا ذمہ دار رحمن ملک کو قرار دیتے ہیں۔
اگر حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے تو انتہا پسندی کےخلاف اعلان جنگ کو خواہ امریکہ کی جنگ قرار دیا جائے یا اسے اپنی جنگ بنانے کےلئے دلائل کے انبار لگائے جائیں۔ پاکستان کو کسی طرح بھی حالت جنگ میں نہیں سمجھا جاسکتا۔ یہ فی الحقیقت حالت امن ہے۔ بالکل امن کا زمانہ ہے مگر ہماری حالت عملاً جنگ والی ہے۔ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جہاں حالت جنگ کے جملہ اشارے پوری شدت سے محسوس نہ ہو رہے ہوں۔
حکومت حالت جنگ میں ہے تو اپوزیشن بھی حالت جنگ میں نظر آتی ہے۔ عدلیہ پر حالت جنگ کا تو یہ حال ہے کہ ہر مقدمہ ہی میدان جنگ لگانے یا لگنے کا پیغام دیتا ہے۔ مقننہ قانون سازی اور قوانین میں ترامیم و اضافے کے حوالے سے ہمہ وقت جنگ کی حالت میں نظر آتی ہے۔ مملکت کا چوتھا ستون میڈیا تو حالت جنگ میں نہیں بلکہ گھمسان کی لڑائی میں الجھا ہوا ہے۔ اس کو ہر طرف افراتفری نظر آتی ہے یہی افراتفری وہ دکھاتا ہے۔ یہ ساری کیفیت ایک ذہنی عذاب کی ہے جس نے پورے معاشرہ کو اپنی آہنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ ہر کوئی بے بس ہے، مجبور ہے، مایوس ہے، جن کے ذمہ یہ بے بسی، مجبوری اور مایوسی دور کرنے کا کام کوئی معاشرہ سونپتا ہے۔ جو مایوسی کو حوصلے میں بدل سکتے ہیں۔ بے بسی کو بہادری میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ جو مجبوری کو اعتماد و یقین سے مجبوری نہیں رہنے دیتے جن کے پاس ہر بات کا توڑ ہوتا ہے جنکی لغت میں گھبراہٹ، پریشانی اور مایوسی کے الفاظ نہیں ہوتے وہ خود عام آدمی سے زیادہ پریشان ہیں۔ زیادہ گھبرائے ہوئے ہیں اور زیادہ خوفزدہ ہیں۔
خارجی حالات سے زیادہ داخلی معاملات کا خوف ہے۔ جن کو محافظوں کی موجودگی میں بھی اپنی حفاظت کئے جانے کا یقین پیدا نہیں ہو رہا۔ جو خود کو غیرمحفوظ اور خوفزدہ بتاتے ہیں وہ کسی کا خوف کیا دور کرینگے۔ اس لئے اس کام کے ذمہ دار اپنی ذمہ داری نبھانے سے قاصر ہیں۔ محروم ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اصلاح احوال کی ذمہ داری کوئی قبول نہیں کر رہا اور معاملات دن بدن سنگینی کی جانب بڑھ رہے ہیں بلکہ انکی سنگینی میں اضافہ کرنے کا ہر شخص اپنی اپنی حیثیت میں ذمہ دار گردانا جاسکتا ہے۔ وہ اپنے اپنے حصہ کی سنگینی بڑھا رہا ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کا تازہ ترین ارشاد جسے اخبارات نے شہ سرخی کی شکل میں شائع کیا ہے‘ خوف و خدشے دونوں میں اضافہ کا موجب بنا ہے۔ اخباری سرخیوں میں تو اس طرح کہا گیا ہے۔ جان جاتی ہے تو جائے پاکستان کو بچانے کےلئے ہر قربانی دینگے۔ یہ انہوں نے امن و امان کی حالت میں اخبار نویسوں سے بات کرتے ہوئے کہا۔ نہ انکے جلسہ میں کوئی بلوہ ہوا نہ ہنگامہ ہوا نہ کسی اخبار نویس نے ایسا سوال کیا کہ جان جانے تک نوبت پہنچ جائے۔ نہ کوئی خدشہ نہ خوف پھر یہ کونسا موقع تھا اس طرح کی بات کر کے معاشرہ کو ہراساں کرنے کی کوشش کرنے کا۔ شہباز شریف کی حفاظت پر تو انکے منصب کے سبب ایلیٹ فورس سے لےکر رینجرز تک منجھے ہوئے اور پھرتیلے جوانوں کی ایک فوج ظفر موج ہے۔ وہ وزیراعلیٰ نہ رہے تب بھی انکی حفاظت کا یہ انتظام تھوڑا کم ہو سکتا ہے ختم نہیں ہوگا۔ وہ کسی محاذ جنگ پر بھی نہیں جارہے تھے کسی ایسی کشتی میں سوار بھی نہیں ہو رہے تھے جو سیلابی پانی کے تھپیڑوں کے رحم و کرم پر چھوڑی جارہی تھی۔
وہ کہیں اس تقریب کے بعد سیاسی اور مذہبی انتہا پسندوں سے مذاکرات کرنے یا ان کو راہ راست پر لانے کےلئے بھی نہیں جارہے تھے نہ فیصل آباد میں امن و امان کا مسئلہ اس حد تک سنگین ہوا ہے یا ہونے کی امید تھی کہ وزیراعلیٰ اپنی سپاہ کے نرغے میں بھی خود کو غیرمحفوظ سمجھتے نہ ہی وہ پاکستان بچانے کےلئے کسی ”ہائی رسک ایکٹیویٹی“ کا منصوبہ بنا رہے تھے۔
البتہ ایک فقرہ اس سے پہلے ان کے منہ سے نکلا کہ ”ملکی تباہی اور بدعنوانی کا ذمہ دار اسلام آباد کی پہاڑی پر بیٹھا شخص ہے“ نہ انہوں نے صدر آصف علی زرداری کا نام لیا بلکہ اشارے سے بات کی اگر وہ نام لے بھی لیتے تو بھی یہ فقرہ بولنے والے کی جان جانے کا خطرہ پیدا نہیں کرتے اگر اس طرح آصف علی زرداری جان لینے لگتے اور اس طرح کے فقرے بولنے والوں کو نشان عبرت بناتے تو آج پاکستان کی آبادی ایک تہائی ہوتی۔ جتنی صدر آصف علی زرداری پر تنقید ہوئی ہے جتنی بدزبانی انکے بارے میں کی گئی ہے وہ اس سے پہلے کسی بھی تخت نشین صدر کے بارے میں نہیں کی گئی اور جتنی برداشت کا اس حوالے سے آصف علی زرداری نے مظاہرہ کیا ہے وہ بھی شاید کوئی تخت نشین صدر بلکہ کوئی بھی تخت نشین نہیں کر سکتا۔ موجودہ صدر میں یہ برداشت بے نظیر کے قتل کے بعد بالخصوص دیکھی گئی ان پر تو تنقید روز اول سے جاری ہے اس دور سے جاری ہے جب شریف برادران، صدر زرداری سے ملاقات کےلئے اداس ہو جاتے تھے۔ اسلام آباد جا کر ملتے، دبئی ملاقات کرنے چلے جاتے انہیں رائےونڈ بلا لیتے، گلے ملتے نہ شکوے ہوتے نہ شکایتیں مسکراہٹوں کے تبادلے ہوتے۔ مستقبل کے منصوبے بنتے چھوٹے بھائی اور بڑے بھائی کا روایتی پہلو ان ملاقاتوں میں محسوس ہوتا۔ پھر جب ملاقاتوں میں خلوص کم ہوا سیاست نظر آنے لگی۔ مسکراہٹیں پھیکی پڑنے لگیں۔
شکوے زبان پر آنے سے پہلے آنکھوں سے کئے جانے لگے باڈی لینگوئج بدل گئی تب بھی آصف زرداری پر تنقید جاری رہی مگر وہ خاموش رہے خاموشی سے سب سنتے رہے یا سننے سمجھنے سے خود کو الگ تھلگ کر کے اقتدار کے مزے لوٹتے رہے۔ فرینڈلی اپوزیشن سے اپوزیشن اور پھر اب اس نوع کی اپوزیشن کہ ایک فقرہ منہ سے نکل جانے پر جان جانے کا خوف استغفراللہ ثُم استغفراللہ ۔
اس سے سخت زبان تو ذوالفقار مرزا نے استعمال کی ہے۔ اگرچہ مرزا نے بھی کہہ دیا ہے اسے کچھ ہو گیا تو اسکی موت کے ذمہ دار ٹارگٹ کلر ہی ہونگے۔ یعنی خوفزدہ ذوالفقار مرزا بھی ہے مگر شراب پینے اور شراب پلانے کی بات کر کے مرزا نے اپنے مﺅقف کو اس طرح کمزور کر لیا ہے کہ انکی ان باتوں پر بھی یقین کرنے والوں کا یقین کچھ کمزور ہوا ہے جو ذوالفقار مرزا نے قرآن سر پر رکھ کر کی نہیں کہیں کہ وہ شراب پی کر ہی تو وہ سب کچھ نہیں کہا جسے کوئی مسلمان ہوش و حواس میں کہے تو کوئی دوسرا مسلمان اس پر شک نہیں کرتا اب خود مرزا صاحب کہتے ہیں ‘ وہ خرید کر شراب پیتے ہیں اور خرید کر ہی دوستوں کو پلاتے ہیں۔ خریدی شراب کا بھی نشہ اتنا ہی ہے وہ اس طرح ام الخبائث ہے مگر شراب پی کر ایسی حرکت سرزد کرنےوالا بھی خوفزدہ ہے۔ شہباز شریف کے اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض بھی خوفزدہ ہیں۔
فرماتے ہیں مجھے کچھ ہو گیا تو ذمہ دار شہباز شریف ہو گا۔ بھلا شہباز شریف کو کیا پڑی ہے کہ راجہ ریاض کا خون سر پر لیں وہ کونسا انکی حکومت کےلئے کوئی مسئلہ بنا ہوا ہے۔ اسی طرح راولپنڈی سے ن لیگ کے ایم این اے حنیف عباسی خوفزدہ ہیں۔ وہ اپنے مارے جانے کی شکل میں اس کا ذمہ دار رحمن ملک کو قرار دیتے ہیں۔