’’قانون کی سرپرستی میں جرائم پیشہ افراد سرگرم‘‘
ضلع رحیم یار خان میں جرائم میں اضافے سے شہریوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے ضلعی پولیس کے دو افسران ڈی پی او اور ایس ایس پی انویسٹی گیشن کی تبدیلی کے باوجود رحیم یارخان میں جرائم کی لہر پر قابو نہ پایا جا سکا، ضلع میں کچہ اور پکا دونوں اطراف کا دیہی علاقہ جرائم پیشہ گینگز کی ‘‘جنت ’’ بنا ہوا ہے، پنجاب پولیس کے بڑے افسران کو ڈی ٹریک کرنے کیلئے سانحہ ماہی چوک کے فوری بعد تحصیل صادق آباد کے کچہ ایریا میں لانچ کیا گیا آپریشن بھی ڈرامہ نکلا ، لرزہ خیز قتل وغارت کے اس واقعے کو گذرے ڈیڑھ ہفتہ ہو گیا ہے لیکن اندھڑ گینگ کے ایک بھی ڈاکو یا اْس کے کسی سہولت کار کو تاحال گرفتار کر کے میڈیا کے سامنے نہیں لایا گیا ، ڈی ایس پی صادق آباد شہنشاہ احمد خان چانڈیہ ا?ف دی ریکارڈ گفتگو میں یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ اندھڑ گینگ کے 23 سہولت کاروں کو حراست میں لیا جا چکا ہے، تاہم کسی بھی آزاد ذریعے سے اس کی تصدیق نہیں ہوسکی۔ تھانہ بھونگ اور تھانہ کوٹ سبزل پولیس کے حوالے سے یہ شکایات سامنے آ رہی ہیں کہ پولیس نے بھونگ مندر حملہ کیس کی طرح سانحہ ماہی چوک کو بھی کمائی کا ذریعہ بنا لیا ہے اور مبینہ سہولت کار قرار دے کر غیر قانونی حراست میں لیئے جانے والے افراد کو مک مکا کے بعد چھوڑ دیا جاتا ہے ، مزید تشویشناک صورتحال یہ ہے کہ ضلع رحیم یارخان کے کچہ اور پکا دونوں ایریاز کے دیہی علاقوں میں موٹرسائیکل چوری وڈکیتی اور راہزنی کی وارداتیں بہت بڑھ گئی ہیں ، ذرائع کا کہنا ہے کہ ضلع رحیم یارخان کے انتہائی بااثر تاجروں و صنعتکاروں کے سلیپنگ بزنس پارٹنرز کہلانے والے بااثر انسپکٹروں اور ڈی ایس پیز کے 2 گروپوں کی آپس کی ‘‘کاروباری چپقلش’’ ہر نئے ا?نے والے ڈی پی او اور ایس پی انویسٹی گیشن کیلئے درد سر بنی رہی ہے ، ان حاضر سروس اور ریٹائرڈ پولیس افسران کی کھاد ، بیج اور پیسٹی سائیڈز کے بزنس سے لے کر پراپرٹی ، ہائوسنگ اسکیموں ، فلور ملز ، آٹے و گندم کی اسمگلنگ و ذخیرہ اندوزی اور ایرانی تیل جیسے انتہائی منافع بخش ‘‘کاروباروں’’ میں مجموعی طور پر اربوں روپے کی انویسٹمنٹ ہے ، 5 سال قبل اندھڑ گینگ کے ارکان کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت اور پھر پولیس اہلکار ممتاز بلا کے قتل سے شروع ہو کر سانحہ ماہی چوک تک پہنچنے والی لرزہ ِخیز کرائم اسٹوری میں ایک اہم وجہ کھاد ، سیڈ ، پیسٹی سائیڈز ، ایرانی تیل اور آٹے وگندم کی اسمگلنگ کے دھندے میں جاری کاروباری رقابت بھی بتائی جاتی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نودولتیوں کے سلیپنگ بزنس پارٹنرز بننے کی وجہ سے ضلع رحیم یارخان کی پولیس جب سے 2 گروپوں میں بٹی ہے ، آپس کی اس چپقلش کی وجہ سے جرائم پیشہ افراد ، رسہ گیروں ، بااثر تاجروں اور صنعتکاروں کی موج لگی ہوئی ہے ، ذرائع کا کہنا ہے کہ دریائے سندھ کے کچہ ایریا کے ساتھ ساتھ پکا ایریا کے چولستانی چکوک کے بااثر رسہ گیروں کے ڈیروں پر پنجاب اور سندھ کے مختلف علاقوں سے آکر خطرناک اشتہاری کئی کئی ہفتے مقیم رہتے ہیں اور ڈکیتی و راہزنی کی وارداتیں کرنے کے بعد غائب ہو جاتے ہیں ، شہری علاقوں میں ہونے والی اکثر وارداتوں میں پکا ایریا کے رسہ گیروں کا یہی نیٹ ورک بہت بڑے پیمانے پر ملوث ہے کیونکہ یہ علاقے شہری ایریازسے متصل ہیں اور واردات کے بعد غائب ہوجانا آسان ہے ، ذرائع کا کہنا ہے کہ رحیم یارخان شہر میں عباسیہ ٹائون ، گلشن عثمان ، محلہ کانجواں ، گلشن اقبال ، بھٹہ کالونی ، نوریوالی اڈہ گلمرگ ، شاہنواز کالونی ، نیازی کالونی ، دڑی سانگی ، بستی کمہاراں اور تھلی مہاتما کے علاقے اشتہاریوں ، رسہ گیروں ، منشیات فروشوں اور جوئے کے اڈوں کی
آماجگاہ بنے ہوئے ہیں ، پکے کے علاقے میں اشتہاریوں اور جرائم پیشہ گروپوں کی سب سے بڑی پناہ گاہ چک 123 میں ایک بدنام سیاسی گروپ کے ڈیرے پر کئی عشروں سے موجود ہے لیکن بااثر سیاستدانوں کیلئے قبضہ گروپ ونگاریں دینے اور کرپٹ پولیس افسران کے ساتھ مبینہ گٹھ جوڑ کی وجہ سے اس بین الصوبائی بڑے جرائم پیشہ گروپ کیخلاف کبھی کوئی موثر کارروائی نہیں کی گئی ، قبضہ گروپ سرگرمیوں ، ناجائز اسلحہ اور قتل جیسی کئی سنگین وارداتوں میں ملوث رہنے والے اس گروپ نے محلہ کانجواں ، بنگلہ منٹھار ، فیروزہ ، بہاولنگر ، گھوٹکی اور کشمور کے کئی علاقوں میں بھی خفیہ ٹھکانوں کا مبینہ نیٹ ورک قائم کر رکھا ہے ، ذرائع کا کہنا ہے کہ ایسے ہی کئی گروپ تحصیل صادق ا?باد میں بھی سرگرم ہیں ، ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ کم و بیش تمام جرائم پیشہ گروپوں میں شامل نوجوانوں کی بڑی تعداد مسلم لیگ ن ، پاکستان پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف سمیت مختلف دینی و سیاسی جماعتوں کے یوتھ ونگز اور اسٹوڈنٹس ونگز میں بھی گھسی ہوئی ہے اس لیئے انہیں مسلسل سیاسی سرپرستی بھی حاصل رہتی ہے ، ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے پکا ایریا کے یہ جرائم پیشہ گینگز سیاسی و دیگر بااثر شخصیات کے ہائوسنگ اسکیموں کے بزنس چلانے میں بھی کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں ، پراپرٹی کے اس انتہائی منافع بخش دھندے میں بعض بااثر پولیس افسران نے بھی کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کر رکھی جس کی وجہ سے پکا ایریا کے بہت سے قبضہ گروپوں میں شامل جرائم پیشہ افراد کو محکمہ پولیس اور سیاسی جماعتوں کی ڈبل ڈیفینس شیلڈ حاصل ہے۔ نئے ڈی پی او کیپٹن ریٹائرڈ محمد علی ضیا اور نئے ایس پی انویسٹی گیشن کیپٹن ریٹائرڈ دوست محمد جب تک ضلع رحیم یارخان کے سابق و موجودہ پولیس افسران کی آٹا ، گندم ، پراپرٹی ، ایرانی تیل ، کھاد ، بیج ، پیسٹی سائیڈ وغیرہ کے بزنسز میں مبینہ ‘‘شراکت داریوں’’ کی تفصیلی انکوائری کروا کر اپنے محکمے کی ‘‘صفائی’’ نہیں کرتے منظم جرائم کے اس سلسلے کو مستقل بنیادوں پر روکنا اْن کیلئے چیلنج ہی بنا رہے گا ۔