حافظ آباد اور جیکب آباد میں 8 نوزائیدہ بچوں کی ہلاکت
حافظ آباد کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں 4 نوزائیدہ اور جیکب آباد کے نجی کلینک میں بھی 4 نومولود بچے آکسیجن نہ ملنے سے دم توڑ گئے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے حافظ آباد کے واقعہ کا نوٹس لے لیا، ایم ایس کا مؤقف ہے کہ ہسپتال میں تین بچے قبل از وقت پیدائش اور ایک بہت کمزور ہونے کے باعث لایا گیا والدین کو چلڈرن ہسپتال لاہور لے جانے کا مشورہ دیا گیا مگر وہ نہ مانے ایم ایس کے مطابق کسی نے غفلت کی شکایت نہیں ، جیکب آباد کے نجی کلینک کی نرسری میں سرے سے کوئی ڈاکٹر ہی موجود نہ تھا۔ ورثاء کے اشتعال پر ایس پی نے کلینک سیل کر کے دو روز میں رپورٹ طلب کر لی۔
حافظ آباد کے سانحہ میں تحقیقات سے پہلے کوئی فیصلہ دینا درست نہیں ہو گا لیکن اگر ایس ایم کے مؤقف کو صحیح بھی مان لیا جائے تو بھی انسانی جان کو بچانے میں کوتاہی ضرور ہوئی ہے، ہو سکتا ہے کہ بچوں کے والدین، اُنہیں لاہور، چلڈرن ہسپتال لیجانے کی سکت نہ رکھتے ہوں، البتہ ایسے میں یہ ہو سکتا تھا کہ بچوں کو ضروری ابتدائی طبی امداد دینے کے فوری بعد ضلعی اور ہسپتال کی انتظامیہ مل کر اُنہیں لاہور پہنچانے کا بندوبست کرتے، جہاں تک ا یم ایس کا یہ کہنا ہے کہ اس کیس میں کسی نے شکایت نہیں کی تو شائد اُنہیں علم نہ ہو ایسے مواقع پر بے چارے بے بس اور بے وسائل لوگ ’’رضائے الٰہی ‘‘ کہہ کر خاموش ہو جاتے ہیں۔ حافظ آباد ضلع کا صدر مقام ہے اور قومی و صوبائی اسمبلی کے ارکان کا تعلق حکمران جماعت سے ہے انہیں کم از کم اتنا تو علم ہونا چاہئے کہ اگر کوئی غریب ، غربت کے باعث زندگی کی بازی ہار رہا ہے تو اُسے بے چارگی کی موت نہیں مرنے دینا چاہئے تھا۔ صوبائی وزیر صحت کو بھی اس صورتِ حال کا نوٹس لینا چاہئے اور کم از کم ڈی ایچ کیو سطح کے ہسپتالوں کو تمام جدید سہولتوں سے لیس ہونا چاہئے۔ جیکب آباد کے علاقے ٹھل میں تو نجی عملے کی غفلت کی انتہا ہو گئی۔ چاروں نومولود انکیوبیٹر میں تھے۔ آکسیجن ختم ہونے پر دوسرا آکسیجن سلنڈر لگا رہے تھے کہ بچے انتقال کر گئے۔ نومولود بچوں کے انتقال پر ورثا سراپا احتجاج ہو گئے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پہلا سلنڈر ختم ہو گیا جس کا تاخیر سے نوٹس لیا گیااور پھر دوسرا سلنڈر لانے اور لگانے میں کافی وقت لگا، جن کی زندگی کا دار ومدار آکسیجن پر تھا، وہ اتنی تاخیر کیسے برداشت کر سکتے تھے، چنانچہ یہی ہونا تھا جو ہوگیا یہ دونوں المناک واقعات کوئی پہلی دفعہ نہیں ہوئے ماضی میں بھی ملک کے مختلف علاقوں میں ایسے واقعات ہو چکے ہیں جن کی انکوائریاں بھی ہوئیں لیکن بنیادی خرابیوں کو دور نہیں کیا جا سکا۔ آٹھ بچوں کا ہسپتال اور کلینک میں جاں بحق ہونا انتظامیہ ، صوبائی وزارتِ صحت اور عوامی نمائندوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔