اتوار‘ 21؍ صفرالمظفر 1441ھ ‘ 21 ؍ اکتوبر 2019 ء
کراچی میں کتوںکے کاٹنے سے 21 افراد زخمی
پہلے سے آدم گزیدہ اس شہر نارسا میں اب سگ گزیدہ افراد کی بھی کثرت ہو گئی ہے۔ معلوم نہیں لوگ حکومت پر کیوں انحصار کرتے ہیں ازخود ان آوارہ کتوں کو مار کیوں نہیں دیتے جن کے کاٹنے کی وجہ سے بچے ، مرد عورتیں سسک سک کر مرتے ہیں۔ اگر کتے مارنے کا کام حکومت پر چھوڑا تو کچھ نہیں ہو گا۔ کراچی کے عوام کو خود آگے بڑھ کر ان کتوں سے نجات حاصل کرنا ہو گی۔ ورنہ کئی بچے مائوں کی گود میں تڑپتے تڑپتے دم توڑتے رہیں گے۔ اگر حکومت کے بلدیاتی ادارے کام کرتے تو یوں گلی کوچوں میں کچرا کنڈیوں میں کتوں کی یہ فوج ظفر موج انسانوں کو نشانہ بنانے کی جرأت نہ کرتی۔ مگر سب دیکھ رہے ہیں کیا ہو رہا ہے۔ ویسے کراچی والوں نے بھی کیا قسمت پائی ہے۔ برسوں ہو گئے انہیں دہشت گردوں سے بچتے ہیں تو بھتہ خور ان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ان سے بچتے ہیں تو ڈاکو اور چور انہیں گھروں گلیوں بازاروں میں دھر لیتے ہیں۔ ان سے خدا خدا کر کے جان چھوٹتی ہے تو یہ سگان آوارہ ان پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ کراچی کیا پورے ملک میں سگ گزیدگی کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ چھوٹے شہر اور دیہات تو کیا بڑے شہروں میں کتے کاٹے کی ویکسین دستیاب نہیں۔ پرائیویٹ مہنگا علاج کرانے کی سکت اب کسی میں نہیں رہی تو سوائے تڑپ تڑپ کے مرنے کے اور کیا ہو سکتا ہے۔ احتجاج کریں تو وہاں حکمرانوں کے ماتھے پر شکن پڑتی ہے کہ یہ جرأت کیوں کی۔ ان کی جھوٹی ترقی و خوشحالی کے چہرے سے پردہ کیوں اٹھایا۔
٭٭٭٭٭
مودی سے کہوں گی گائے نہیں خواتین کے مسائل پر توجہ دیں۔ مس کوہیما
بڑی باہمت ہیں مقابلہ حسن میں شرکت کرنے والی یہ دوشیزہ مس کوہیما جس نے نئی دہلی بھارت کی راجدھانی میں مقابلہ حسن کے ججوں کے سوال پر کہ ’’اگر وہ وزیر اعظم مودی سے ملیں تو کیا کہیں گی‘‘ کا ایسا برجستہ جواب جس پر ہال تالیوں سے گونج اُٹھا۔ بھارتی وزیر اعظم کو اس سے زیادہ انکا اصل چہرہ اور کون دکھا سکتا ہے۔ بھارت کے بڑے بڑے دانشور مذہبی سکالر جو دن رات ناری کی صفات بیان کرتے ہوئے ہندو دھرم کو عورتوں کا سب سے زیادہ محسن اور دوست قرار دیتے ہیں اسی بھارت ورش میں آج نہیں صدیوں سے عورتوں کی سب سے زیادہ توہین ہوتی آئی ہے۔ ہندو عیاش راجے مہاراجے اپنے راج کی حسین لڑکیوں کو زبردستی اٹھا کر اپنے محل میں داسیاں بنا کر رکھتے تھے انہیں عیاشی کے لیے استعمال کرتے تھے۔ اگر ہندو دھرم میں عورتوں کی عزت و حرمت کا درس ملتا تو یہ ایک پتی پتنی کے مذہبی فلسفے کے پرچار کر کس طرح سینکڑوں عورتوں کو اپنے محل میں داسی بنا رکھتے اور ان کا استحصال کرتے۔ آج بھی یہی صورتحال جاری ہے۔ گائے کے نام پر ساد ہ لوح ہندوئوں کو بے وقوف بنانے والے مذہبی گروپوں کے ہاتھوں یرغمال بنے وزیر اعظم مودی کے دیس میں روزانہ ہزاروں زیادتی کے کیس سامنے آتے ہیں۔ عورت کو بدترین حالات میں زندگی بسر کرنی پڑتی ہے اسے رونق بازار بنایا جاتا ہے۔ جبھی تو حسن کے مقابلہ کی شریک اس لڑکی نے کھرا سچ بولا کہ اگر وہ وزیر اعظم سے ملیں تو ان کو گائے کی بجائے عورتوں کی رکھشا کرنے کا کہیں گی۔ اس کے جواب میں بجنے والی تالیاں گواہ ہیں کہ اس وقت بھارت میں عورتوں کو تحفظ کی کتنی ضرورت ہے مگر اس طرف مودی کی نظر نہیں جاتی کیوں کہ وہ خود کب سے اپنی ماتا اور پتنی سے علیحدہ من مرضی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
٭٭٭٭
آزادی مارچ سے کنٹینر مالکان اور ٹرانسپورٹرز پریشان
جلسہ ہو ریلی ہو یا جلوس ان تمام صورتوں میں ہمارے ٹرانسپورٹروں کی ہمیشہ چاندی ہوتی ہے۔ وہ منہ مانگے داموں پر سیاسی جماعتوں کو اپنی بسیں گاڑیاں اور ٹرک کرائے پر دیتے تھے۔ پھر جب سے جلائو گھیرائو کی سیاست کا آغاز ہوا تو ٹرانسپورٹر بھی محتاط رہنے لگے۔ مگر دریا میں رہ کر مگرمچھ سے بیر رکھا نہیں جا سکتا۔ اس لیے حکومت ان سے گاڑیاں طلب کرے یا اپوزیشن ان کی جان سولی پر چڑھی رہتی ہے۔ کیونکہ توڑ پھوڑ کا معاوضہ بڑی مشکل کے بعد ملتا ہے۔ کرائے کی مد میں تو چلیں کچھ ایڈوانس ہاتھ آتا ہے باقی بعد میں رو دھو کر قسطوں میں مل جاتا ہے۔ جب سے کنٹینرز کا استعمال سیاسی اجتماعات میں ہونے لگا ہے ایک نیا عذاب عوام کو سہنا پڑ رہا ہے۔ کنٹینروں کا جلوس تو نکلتا نہیں مگر اس کی مدد سے جس طرح سڑکیں بلاک کی جاتی ہیں اس کے تصور سے ہی جھرجھری آتی ہے۔ دیو قامت کنٹینرز سڑک پر کھڑے ہوتے ہیں۔ اس آہنی دیوار کو پار کرنا مشکل ہو جاتا ہے ۔ سڑکیں ٹریفک کے لیے بند ہوں تو لوگ کیا اڑن طشتریوں پر یا ڈرون پر سفر کریں گے۔ اب بھی اطلاع ہے کہ حکومت نے اپوزیشن مارچ روکنے کے لیے سینکڑوں کنٹینرز منگوا لیے ہیں جو اسلام آباد کو ہی محاصرہ میں نہیں لیں گے لاہور، کراچی، کوئٹہ ، پشاور سمیت اہم قومی سڑکیں بھی عملاً ان کنٹینروں کی وجہ سے بلاک ہو جائیں گی۔ اب یہ عوام کا فرض ہے کہ وہ 31 اکتوبر کے دھرنے کے دن اس سے دو دن اور پہلے اور دو دن بعد اپنی مصروفیات کنٹینروں کی بندش دیکھ کر ترتیب دیں تاکہ زحمت نہ ہو۔
٭٭٭٭
امریکہ میں چور باغ کے سیب چرا کر لے گئے
دنیا بھر میں چوریاں ہوتی ہیں۔ بس شاطر چور تو آنکھ کا کاجل تک چرا لے جاتے ہیں۔ ورنہ عام طور پر چور قیمتی سے قیمتی چیز پر ہاتھ صاف کرتے ہیں۔ کہانیوں، افسانوں اور تحقیقاتی کتابوں کو ٹٹولیں تو بے شمار قیمتی اشیاء اور نودرات کی چوریوں کی داستان طلسم ہوشربا بن کر سامنے آتی ہے۔ چوری کا شغل دور قدیم سے ہی انسانوں کا پسندیدہ رہا ہے۔ ادب کی دنیا میں داخل ہوں تو دنیا بھر کے ادب میں دل چوری کرنے کی وارداتیں عام ہیں۔ اکثر کہانیوں افسانوں اور شاعری تک میں دل کی چوری پر اتنا کچھ لکھا جا چکا ہے۔ اگر ان کو ترتیب دینے کی کوشش کی جائے تو کئی ہزار کتابیں منصہ شہود پر آ سکتی ہیں جن کے رکھنے کے لیے ایک علیحدہ لائبریری درکار ہو گی۔ امریکی ریاست مشی گن میں چوروں نے ایک عجب واردات کر ڈالی ہے۔ وہاں چور ایک باغ سے 7 ہزار پونڈ سیب چرا کر لے گئے۔ جن کی مالیت 15 سے 25 ہزار ڈالر ہے۔ اب یہ تو نہ سونے کے سیب تھے جو چشم زدن میں کنگال کو لاکھ پتی بناتے نہ جادوئی سیب کہ جن کے کھانے سے بیٹا پیدا ہوتا ہے۔ خدا جانے ان چوروں نے باغ کے مالک کو کنگال کرنے کے لیے یہ واردات رچائی یا انہوں نے سیب کا مربہ بنانے کا دھندا شروع کیا ہوا ہے اور اس کے لیے یہ سیب لے گئے ہیں۔ اب مشی گن میں انتظامیہ کو چاہئے کہ وہ سیب کے اس سیزن میں سیبوں کے باغات کی خصوصی حفاظت کا بندوبست کرے ورنہ کہیں باقی چور بھی یہی دھندا شروع کر دیں۔
٭٭٭٭