اقتدار کی لکیر
مکرمی! مولانا کا دھرنا اور موجودہ حکومت کا اس پر مذاکرات کا فیصلہ اچھی بات ہے جمہوریت میں عوام کو پرامن طور پر احتجاج کا حق حاصل ہے۔ مولانا کی مثال اس بیٹری پہلوان کی سی ہے جو کشتی لڑنے سے پہلے جسم پر بیٹری لگا لیتا اور جونہی اس کو مدمقابل پہلوان پکڑتا تو کرنٹ کھا کر پیچھے گر جاتا۔ مولانا جب کشمیر کمیٹی کے چیئرمین تھے اس وقت تو ان کو آزادی مارچ کا خیال نہ تھا۔ مولانا کے ہم خیال جماعتوں کو ماضی سے سبق سیکھنا ہو گا۔ ان لوگوں کو چاہئے کہ پرائیویٹ سیکٹر کو مراعات اور تاجروں کے جائز مطالبات منوانے کے لیے دھرنا دیں تو شاید ان کے ہاتھ میں اقتدار کی لکیر بن سکے مگر ایسا لگتا نہیں ہے۔ (ڈاکٹر مٹھو بھائی نت کلاں گکھڑ)