فریقین کے پیش نظر رہے: احتجاج جمہوری حق ہے جس کا پر امن ہونا شرط ہے
جے یو آئی کا مذاکرات کے لیے وزیراعظم کے استعفیٰ کی شرط کا اعادہ، انتشار کی صورت میں سخت کارروائی کا حکومتی فیصلہ
وزیر دفاع اور اپوزیشن جماعتوں سے مذاکرات کے لیے بنائی گئی حکومتی کمیٹی کے سربراہ پرویز خٹک نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کا استعفیٰ ناممکن سی بات ہے، اس کا مطلب ہے کہ وہ چڑھائی کرنا چاہتے ہیں، جب ہم نے اسلام آباد کی طرف مارچ کیا تھا تو ہمارے پاس ایک موقف تھا ایسے ہی ہم نے مارچ نہیں کردیا تھا، گذشتہ روز اسلام آباد میں وفاقی وزیر اور مذاکراتی ٹیم کے ممبرشفقت محمود کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم تمام اپوزیشن جماعتوں سے درخواست کر رہے ہیں کہ آکر بات کریں، ملک میں جمہوریت ہے جب میز پر بیٹھیں گے تو بات ہوگی تاہم اگر اپنے مطالبات سامنے نہیں لائیں گے تو پھر افراتفری ہوگی۔ ملک کو نقصان پہنچے گا، تو پھر ذمہ داری اْن پر ہے اس کے بعد حکومت نے آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرنے ہیں۔ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا اگر کوئی بات ہی نہیں کرتا تو اس کا مطلب اور ایجنڈا کچھ اور ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت یہ دیکھا جائے کہ ملک کے حالات کیسے ہیں، کشمیر کا معاملہ سب کے سامنے ہے لیکن اس وجہ سے کشمیر کا معاملہ پیچھے چلا گیا ہے ، لگتا ہے کشمیر کے معاملے کو دبانے کے لیے یہ ایجنڈا بنایا گیا ہے، ہم نے پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن)، جمعیت علمائے اسلام، عوامی نیشنل پارٹی کے سینئر رہنماؤں سے بات کی اور انہیں اپنا پیغام پہنچایا کہ آکر بات کریں اور مجھے امید ہے کہ جو بھی معاملہ ہوگا بیٹھ کر بات کی جائے گی۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اگر بھارتی ٹی وی چینلز دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ ان کے ایجنڈے پر کام ہو رہا ہے اور پاکستان میں افراتفری پھیل گئی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن کو پاکستان کے لیے سوچنا چاہیے، اگر ان کا ایجنڈا پاکستان اور پاکستان سے محبت ہے تو پھر بیٹھ کر بات کرنی پڑے گی۔ دوسری طرف حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے رکن اور چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے جے یو آئی ف کے رہنما مولانا عبدالغفور حیدری سے پہلا باضابطہ رابطہ کر لیا۔ اس حوالے سے عبدالغفور حیدری نے بتایا کہ حکومت مذاکرات کرنا چاہتی ہے تو دروازے کھلے ہیں۔ صادق سنجرانی پر واضح کر دیا کہ ہمارا مؤقف کلیئر ہے کہ وزیراعظم کے استعفے کے بعد ہی باضابطہ مذاکرات ہوں گے۔دریں اثناء وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ بھارت عالمی برادری کی کشمیر سے توجہ ہٹانے کے لیے پاکستان میں شوشہ چھوڑنا چاہتا ہے۔ پاکستان میں سیاسی حالات خراب ہونے پر بھارت میں خوشی کی لہر ہے۔ دہلی سمجھتا ہے کہ پاکستان اگر اپنے اندرونی مسائل میں الجھتا ہے تو انکی کشمیر پر سے توجہ ہٹ جائے گی، ہماری گزارش ہوگی کہ مارچ والے بھی کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں جس سے پاکستان کے مخالفوں کو تقویت ملے۔ آزادی مارچ والوں سے ایسے نمٹیں گے جیسے جمہوریت میں نمٹا جاتا ہے۔ کوشش ہوگی کی کہ مارچ والے اپنا اظہار پرامن انداز میں کریں، لیکن ڈنڈا بردار فورسز کی آئین میں گنجائش نہیں۔ پاکستان میں جمہوریت کا مستقبل روشن ہے، پاکستان میں مارشل لاء کا کوئی چانس نہیں ہے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور اپوزیشن کو ملکی و عالمی حالات کا مکمل ادراک ہے۔ سیاست میں ہمیشہ مذاکرات کی گنجائش ہوتی ہے
یپمولانا فضل الرحمن کے گزشتہ سال 2018ء میں انتخابات کے نتائج پر شدید تحفظات تھے۔ ان انتخابات میں مولانا فضل الرحمن اپنی سیٹ بھی نہیں جیت پائے تھے۔ یہ وہ صوبہ ہے جہاں سے مولانا کئی بار انتخاب جیت چکے ہیں۔ 2002ء کے انتخابات کے نتیجے میں مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحد ہ مجلس عمل کی اس صوبہ میں حکومت تشکیل پائی تھی۔ مولانا قومی اسمبلی میں خود کو وزارت عظمیٰ کے امیدوار کے طور پر بھی پیش کیا تھا۔ اس اسمبلی میں تحریک انصاف کی محض ایک سیٹ تھی۔ عمران خان میانوالی سے جیتے تھے۔ رپورٹس کے مطابق عمران خان نے اپنا ووٹ مولانا کو دیا تھا جس پر مولانا نے ان کا شکریہ بھی ادا کیا۔ اس کے بعد دوریوں کا ایسا سفر شروع ہوا جو نفرتوں میں تبدیل ہو کر ذاتیات اور دشمنی کی حد تک چلا گیا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ مولانا ان کا نام تک سننا پسند نہیں کرتے۔ جمعیت العلمائے اسلام (ف) اور تحریک انصاف آج اُسی طرح سیاست میں دو انتہائوں پر نظر آتی ہیں جس طرح نوے کی دہائی میں مسلم لیگ ن میاں نواز شریف اور پی پی بینظیر بھٹو کی سربراہی میں تھیں اور دونوں کو دو دو بار اقتدار میں آنے کا موقع ملا اور وہ ایک بار بھی آئینی مدت عدم برداشت کے باعث مکمل نہیں کر سکی تھیں۔ مولانا فضل الرحمن نے 2018ء کے انتخابات کے فوری بعد نتائج کو مسترد کرتے ہوئے مسلم لیگ ن اور پی پی پی کی قیادتوں کو اسمبلی سے باہر رہنے کا پر زورمشورہ دیا مگر ان کی اس تجویز کی پذیرائی نہ ہو سکی۔ مسلم لیگ ن کو بھی انتخابی نتائج پر تحفظات تھے تاہم وہ جمہوری سفر میں رکاوٹ کی حامی نہیں تھی۔ پیپلز پارٹی سندھ میں کامیاب ٹھہری، اس نے بھی جمہوریت ہی میں سندھ حکومت کی بقا سمجھی اور کسی ایسی تجویز سے اتفاق نہ کیا جس سے اس کے سیاسی مفادات پر زد پڑے۔
تحریک انصاف 2018ء کے انتخابات میں سب سے بڑی پارٹی بن کر اُبھری تاہم تن تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں تھی ، وہ مسلم لیگ ن اور پی پی پی میں سے کسی کو بھی ساتھ ملا کر آسانی سے حکومت بنا سکتی تھی۔ پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ اس پر آمادہ بھی نظر آتی تھی۔ تحریک انصاف نے انہی دو پارٹیوں کے خلاف کرپشن کے الزامات لگائے اور کڑے احتساب کے وعدے اور دعوے کر کے کامیابی حاصل کی تھی ، اس لیے ان سے اتحاد کو شجرِ ممنوعہ قرار دیتے ہوئے چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائی۔ مسلم لیگ ن اور پی پی پی متحدہ ہو کر حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ سکتی تھیں مگر اُس موقع پر ان کے مابین اعتماد کا فقدان تھا لہٰذا عمران خان کو بطور وزیر اعظم ان کے دو مدِمقابل امیدواروں کے مقابلے میں 4 ووٹ زائد مل سکے۔ وزارت عظمیٰ کے انتخابات میں پی پی اور ن لیگ نے الگ الگ امیدوار کھڑے کئے تھے۔ آگے چل کر کرپشن کیسز میں مسلم لیگ ن اور پی پی کی اعلیٰ قیادتیں مل گئیں تو دونوں پارٹیوں میں اٹوٹ اتحاد نظر آنے لگا۔ اب دونوں حکومت کے خاتمے پر متفق ہیں مولانا فضل الرحمن کے لانگ مارچ کا بھی یہی بنیادی مقصد ہے مگر پی پی اور مسلم لیگ ن حکومت کے خاتمے کے لیے اس حد تک جانے پر آمادہ نہیں جس سے جمہوریت کو زد پہنچے جو ان کے سیاسی مفادات کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان سے دوچار کر دے۔
مولانا فضل الرحمن بہرحال اپنے مقاصد کے لیے کسی بھی حد تک جانے پر تیار نظر آتے ہیں۔ انہوں نے اس حوالے سے پوری تیاری کر رکھی ہے ان کی زیادہ سے زیادہ پارٹیوں کو ساتھ ملانے کی کوشش ہے۔ وہ اسلام آباد کو اس وقت تک لاک کرنے کا اعلان کر چکے تھے جب تک اپنا مقصد یعنی حکومت کو گرا اور وزیراعظم سے استعفیٰ حاصل نہ کر لیں تاہم اب وہ دھرنے کا فیصلہ واپس لے چکے ہیں ان کا پورا زور لانگ مارچ پر ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے انصار الاسلام فورس بھی تشکیل دی ہے۔ کچھ حلقوں کی نظر میں ایسی فورسز کی تشکیل ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں جانے سے بچنے کی پاکستانی کوششوں میں مشکل پیدا کر سکتی ہیں۔ پاکستان کی بھرپور کاوش اور فعال سفارتکاری سے آج کشمیر ایشو دنیا بھر میں اجاگر ہوا ہے۔ اندرون اور بیرون ممالک اس پر ہی عمومی بات ہوتی ہے۔ مولانا کے لانگ مارچ کی سرگرمیوں کے باعث مقامی میڈیا میں کشمیر ایشو اوجھل جبکہ لانگ مارچ نمایاں ہو رہا ہے۔ بھارت بھی اتفاق سے ایسا ہی چاہتا ہے۔ ایسا ہونے پر بھارت میں خوشی کا اظہار ہو رہا ہے۔ مولانا یقیناً بھارتی ایجنڈے پر کام نہیں کر رہے مگر بھارت پاکستان میں افراتفری کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
حکومتی حلقوں کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش کے ساتھ ساتھ دھمکیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے وزیر داخلہ اعجاز شاہ اور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے مابین ملاقات میں قانون ہاتھ میں لینے والوں کے خلاف سخت کارروائی پر اتفاق کیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ خیبر پی کے محمود خان نے بھی مارچ سے نمٹنے کے لئے کمیٹی بنا دی ہے۔ دوسری طرف مولانا عمران خان کے مستعفی ہونے کے بعد ہی مذاکرات کی بات کرتے ہیں۔ احتجاج بلاشبہ ایک جمہوری حق ہے جو پرامن سے بھی مشروط ہے۔ اول تو اپوزیشن کو مذاکرات کی میز پر آ کر اپنے تحفظات واضح کرنے چاہئیں اگر وہ اس پر تیار نہیں تو لانگ مارچ کے پرامن انعقاد پر بات چیت ضرور ہونی چاہئے۔ حکومت بہرصورت لانگ مارچ کو پرامن رکھنے کیلئے کوشاں ہے اس حوالے سے دھمکیوں کی ضرورت ہے نہ سخت اقدامات کی۔ لانگ مارچ میں مہنگائی اور بیروزگاری کے مارے لوگ بھی شامل ہو سکتے ہیں حکومت عوام کے ایک بڑے حصے کو ریلیف دیکر لانگ مارچ میں شرکت سے لاتعلق رکھ سکتی ہے۔