انقلاب فرانس کا سبق
لوگوں کے پاس کھانے کو’’ روٹی ‘‘ نہیں ہے تو وہ ’’کیک ‘‘کھا لیں ، یہ بدترین تاریخی جْملہ فرانس کی آخری ملکہ ’’ میری انٹونیٹ ‘‘ نے بھْوک سے مرتے اپنے عوام کے لیے ادا کیا تھا جو فرانس کی ہزار سالہ بادشاہت کے خاتمے کا باعث بن گئی تھی۔ آج سے تقریبا" 2 سو اٹھایس سال پہلے 16 اکتوبر 1793ء میں اْس ملکہ کو عوامی انقلاب کے بعد اذیت ناک پھانسی سے دوچار ہونا پڑا تھا۔
1700عیسوی دْنیا میں بظاہر تو انقلابات کی صدی تھی لیکن تمام جغرافیائی انقلابات کی جڑ درحقیت انسانی تحریکوں کے انقلابات کی تاریخ سے جْڑی ہوتی ہے۔ اْسی سترھویں صدی میں سلطنت برطانیہ میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا کیونکہ 1757ء میں بنگال پر قبضے کے بعد برصغیر میں مْغلیہ سلطنت ختم کر کے برطانیہ تقریبا" ہندوستان پر قابض ہو چکا تھا۔ 1776ء میں امریکہ کے اندر اِس بنیاد پر برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کی تحریک اْٹھی کہ۔۔ برطانیہ برصغیر کی جنگوں کے اخراجات امریکی ریاستوں پر ٹیکس عائد کر کے حاصل کر رہا ہے۔ 1778ئ میں فرانس نے اِس تحریک میں برطانیہ کے خلاف امریکہ کا ساتھ دیا اور 1781ء میں برطانیہ، امریکہ میں شکست سے دوچار ہو گیا امریکہ کی برطانیہ سے آزادی کی اس جنگ کے مذاکرات 1782ء میں فرانس نے پیرس میں کرائے اور 1783ء میں برطانیہ نے امریکہ کی آزادی تسلیم کر لی۔
وہ فرانس جو اتنا مضبوط تھا کہ امریکہ کی آزادی کے لیے برطانیہ جیسی سْپر پاور سے ٹکرایا۔۔۔ 1792ء میں اْس کی ہزار سالہ بادشاہت کا خاتمہ اِسی نااہل ملکہ ’’ میری انٹونیت ‘‘ کے باعث ہوا۔ یہ ملکہ ، آسٹریا کے رومن شہنشاہ فرانسس اول اور ملکہ ماریہ تھریسا کی بیٹی تھی جو 2 نومبر 1755ء میں آسٹریا میں پیدا ہوئی جسے آسٹریا کے استحکام کے لیے پندرہ سال کی عمر میں 1770ء میں فرانس کے ولی عہد لوئی چارلس سے بیاہ دیا گیا چار سال بعد لوئی فرانس کا بادشاہ اور یہ ملکہ بن گئی۔۔۔ وہیں سے فرانس اور اہل فرانس کا زوال شروع ہوا ۔بادشاہ کمزور انسان تھا اور ملکہ اْس پر حاوی ؛ اْس کی عیاشانہ طبعیت اور شاہانہ اخراجات کے باعث فرانس بیرونی قرضوں میں جکڑنے کے بعد اپنے عوام پر ٹیکس در ٹیکس لگاتا چلا گیا۔۔ ملک کے اندر غذائی قلت اس حد تک چلی گئی کہ عوام کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہ رہی۔ فرانس کی قومی اسمبلی نے مہنگائی کے خلاف اصلاحات پیش کیں جنہیں ملکہ نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور بادشاہ کو عوام کے خلاف فوجی جارحیت پر اْکسایا لیکن کمزور بادشاہ یہ نہ کر سکا۔۔ اس کے بعد انقلاب فرانس شروع ہوا پورا ملک فسادات کی لپیٹ میں آ گیا آخری وقت میں یہ ملکہ اپنے خاوند اور بچوں سمیت اپنے آبائی ملک آسٹریا فرار ہو رہی تھی جسے راستے میں پکڑ لیا گیا بادشاہ کی گردن اْڑا دی گئی اور ملکہ کے خلاف بے جا اخراجات کا مقدمہ چلا عدالت نے اِسے موت کی سزا دی۔۔ 16 اکتوبر 1793ء میں جلاد نے بے رحمی سے اِس ملکہ کی وہ گردن اْڑا دی جس کے سر پر وہ بالوں کا چار فٹ لمبا جوڑا بناتی تھی۔ فرانسیسوں نے اِسے خسارے کی ملکہ کا خطاب بھی دے رکھا تھا۔
اس ملکہ نے آسٹریا میں اپنے جو جواہرات منتقل کئے تھے چار سال قبل سوٹیزر لینڈ کے شہر جینوا میں نیلانی کے دوران وہ چھ کروڑ ڈالر سے زائد میں فروخت ہوئے۔۔ وہ ملکہ تو اپنے انجام کو پْہنچی لیکن ساتھ ساتھ ہزار سالہ فرانسیسی بادشاہت کے خاتمے کا باعث بھی بن گئی۔ جن ملکوں نے اِن انقلابات سے سبق سیکھا اور ٹیکس لگانے سے قبل عوام کو روزگار فراہم کئے آج وہ معاشی تائیکون اور اْن کی عوام خوشحال ہیں۔
سترھویں صدی عیسوی میں شروع ہوئے انقلابات اْنیسویں صدی عیسوی تک روس ، چین اور ہندوستان میں جاری رہے۔ 1900ء میں روس کا انقلاب زار ہوا ہندوستان نے بھی برطانیہ سے 1947ء میں آزادی حاصل کی بھارت اور پاکستان دو الگ الگ ملک بن گئے جو آپس میں جنگیں کرتے آج اس مقام پر ہیں کہ اب بھوک سے لڑتے ہیں ، دنیا بھر میں گلوبل انڈیکس 2021ء کی حالیہ ماہ میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق بھوک سے متاثر 116 ممالک میں پاکستان کا نمبر 92 بنگلہ دیش کا 76 اور انڈیا کا 94 سے بڑھ کر 101 ہو گیا ہے۔ اسی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اْن 47 ممالک میں شامل ہے جو 2030 ء تک شدید غذائی کمی سے دوچار ہو سکتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کی بھی چھ ماہ قبل جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق پاکستان مختلف بیماریوں کی فہرست میں 190 ممالک میں 122 ویں نمبر پر آ گیا ہے رپورٹ کے مطابق پاکستان کے 60 ملین افراد غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں جو معاشی ناہمواری اور کم وسائل کے باعث اپنی بنیادی طبی ضروریات کو پورا نہیں کر سکتے۔ دنیا میں عدالتی نظام کی عالمی رینکینگ کے تحت بھی پاکستان 128 ملکوں میں 120 ویں نمبر پر ہے !!!
جبکہ ہمارے نبی آخرالزمان نے سادگی، مساوات ، بھائی چارے اور برابری کا جو عملی درس دیا تھا اْسے ہم کہیں فراموش کر چکے ہیںاور جشن میلادالنبیؐ مناتے ہوئے بھی ہم نے چین سے خریدی گئی عارضی لائٹوں کے کنٹینرز کی قیمت کروڑوں میں ادا کی۔ اگر اِن عارضی روشنیوں کی بجائے ہم یہ کروڑوں روپے اسلامی مساوات اور بھائی چارے پر خرچ کرتے تو مہنگائی کے مارے لاکھوں مسلمان گھرانے عملی طور پر روشن ہو سکتے تھے اگر یہ کرنے کا بھی حوصلہ نہیں اور اللہ نے اتنا دیا ہے کہ عشق مصطفی ؐ میں اپنے گھر روشن کرنے کے ساتھ ساتھ آپ دوسروں کا خیال بھی رکھتیں۔ تو کیا ملک بھر میں اپنے گھروں پر سینکڑوں روشن لڑیاں سجاتے ہوئے کسی کو یہ خیال بھی آیا کہ دس بیس لڑیاں گلی محلے کے اْن گھروں پر بھی لگوا دیں جو یہ نہیں لگوا سکے تاکہ پورا ماحول ہی جگمگانے لگے۔