امریکی و پاکستانی وزرائے خارجہ کا حقانی نیٹ ورک کیخلاف مشترکہ کوششوں پر اتفاق ..... پاکستان میںحقانی نیٹ ورک کا وجود نہیں‘ خاتمے کی کوشش چہ معنی دارد؟
پاکستان نے حقانی نیٹ ورک کے ساتھ روابط کے امریکی حکام کے الزامات مسترد کرتے ہوئے امریکہ کو متنبہ کیا کہ ایسے غیرذمہ دارانہ بیانات سے باہمی تعلقات اور دہشت گردی کیخلاف جنگ کو نقصان پہنچے گا۔ کسی بھی عسکریت پسند تنظیم سے کوئی روابط نہیں۔ کابل حملہ افسوسناک ہے‘ ایسے واقعات سے پاکستان خود بھی متاثر ہے۔ دہشت گردی کیخلاف اپنی کوششیں جاری رکھیں گے‘ پاکستانی معیشت کی بہتری کیلئے ہماری مصنوعات کو امریکی منڈیوں تک رسائی دی جائے۔ امریکہ نے ایک بار پھر پاکستان پر شمالی وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک کیخلاف فوجی اپریشن کرنے کیلئے دباﺅ ڈالتے ہوئے کہا کہ حقانی نیٹ ورک کابل حملوں میں ملوث ہے۔ وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کی امریکی ہم منصب ہلیری کلنٹن سے ملاقات ساڑھے تین گھنٹے جاری رہی۔ امریکی اہلکار کے مطابق ملاقات میں اول و آخر موضوع دہشت گردی اور خصوصی طور پر حقانی نیٹ ورک کا مبینہ کابل حملہ ہی تھا۔ حنا ربانی کھر نے امریکی وزیر دفاع اور پاکستان میں امریکی سفیر کی جانب سے حقانی نیٹ ورک کے پاکستان کے ساتھ روابط کے بارے میں بیانات کا معاملہ اٹھایا اور امریکی حکام کے بیانات مسترد کرتے ہوئے متنبہ کیا کہ اس قسم کے غیرذمہ دارانہ بیانات سے دونوں ممالک کے تعلقات کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ ایک امریکی اہلکار کے مطابق ہلیری کلنٹن نے حقانی نیٹ ورک کے حکومت پاکستان سے رابطوں کے حوالے سے کوئی ثبوت پیش نہیں کئے‘ نجی ٹی وی کے مطابق امریکہ نے پاکستان سے حقانی نیٹ ورک اور لشکر طیبہ کےخلاف اقدامات کا مطالبہ کیا۔ امریکی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ حنا ربانی کھر نے تسلیم کرلیا ہے کہ حقانی نیٹ ورک پاکستان اور امریکہ دونوں کیلئے خطرہ ہے۔ مزید براں دونوں وزرائے خارجہ نے حقانی نیٹ ورک کیخلاف فوری اور مشترکہ کوششوں پر اتفاق کیا۔
گزشتہ ہفتے کابل میں نیٹو دفاتر اور امریکی سفارت خانے پر طالبان کے 20 گھنٹے تک حملوں نے امریکی و اتحادی افواج کو بے بس کرکے رکھ دیا تھا۔ اسکے بعد سے امریکہ تواتر سے کہہ رہا ہے کہ حملہ آوروں کے پاکستان میں رابطے تھے۔ وزیر دفاع لیون پینٹا اور قومی سلامتی کے امریکی مشیر برینن نے سیخ پا ہو کر کہا کہ امریکہ پاکستان کے اندر گھس کر براہ راست کارروائی کا حق رکھتا ہے۔ پاکستان میں امریکی سفیر کیمرون منٹر نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ انکے پاس حقانی نیٹ ورک اور حکومت پاکستان کے مابین تعلقات کے ثبوت ہیں‘ انہیں ختم ہونا چاہیے۔یہ سب کچھ صرف اور صرف پاکستان کو شمالی وزیرستان میں اپریشن کیلئے دباﺅ ڈالنے کے ہتھکنڈے ہیں‘ اس حوالے سے‘ کابل حملہ بھی‘ ہو سکتا ہے کہ امریکہ کا اپنا رچایا ہوا ڈرامہ ہو۔ سراج الدین حقانی واضح کر چکے ہیں کہ ان کا نیٹ ورک پاکستان میں نہیں ہے‘ وہ افغانستان میں ہیں‘ زیادہ محفوظ ہیں۔ ویسے بھی افغانستان سرحد پر ڈیڑھ لاکھ پاک فوج اور اتنی ہی تعداد میں دوسری طرف نیٹو افواج موجود ہوں تو کوئی پاگل ہی ہو گا جو سرحد عبور کرنے کی جرا¿ت کریگا۔ جبکہ افغانستان میں 80 فیصد علاقوں پر طالبان کا کنٹرول ہے۔ حقانی نیٹ ورک یا طالبان کو وہاں سے کارروائی میں آسانی ہے یاپاکستان سے سیل کی ہوئی سرحد عبور کرنے سے؟
جہاں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے امریکہ کا دورہ منسوخ کرکے احسن اقدام کیا ہے‘ وہیں وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کو جو ابوظہبی میں موجود تھیں‘ ان کو ہدایت کی کہ وہ امریکہ جا کر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں انکی نمائندگی کریں‘ اس حوالے سے یہ نامناسب فیصلہ تھا کہ وہ بغیر وزارت خارجہ کی بریفنگ کے امریکہ پہنچیں اور جاتے ہی اپنی ہم منصب ہلیری کلنٹن سے ملاقات بھی کر ڈالی‘ اس میں انہوں نے پاکستانی موقف تو بھرپور انداز میں اٹھایا لیکن جو کچھ حقانی نیٹ ورک کے حوالے سے کہا کہ حقانی نیٹ ورک سے دونوں ممالک کو خطرہ ہے اور دونوں وزرائے خارجہ نے اس نیٹ ورک کے خاتمہ کےلئے مشترکہ کوششوں پر اتفاق بھی کیا‘ یہ پاکستانی موقف سے میل نہیں کھاتا۔ حقانی نیٹ ورک کے بارے میں پاکستان کا تسلسل سے یہ موقف رہا ہے کہ نیٹ ورک پاکستان کی سرزمین پر موجود نہیں۔ ہم بار بار تردید کرتے رہے ہیں کہ کوئٹہ میں حقانی شوریٰ کا سرے سے وجود ہی نہیں‘ اسی موقف کی بنیاد پر امریکہ کو بلوچستان میں بالعموم اور کوئٹہ میں بالخصوص حملوں کی اجازت نہیں دی گئی۔ نہ صرف یہ بلکہ شدید دباﺅ کے باوجود امریکہ کو کوئٹہ میں اس کا قونصلیٹ دفتر کھولنے سے بھی باز رکھا۔ حنا ربانی کھر کا یہ بیان کہ حقانی نیٹ ورک دونوں ممالک کیخلاف ہے‘ ایک نہ سمجھ میں آنیوالی منطق ہے‘ کیا انہوں نے ایسا امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے کیا؟ کیونکہ اگر امریکہ اس پر اڑ گیا کہ پاکستان کی سرزمین سے حقانی نیٹ ورک کے خاتمے کی یقین دہانی کرائی جائے تو ہم ڈومور کے تقاضوں کے ساتھ ایک نئی مصیبت میں گرفتار ہو جائینگے۔ توقع تو یہ تھی کہ امریکہ کو Enough is Enough (بہت ہو چکا) کہہ دیا جائے مگر سب کچھ الٹا ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ عوام تو یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ مس کھر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران مسئلہ کشمیر کو بھرپور انداز میں اٹھائیں گی لیکن کہا جا رہا ہے کہ ابھی تک غور و خوض جاری ہے کہ مسئلہ کشمیر جنرل اسمبلی میں اٹھایا بھی جائے یا نہیں؟ اگر اس دورے کا مقصد صرف امریکہ کو خوش کرنا ہے تو یہ ماضی کی حکومتوں کی طرح مایوس کن کارکردگی ہو گی۔ امریکہ ہرگز نہیں چاہے گا کہ پاکستان کوئی ایسا اقدام کرے جس سے بھارت ناراض ہو بلکہ اسکی تو یہ خواہش رہی ہے کہ مسئلہ کشمیر کو ایک طرف رکھ کر بھارت سے باقی معاملات پر آگے بڑھائے جائیں جبکہ ایسا کرنا پاکستانی مفاد کیخلاف ہے۔ پاکستانی عوام کسی صورت کشمیر کے تنازع کو حل کئے بغیر بھارت سے پرامن تعلقات قائم کرنے پر راضی نہیں ہونگے۔ ابھی حنا ربانی کھر کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں دو تین روز باقی ہیں۔ قوم توقع رکھتی ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر بھرپور طریقے سے اٹھائیں گی۔
سفارتی حلقوں کاخیال ہے کہ امریکہ اب پاکستان کو اپنے قریبی اور بااعتماد دوستوں کی فہرست سے نکال چکا ہے اور دہشت گردی کیخلاف جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی ہونے کے باوجود پاکستان کو اہمیت نہیں دی جا رہی۔ امریکی دباﺅ کے تحت آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک نے پاکستان کے قرضے روکے ہوئے ہیں‘ جب تک واشنگٹن سے اشارہ نہیں ملے گا‘ پاکستان کو اس سے محروم رکھا جائیگا۔ یہ دوہرا معیار اور دوغلہ پن کوئی نئی بات نہیں۔ ابھی کل کی بات ہے‘ صدر اوباما نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ریمنڈ ڈیوس سفارت کار ہے‘ مگر وہ سی آئی اے کا ایجنٹ نکلا‘ سچ اور جھوٹ میں فرق کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ پاکستان نے ایبٹ آباد اپریشن سے نوماہ قبل انٹیلی جنس دی تھی‘ اس کے باوجود امریکہ نے یکطرفہ کارروائی کرکے ایک آزاد خودمختاری کی دھجیاں بکھیر دیں۔ ایف سولہ کی رقم وصول کرنے کے باوجود نہ تو طیارے دیئے نہ ہی رقم واپس کی۔ پاکستان نے زیادہ واویلا کیا تو امریکی حکومت نے جہازوں کے بجائے گندم فراہم کرنے کی بات کی۔ 1971ءمیں یہ جھوٹ بولا گیا کہ پاکستان کی سلامتی کے تحفظ کیلئے امریکی چھٹا بحری بیڑا آرہا ہے‘ جو کبھی نہیں پہنچا۔
ہمارے حکمران یا تو امریکہ کی سوچ کو پڑھنے سے قاصر ہیں یا قومی مفاد پرکوئی ٹھوس موقف اختیار کرنے کے اہل نہیں۔ افغانستان پاکستانی سرحد کے اندر گولے برسا رہا ہے‘ ہم اس کا ذکر بھی نہیں کرتے۔ امریکہ کی طرف سے پاکستان میں جارحیت جس میں ڈرون حملے‘ ریمنڈ ڈیوس جیسے واقعات کا حوالہ موجود ہے اور ہم اب تک مکمل طور پر لاچار ہیں۔ پاکستان کے سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ ہلیری نے حقانی نیٹ ورک کی پاکستان میں موجودگی کا الزام تو لگا دیا مگر کوئی ثبوت پیش نہیں کئے جبکہ فوجی ذرائع کھلم کھلا یہ کہتے ہیں کہ امریکہ اپنی ناکامیوں کا الزام لگانے کے بجائے اپنی توجہ افغانستان پر مرکوز رکھے۔ جہاں تک طالبان گروپوں سے رابطوں کا تعلق ہے‘ اپنے مفاد میں پاکستان کو بھی یہ حق حاصل ہے جس طرح امریکہ مخصوص طالبان گروپوں سے مذاکرات بھی کر رہا ہے اور انہیں قطر میں اپنا دفتر کھولنے کی ترغیب بھی دے رہاہے۔ اس میں بھی امریکہ کی بدفطرتی شامل ہے کہ یہ سب کچھ پاکستان سے دور طالبان کا دفتر قائم کرکے پاکستان کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کے عمل سے باہر رکھا جائے۔ امریکہ صرف اپنے مفادات کا دوست ہے اور یہ کہنا درست ہو گا....ع
ہوئے دوست تم جس کے اس کا دشمن آسماں کیوں ہو
بھارت اور یہودی لابی کے آبی حملے
سندھ طاس واٹر کونسل پاکستان کے چیئر مین حافظ ظہور الحسن ڈاہر نے خبردار کیا ہے کہ بھارت کے اقدامات سے پاکستان کی زراعت اور زندگی خطرے میں ہےں۔ یہی صورت حال رہی تو آئندہ چند سال میں پاکستان بنجر ہو جائے گا۔ انہوں نے ایوان نوائے وقت میں اظہار خیال کرتے ہوئے تشویشناک حقائق کی پردہ کشائی کی کہ بھارت اور یہودی لابی پانی بند کرکے پاکستان کی طاقت توڑنا چاہتے ہیں، بھارت نے 2010ءکے آبی حملے میں ہمارے تین صوبوں کو تباہ کیا تھا۔ اب دوسرے بڑے آبی حملے کی ریہرسل جاری ہے، جب بھارت میں ان کے ڈیمز اور جھیلیں بھر جاتی ہیں تو وہ دریاﺅں کا پانی بغیر اطلاع پاکستان کی طرف چھوڑ دیتا ہے، پاکستان کے پاس آج ڈیم ہوتے تو پاکستان کے لئے یہ پانی رحمت ہوتا جبکہ اس وقت زحمت ثابت ہو رہا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے آبی وسائل و مسائل کے شعبہ کی ایک انتہائی باخبر شخصیت کی باتیں، جہاں محب وطن حلقوں کے لئے تشویش کا باعث ہیں، وہاں حکومت کی طرف سے بھی ان پر انتہائی سنجیدگی سے غور کرنے کی متقاضی ہیں۔ پاکستان کی زراعت اور بجلی کی پیداوار کا بیشتر دارو مدار دریائی پانی پر ہے۔ 1960ءمیں ایوب دور میں پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہدہ طے پایا تھا۔ اگرچہ اس معاہدے میں بھی پاکستان کے ساتھ بے انصافی کی گئی تھی، لیکن بھارت نے اس معاہدے پر بھی صدق دل سے عمل نہیں کیا اور ہمارے حصہ کے دریاﺅں پر کبھی ڈیم بنا کر اور کبھی پانی چوری کرکے، پاکستان کو بنجر بنانے کے در پے ہے۔ اس صورت حال کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان، کالا باغ ڈیم وغیرہ بنا کر کسی حد تک بھارت کی آبی جارحیت کا تدارک کر سکتا تھا لیکن امریکی بھارتی اور یہودی ایجنسیوں نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے پاکستان کو بے دست و پا بنانے کیلئے ملک کے اندر ان ڈیمز کی تعمیر کے خلاف طوفان کھڑا کرکے اس منصوبے پر عمل مشکل بنا دیا ہے۔ کیا یہ ملک و قوم سے خیر خواہی ہے کہ پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت سرحد سے کالا باغ ڈیم کے مخالفین اے این پی کو شریک اقتدار بنائے ہوئے ہے اور کالا باغ ڈیم کے منصوبے کو متروک کردیا ہے۔
نئے الیکشن ضروری ہو گئے ہیں
مسلم لیگ کے سربراہ میاں محمد نواز شریف نے کراچی میں دو مختلف مواقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے افسوس ظاہر کیا ہے کہ ملک اس وقت تاریخ کے بدترین بحران سے گزر رہا ہے اور حکمران اپنا اقتدار بچانے اور اسے طول دینے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ موجودہ خوفناک بحران اور گھمبیر مسائل سے نکلنے کا واحد اور باعزت راستہ نئے انتخابات ہیں اگر حکمران ملک و قوم سے مخلص ہیں تو اقتدار کی قربانی دیکر نئے انتخابات کا اعلان کر دیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر پیپلز پارٹی نے میثاق جمہوریت پر عمل کیا ہوتا تو آج ملک کی یہ حالت نہ ہوتی۔
پیپلز پارٹی کو اقتدار میں آئے پونے چار سال ہو رہے ہیں لیکن زندگی کا کوئی شعبہ نہیں‘ جو ابتری سے بدتری کی طرف گامزن نہ ہو۔ سنگین ترین مسئلہ توانائی کا بحران ہے اگر پیپلز پارٹی کی حکومت صرف اس مسئلہ کو حل کرنے کا عزم مصمم کرلیتی اور تمام وسائل اور توجہ اس پر مرکوز کردیتی تو آج صورتحال مختلف ہوتی۔ طویل لوڈشیڈنگ نے ہماری زراعت‘ صنعت اور شہری زندگی کے ہر شعبے کو تلپٹ کرکے رکھ دیا ہے۔ ستم بالائے ستم حکومت نے بجلی کی پیداوار بڑھانے کیلئے جو نیم دلانہ اقدامات کئے ہیں‘ وہ نہ صرف صارفین کے بلوں میں ہوشربا اضافے کا باعث بنے ہیں بلکہ اس طرح بعض لوگوں کو جیبیں بھرنے کا موقعہ بھی فراہم کیا گیا ہے۔ دیگر شعبوں کا بھی یہی حال ہے۔ مہنگائی اور افراط زر نے روپے کو بے قدر کر دیا ہے۔ اگر حکومت کو نواز شریف کا یہ مشورہ اچھا نہیں لگا تو وہ خود ہی بتائے کہ کون سے شعبے میں بہتری آئی ہے یا بہتری کے آثار پیدا ہوئے ہیں۔ قائد مسلم لیگ نے تو حکومت کی تبدیلی کیلئے کسی غیرجمہوری طریقے کے بجائے الیکشن کی راہ اختیار کرنے پر زور دیا ہے اور جمہوری طریق کار بھی یہی ہے کہ اگر معاملات قابو میں نہ رہیں‘ مسائل بڑھ رہے ہوں حالات خراب ہوتے چلے جا رہے ہوں تو اقتدار چھوڑ کر نئے مینڈیٹ کیلئے عوام کا رخ کرنا چاہیے اور یہ انتظار نہیں کرنا چاہیے کہ عوام سڑکوں پر نکل آئیں۔
گزشتہ ہفتے کابل میں نیٹو دفاتر اور امریکی سفارت خانے پر طالبان کے 20 گھنٹے تک حملوں نے امریکی و اتحادی افواج کو بے بس کرکے رکھ دیا تھا۔ اسکے بعد سے امریکہ تواتر سے کہہ رہا ہے کہ حملہ آوروں کے پاکستان میں رابطے تھے۔ وزیر دفاع لیون پینٹا اور قومی سلامتی کے امریکی مشیر برینن نے سیخ پا ہو کر کہا کہ امریکہ پاکستان کے اندر گھس کر براہ راست کارروائی کا حق رکھتا ہے۔ پاکستان میں امریکی سفیر کیمرون منٹر نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ انکے پاس حقانی نیٹ ورک اور حکومت پاکستان کے مابین تعلقات کے ثبوت ہیں‘ انہیں ختم ہونا چاہیے۔یہ سب کچھ صرف اور صرف پاکستان کو شمالی وزیرستان میں اپریشن کیلئے دباﺅ ڈالنے کے ہتھکنڈے ہیں‘ اس حوالے سے‘ کابل حملہ بھی‘ ہو سکتا ہے کہ امریکہ کا اپنا رچایا ہوا ڈرامہ ہو۔ سراج الدین حقانی واضح کر چکے ہیں کہ ان کا نیٹ ورک پاکستان میں نہیں ہے‘ وہ افغانستان میں ہیں‘ زیادہ محفوظ ہیں۔ ویسے بھی افغانستان سرحد پر ڈیڑھ لاکھ پاک فوج اور اتنی ہی تعداد میں دوسری طرف نیٹو افواج موجود ہوں تو کوئی پاگل ہی ہو گا جو سرحد عبور کرنے کی جرا¿ت کریگا۔ جبکہ افغانستان میں 80 فیصد علاقوں پر طالبان کا کنٹرول ہے۔ حقانی نیٹ ورک یا طالبان کو وہاں سے کارروائی میں آسانی ہے یاپاکستان سے سیل کی ہوئی سرحد عبور کرنے سے؟
جہاں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے امریکہ کا دورہ منسوخ کرکے احسن اقدام کیا ہے‘ وہیں وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کو جو ابوظہبی میں موجود تھیں‘ ان کو ہدایت کی کہ وہ امریکہ جا کر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں انکی نمائندگی کریں‘ اس حوالے سے یہ نامناسب فیصلہ تھا کہ وہ بغیر وزارت خارجہ کی بریفنگ کے امریکہ پہنچیں اور جاتے ہی اپنی ہم منصب ہلیری کلنٹن سے ملاقات بھی کر ڈالی‘ اس میں انہوں نے پاکستانی موقف تو بھرپور انداز میں اٹھایا لیکن جو کچھ حقانی نیٹ ورک کے حوالے سے کہا کہ حقانی نیٹ ورک سے دونوں ممالک کو خطرہ ہے اور دونوں وزرائے خارجہ نے اس نیٹ ورک کے خاتمہ کےلئے مشترکہ کوششوں پر اتفاق بھی کیا‘ یہ پاکستانی موقف سے میل نہیں کھاتا۔ حقانی نیٹ ورک کے بارے میں پاکستان کا تسلسل سے یہ موقف رہا ہے کہ نیٹ ورک پاکستان کی سرزمین پر موجود نہیں۔ ہم بار بار تردید کرتے رہے ہیں کہ کوئٹہ میں حقانی شوریٰ کا سرے سے وجود ہی نہیں‘ اسی موقف کی بنیاد پر امریکہ کو بلوچستان میں بالعموم اور کوئٹہ میں بالخصوص حملوں کی اجازت نہیں دی گئی۔ نہ صرف یہ بلکہ شدید دباﺅ کے باوجود امریکہ کو کوئٹہ میں اس کا قونصلیٹ دفتر کھولنے سے بھی باز رکھا۔ حنا ربانی کھر کا یہ بیان کہ حقانی نیٹ ورک دونوں ممالک کیخلاف ہے‘ ایک نہ سمجھ میں آنیوالی منطق ہے‘ کیا انہوں نے ایسا امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے کیا؟ کیونکہ اگر امریکہ اس پر اڑ گیا کہ پاکستان کی سرزمین سے حقانی نیٹ ورک کے خاتمے کی یقین دہانی کرائی جائے تو ہم ڈومور کے تقاضوں کے ساتھ ایک نئی مصیبت میں گرفتار ہو جائینگے۔ توقع تو یہ تھی کہ امریکہ کو Enough is Enough (بہت ہو چکا) کہہ دیا جائے مگر سب کچھ الٹا ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ عوام تو یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ مس کھر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران مسئلہ کشمیر کو بھرپور انداز میں اٹھائیں گی لیکن کہا جا رہا ہے کہ ابھی تک غور و خوض جاری ہے کہ مسئلہ کشمیر جنرل اسمبلی میں اٹھایا بھی جائے یا نہیں؟ اگر اس دورے کا مقصد صرف امریکہ کو خوش کرنا ہے تو یہ ماضی کی حکومتوں کی طرح مایوس کن کارکردگی ہو گی۔ امریکہ ہرگز نہیں چاہے گا کہ پاکستان کوئی ایسا اقدام کرے جس سے بھارت ناراض ہو بلکہ اسکی تو یہ خواہش رہی ہے کہ مسئلہ کشمیر کو ایک طرف رکھ کر بھارت سے باقی معاملات پر آگے بڑھائے جائیں جبکہ ایسا کرنا پاکستانی مفاد کیخلاف ہے۔ پاکستانی عوام کسی صورت کشمیر کے تنازع کو حل کئے بغیر بھارت سے پرامن تعلقات قائم کرنے پر راضی نہیں ہونگے۔ ابھی حنا ربانی کھر کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں دو تین روز باقی ہیں۔ قوم توقع رکھتی ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر بھرپور طریقے سے اٹھائیں گی۔
سفارتی حلقوں کاخیال ہے کہ امریکہ اب پاکستان کو اپنے قریبی اور بااعتماد دوستوں کی فہرست سے نکال چکا ہے اور دہشت گردی کیخلاف جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی ہونے کے باوجود پاکستان کو اہمیت نہیں دی جا رہی۔ امریکی دباﺅ کے تحت آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک نے پاکستان کے قرضے روکے ہوئے ہیں‘ جب تک واشنگٹن سے اشارہ نہیں ملے گا‘ پاکستان کو اس سے محروم رکھا جائیگا۔ یہ دوہرا معیار اور دوغلہ پن کوئی نئی بات نہیں۔ ابھی کل کی بات ہے‘ صدر اوباما نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ریمنڈ ڈیوس سفارت کار ہے‘ مگر وہ سی آئی اے کا ایجنٹ نکلا‘ سچ اور جھوٹ میں فرق کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ پاکستان نے ایبٹ آباد اپریشن سے نوماہ قبل انٹیلی جنس دی تھی‘ اس کے باوجود امریکہ نے یکطرفہ کارروائی کرکے ایک آزاد خودمختاری کی دھجیاں بکھیر دیں۔ ایف سولہ کی رقم وصول کرنے کے باوجود نہ تو طیارے دیئے نہ ہی رقم واپس کی۔ پاکستان نے زیادہ واویلا کیا تو امریکی حکومت نے جہازوں کے بجائے گندم فراہم کرنے کی بات کی۔ 1971ءمیں یہ جھوٹ بولا گیا کہ پاکستان کی سلامتی کے تحفظ کیلئے امریکی چھٹا بحری بیڑا آرہا ہے‘ جو کبھی نہیں پہنچا۔
ہمارے حکمران یا تو امریکہ کی سوچ کو پڑھنے سے قاصر ہیں یا قومی مفاد پرکوئی ٹھوس موقف اختیار کرنے کے اہل نہیں۔ افغانستان پاکستانی سرحد کے اندر گولے برسا رہا ہے‘ ہم اس کا ذکر بھی نہیں کرتے۔ امریکہ کی طرف سے پاکستان میں جارحیت جس میں ڈرون حملے‘ ریمنڈ ڈیوس جیسے واقعات کا حوالہ موجود ہے اور ہم اب تک مکمل طور پر لاچار ہیں۔ پاکستان کے سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ ہلیری نے حقانی نیٹ ورک کی پاکستان میں موجودگی کا الزام تو لگا دیا مگر کوئی ثبوت پیش نہیں کئے جبکہ فوجی ذرائع کھلم کھلا یہ کہتے ہیں کہ امریکہ اپنی ناکامیوں کا الزام لگانے کے بجائے اپنی توجہ افغانستان پر مرکوز رکھے۔ جہاں تک طالبان گروپوں سے رابطوں کا تعلق ہے‘ اپنے مفاد میں پاکستان کو بھی یہ حق حاصل ہے جس طرح امریکہ مخصوص طالبان گروپوں سے مذاکرات بھی کر رہا ہے اور انہیں قطر میں اپنا دفتر کھولنے کی ترغیب بھی دے رہاہے۔ اس میں بھی امریکہ کی بدفطرتی شامل ہے کہ یہ سب کچھ پاکستان سے دور طالبان کا دفتر قائم کرکے پاکستان کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کے عمل سے باہر رکھا جائے۔ امریکہ صرف اپنے مفادات کا دوست ہے اور یہ کہنا درست ہو گا....ع
ہوئے دوست تم جس کے اس کا دشمن آسماں کیوں ہو
بھارت اور یہودی لابی کے آبی حملے
سندھ طاس واٹر کونسل پاکستان کے چیئر مین حافظ ظہور الحسن ڈاہر نے خبردار کیا ہے کہ بھارت کے اقدامات سے پاکستان کی زراعت اور زندگی خطرے میں ہےں۔ یہی صورت حال رہی تو آئندہ چند سال میں پاکستان بنجر ہو جائے گا۔ انہوں نے ایوان نوائے وقت میں اظہار خیال کرتے ہوئے تشویشناک حقائق کی پردہ کشائی کی کہ بھارت اور یہودی لابی پانی بند کرکے پاکستان کی طاقت توڑنا چاہتے ہیں، بھارت نے 2010ءکے آبی حملے میں ہمارے تین صوبوں کو تباہ کیا تھا۔ اب دوسرے بڑے آبی حملے کی ریہرسل جاری ہے، جب بھارت میں ان کے ڈیمز اور جھیلیں بھر جاتی ہیں تو وہ دریاﺅں کا پانی بغیر اطلاع پاکستان کی طرف چھوڑ دیتا ہے، پاکستان کے پاس آج ڈیم ہوتے تو پاکستان کے لئے یہ پانی رحمت ہوتا جبکہ اس وقت زحمت ثابت ہو رہا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے آبی وسائل و مسائل کے شعبہ کی ایک انتہائی باخبر شخصیت کی باتیں، جہاں محب وطن حلقوں کے لئے تشویش کا باعث ہیں، وہاں حکومت کی طرف سے بھی ان پر انتہائی سنجیدگی سے غور کرنے کی متقاضی ہیں۔ پاکستان کی زراعت اور بجلی کی پیداوار کا بیشتر دارو مدار دریائی پانی پر ہے۔ 1960ءمیں ایوب دور میں پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہدہ طے پایا تھا۔ اگرچہ اس معاہدے میں بھی پاکستان کے ساتھ بے انصافی کی گئی تھی، لیکن بھارت نے اس معاہدے پر بھی صدق دل سے عمل نہیں کیا اور ہمارے حصہ کے دریاﺅں پر کبھی ڈیم بنا کر اور کبھی پانی چوری کرکے، پاکستان کو بنجر بنانے کے در پے ہے۔ اس صورت حال کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان، کالا باغ ڈیم وغیرہ بنا کر کسی حد تک بھارت کی آبی جارحیت کا تدارک کر سکتا تھا لیکن امریکی بھارتی اور یہودی ایجنسیوں نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے پاکستان کو بے دست و پا بنانے کیلئے ملک کے اندر ان ڈیمز کی تعمیر کے خلاف طوفان کھڑا کرکے اس منصوبے پر عمل مشکل بنا دیا ہے۔ کیا یہ ملک و قوم سے خیر خواہی ہے کہ پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت سرحد سے کالا باغ ڈیم کے مخالفین اے این پی کو شریک اقتدار بنائے ہوئے ہے اور کالا باغ ڈیم کے منصوبے کو متروک کردیا ہے۔
نئے الیکشن ضروری ہو گئے ہیں
مسلم لیگ کے سربراہ میاں محمد نواز شریف نے کراچی میں دو مختلف مواقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے افسوس ظاہر کیا ہے کہ ملک اس وقت تاریخ کے بدترین بحران سے گزر رہا ہے اور حکمران اپنا اقتدار بچانے اور اسے طول دینے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ موجودہ خوفناک بحران اور گھمبیر مسائل سے نکلنے کا واحد اور باعزت راستہ نئے انتخابات ہیں اگر حکمران ملک و قوم سے مخلص ہیں تو اقتدار کی قربانی دیکر نئے انتخابات کا اعلان کر دیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر پیپلز پارٹی نے میثاق جمہوریت پر عمل کیا ہوتا تو آج ملک کی یہ حالت نہ ہوتی۔
پیپلز پارٹی کو اقتدار میں آئے پونے چار سال ہو رہے ہیں لیکن زندگی کا کوئی شعبہ نہیں‘ جو ابتری سے بدتری کی طرف گامزن نہ ہو۔ سنگین ترین مسئلہ توانائی کا بحران ہے اگر پیپلز پارٹی کی حکومت صرف اس مسئلہ کو حل کرنے کا عزم مصمم کرلیتی اور تمام وسائل اور توجہ اس پر مرکوز کردیتی تو آج صورتحال مختلف ہوتی۔ طویل لوڈشیڈنگ نے ہماری زراعت‘ صنعت اور شہری زندگی کے ہر شعبے کو تلپٹ کرکے رکھ دیا ہے۔ ستم بالائے ستم حکومت نے بجلی کی پیداوار بڑھانے کیلئے جو نیم دلانہ اقدامات کئے ہیں‘ وہ نہ صرف صارفین کے بلوں میں ہوشربا اضافے کا باعث بنے ہیں بلکہ اس طرح بعض لوگوں کو جیبیں بھرنے کا موقعہ بھی فراہم کیا گیا ہے۔ دیگر شعبوں کا بھی یہی حال ہے۔ مہنگائی اور افراط زر نے روپے کو بے قدر کر دیا ہے۔ اگر حکومت کو نواز شریف کا یہ مشورہ اچھا نہیں لگا تو وہ خود ہی بتائے کہ کون سے شعبے میں بہتری آئی ہے یا بہتری کے آثار پیدا ہوئے ہیں۔ قائد مسلم لیگ نے تو حکومت کی تبدیلی کیلئے کسی غیرجمہوری طریقے کے بجائے الیکشن کی راہ اختیار کرنے پر زور دیا ہے اور جمہوری طریق کار بھی یہی ہے کہ اگر معاملات قابو میں نہ رہیں‘ مسائل بڑھ رہے ہوں حالات خراب ہوتے چلے جا رہے ہوں تو اقتدار چھوڑ کر نئے مینڈیٹ کیلئے عوام کا رخ کرنا چاہیے اور یہ انتظار نہیں کرنا چاہیے کہ عوام سڑکوں پر نکل آئیں۔