وزیر خزانہ آئی ایم ایف
بجلی اور گیس کی قیمتوں میں تیز رفتار اضافے کے ساتھ ساتھ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں پر اب ایک ماہ کے بجائے 15 دنوں کے بعد نظرثانی ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے قیمتوں اور تنخواہوں اور اجرتوں میں بھی تال میل پیدا کرنے کیلئے 15 دنوں کے بعد نظرثانی ہونی چاہیے۔ عوام کو مہینے میں دو بار مہنگائی کے جھٹکوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عوام کو مہنگائی سے بچانا ہے تو سرکار ان پر زرتلافی یا سبسڈی دینے کا فیصلہ کرلے۔ آئی ایم ایف ہی ہمارا وزیر خزانہ ہے اس لئے کہ اصل وزیر خزانہ اسی کے ماتحت اور اسی کی ہاں میں ہاں ملاتا ہے۔ آئی ایم ایف کا مطالبہ ہے کہ نہ صرف بجلی گیس پٹرول وغیرہ کے نرخ بڑھائے جائیں بلکہ ٹیکسوں کی شرح میں بھی اضافہ کیا جائے۔ کیا شوکت ترین میں اتنی سکت ہے کہ آقا کے مطالبے کو مسترد کر دے یا پھر جیسے سلامتی کونسل میں بھٹو قرارداد کو پھاڑ کر یواین او کے ہال سے نکل گئے تھے ، ویسے دلیر بنیں لیکن بعدازاں بھٹو کا انجام امریکیوں کے ہاتھوں دنیا نے دیکھا۔ انہیں قاتل کی کال کوٹھڑی میں بٹھایا اور لٹایا اور پھر لٹکایا گیا۔ بھٹو نے راولپنڈی کے راجہ بازار میں امریکہ کو سفید ہاتھی کہہ کر للکارا تھا۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک آزاد اور خودمختار ادارے نہیں‘ امریکہ کے تابع فرمان ہیں۔ طالبان کے اقتدار کی واپسی کے بعد سے امریکہ کا مزاج ہم سے بھی بگڑا ہوا ہے۔ ہم طالبان کی غیرمعمولی ترجمانی کر رہے ہیں۔ طالبان سے دو ہاتھ آگے داعش ہے جس نے قندوز کی شیعہ جامع مسجد میں سینکڑوں نمازیوں کا خون بہا دیا۔
شوکت ترین کو آئی ایم ایف نے کمرۂ امتحان میں بٹھا دیا ہے۔ انکے پیشرو وزرائے خزانہ آئی ایم ایف کا پیپر کوالیفائی نہ کر سکے اور گھر بھیجے گئے۔ آئی ایم ایف کے امتحان میں سپلیمنٹری امتحان کا کوئی تصور نہیں۔ یہ ای کیٹ اور ایم کیٹ کی طرح انٹری ٹیسٹ ہوتا ہے۔ جواب ہاں یا ناں میں ہوتا ہے۔ شوکت ترین آئی ایم ایف کے اہداف حاصل کرنے کی حکمت عملی تیار نہ کر سکے۔ ایک ہی بات کی رٹ لگائی جاتی ہے‘ وہ ہے ٹیکس‘ ٹیکس اور ٹیکس۔ پٹرول خوردنی تیل اور ادویات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ اعلیٰ درجے کے ڈاکٹروں کے کلینکس تک غریبوں کی رسائی کہاں۔ غریبوں کو گھیرنے کیلئے ملک کے طول و عرض میں عطائیت اور عطائیوں کا جال پھیلا ہوا ہے۔ ان بے رحم ہاتھوں سے مریض مریض تر ہو رہے ہیں۔ ریلوے سٹیشن کے باہر فٹ پاتھ پر دانت نکالنے والے بیٹھے ہیں۔ یہ بھی بدترین جہالت اور بے رحمی ہے۔ گزشتہ مالی سال میں پاکستان کے درآمدی بل دو ارب ڈالر کا تقریباً تین چوتھائی گاڑیاں درآمد کرنے کی نذر ہو گیا۔ 10513 گاڑیاں درآمد کی گئی۔ جولائی اگست میں تجارتی خسارہ انتہائی تشویشناک حد تک 120 فیصد رہا جبکہ ان دو مہینوں میں برآمدات کی مجموعی مالیت درآمدات کے ساتھ ارب 49 کروڑ ڈالر کے مقابلے میں محض چار ارب 57 کروڑ 30 لاکھ ڈالر رہی۔ کس کس چیز پر ریگولیٹری ڈیوٹی لگائی جائیگی؟ آئی ایم ایف کی جی حضوری کی صورت میں گروتھ ریٹ چار فیصد تک ہو سکتا ہے۔ موجودہ سال چینی کی پیداواری لاگت 104 روپے تھی جبکہ حکومت نے 84.75 روپے مقرر کی۔ کرشنگ سیزن کا آغاز نہ کرنے پر یومیہ پچاس لاکھ روپے جرمانہ اور کسانوں کو پندرہ دن میں ادائیگی نہ کرنے پر فوجداری مقدمات کا سامنا کرنا پڑیگا۔
آئی ایم ایف نے پاکستان میں مہنگائی‘ بے روزگاری کم اور کرنٹ اکائونٹ خسارہ بڑھنے کی پیش گوئی کر دی۔ مہنگائی کی شرح رواں سال 8.9 آئندہ سال 8.5 فیصد متوقع‘ بے روزگاری کی شرح پانچ فیصد سے کم ہو کر آئندہ سال 4.8 فیصد ہو جائیگی۔ کرنٹ اکائونٹ خسارہ جی ڈی پی کے 3.1 فیصد پر چلا جائیگا۔ ڈالر 171.10 روپے کی بلند سطح پر ہے۔ ایل این جی بھی مہنگی کر دی گئی۔ آئی ایم ایف نے چھ ارب ڈالر پیکیج جاری کرنے کیلئے سخت شرائط رکھ دیں۔ عوام گیس کا تاریخ ساز بحران دیکھنے کیلئے تیار رہیں۔ قدرتی گیس آئندہ ماہ سے مارچ 2022ء تک آل ٹائم ریکارڈ مہنگی اور کمیاب رہے گی۔ عالمی منڈی میں گیس کی قیمت 19 سے بڑھ کر 30 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو ہو گئی۔ سردیوں کیلئے گیس مینجمنٹ پلان کو حتمی شکل دے دی گئی۔ پہلے سے ایل این جی کے سودے طے کیوں نہیں کرتے۔ گردشی قرضہ 104 ارب رواں سال 90 فیصد اضافے کا امکان ہے۔ 18 بڑے شہروں میں پراپرٹی قیمتیں مارکیٹ کے مطابق بڑھانے کا حکم دیا گیا ہے۔ ایف بی آر کا قیمتوں کا جدول مارکیٹ ریٹ کے 70 فیصد تک قریب ہے۔ سٹاک مارکیٹ آسمانی جھولا جھول رہی ہے۔ پوائنٹس کا اتار چڑھائو معمول ہے۔ (جاری)
سردیوں کے موسم میں گیس کی لوڈشیڈنگ معمول بن چکی ہے۔ رسد بڑھانے کی بجائے حکومت نے پندرہ گھنٹے کی طویل لوڈشیڈنگ کا فیصلہ کیا ہے۔ صارفین کو 24 گھنٹوں کے دوران صرف 9 گھنٹے گیس دستیاب ہوگی۔ گیس کم ہونے کی وجہ سے ایل این جی کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ لکڑی یا کوئلے کے استعمال سے شہری علاقوں میں کھانا پکانا آسان نہیں۔ ایل پی جی سلنڈر عوام کے بجٹ سے باہر ہوتے ہیں۔ حکومت کو مزید سستی ایل این جی سسٹم میں شامل کرنا ہوگی۔
وزیر قانون کے نزدیک کوئی اچھی کارکردگی دکھائے تو دوبارہ کیوں نہیں لگایا جائے۔ اس سوچ اور معیار کو درست مان لیا جائے تو ہر سرکاری ملازم کو اچھی کارکردگی پر ریٹائرمنٹ کے بعد اسی پوسٹ پر دوبارہ کیوں نہیں لگایا جاتا۔ بڑے اعلیٰ پرنسپل‘ وائس چانسلر‘ ڈاکٹر‘ ہیڈماسٹر بھی تو دوبارہ لگائے جا سکتے ہیں لیکن اس سوچ کے برعکس بات یہ ہے کہ قطار میں کھڑے سرکاری ملازم اپنا آئینی قانونی حق کیسے حاصل کر پائیں گے اس لئے ان کے آگے جب دیوار کھڑی کر دی جائیگی تو وہ جہاں تھے وہیں رہیں گے۔ پرنسپل کو دوبارہ پرنسپل لگانے سے وائس پرنسپل دل میں حسرت لئے ریٹائر ہو جائیگا ۔ملازمتوں میں توسیع دینا شاہانہ اختیارات کی غمازی کرتا ہے۔ دوسری جانب حکومت مہنگائی کنٹرول اور عوامی ریلیف کیلئے سنجیدہ منصوبہ بندی میں مصروف ہے۔ بلاول بھٹو زرداری پنجاب میں پارٹی کو مضبوط بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ مگر ابھی تک انہیں سنٹرل پنجاب میں وہ کامیابی نہیں ملی کہ تنہاء حکومت بنا سکیں۔ ان لیگ کا ایک بڑا گروپ چودھری نثار علی خان کی قیادت میں پی ٹی آئی میں شمولیت کا جائزہ لے رہاہے۔ آئندہ انتخابات میں سیاسی جماعتوں کو ٹکٹوں کی تقسیم میں شدیدمشکلات کا سامنا کرنا پڑیگا۔
ن لیگ کب تک مفاہمتی اور مزاحمتی بیانیے کے چکر میں پڑی رہے گی۔ نوازشریف‘ شہبازشیریف‘ مریم نواز اور حمزہ شہباز کی دوڑ اقتدار کی کرسیوں پر براجمان ہونا ہے۔ ن لیگ میں کوئی مائی کا لال میاں نوازشریف کو مائنس نہیں کر سکتا۔ پی ڈی ایم ایک عرصے کے بعد متحرک اور فعال ہو گئی ہے۔ نوازشریف اور انکے بیانیے کی طاقت اور جاذبیت سے کسی کو انکار نہیں۔ پانی اور گندم سمیت کئی مسائل پر وفاق اور سندھ حکومت آمنے سامنے ہیں۔ بلوچستان میں سیاسی بحران اپنوں کا پیدا کردہ ہے جس پر وزیراعلیٰ جام کمال ڈٹ گئے ہیں۔ شاہ محمود قریشی ملتان کی گلیوں کے چکر ضرور لگائیں لیکن عوام کی مشکلات بھی سنیں۔