رہبرِ ترقی و کمال
مولانا ہی تھے جنہوں نے مشرف کو باوردی صدر برقرار رکھنے کے لیے اپنی پارلیمانی طاقت کا بھرپور استعمال کیا۔ مولانا آج اسٹیبلشمنٹ کے خلاف لڑنے والی قوتوں کا استعارہ بن چکے ہیں۔ نواز شریف کی حمایت کے بعد پیپلز پارٹی پر بھی دبائو بڑھ گیا ہے کہ وہ بھی کسی نہ کسی شکل میں مولانا کے ساتھ کھڑی ہو۔ کراچی میں پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کے درمیان ماحول خراب ہوا ہے۔ ایم کیو ایم کو اپنی ناقص بلدیاتی کارکردگی کے باعث اب 2 ریاستی جماعتوں سے مقابلے کا سامنا بھی ہو گا۔ کے پی میں اے این پی نے جے یو آئی کے ساتھ مکمل اتحاد کا اعلان کیا ہے۔ صوبے میں بیورو کریسی کی ٹال مٹول اور حیلے بہانے بھی حکومت کے لیے دردِ سر بنے ہوئے ہیں۔ حکومت کی پریشانی بڑھتی جا رہی ہے۔ جنوبی پنجاب کے لیے سول سیکرٹریٹ کے قیام کا وعدہ بھی تشنہ تکمیل ہے ۔ شاہ محمود قریشی نے جنوبی پنجاب کے حقوق کا نعرہ لگا کر تحریک انصاف کی کشتی کی سواری کی تھی۔ اب اپنے حلقے اور ووٹروں سے چھپتے پھر رہے ہیں۔ بلوچستان میں بھی احتجاجی لہر صاف دکھائی دے رہی ہے۔ آزادی مارچ کی تیاریاں زور شور سے جاری ہیں۔ بلوچستان حکومت مولانا کے احتجاج میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالے گی۔ کے پی حکومت مالی بحران کا شکار ہے۔ بنکوں نے مزید قرضہ دینے سے معذرت کر لی ہے۔ تاجروں نے 29,30 اکتوبر کو ملک گیر شٹر ڈائون ہڑتال کا اعلان کر رکھا ہے۔ عمران خان کے نزدیک ڈیزل کے بغیر چلنے والی یہ پہلی اسمبلی ہے یہ تو واقعی معجزہ ہے کہ ڈیزل کے بغیر بھی اسمبلی چلنے لگی۔ ایسی اسمبلی عمران خان کی ایجاد ہو سکتی ہے۔ وزیر اعظم کو شکوہ ہے عوام ٹیکس نہیں دیتے۔ اگر ایسا ہے تو پھر بجٹ کیسے کیسے بنتا ہے۔ ملک کیسے چل رہا ہے سٹیٹ بینک کے نزدیک معاشی سست روی سے خدشات پیدا ہو رہے ہیں۔ گورنر سٹیٹ بینک کو خوش فہمی ہے۔ مہنگائی چند ماہ میں کم ہونے کی توقع ہے۔ پاکستان ایشیا میں سب سے زیادہ شرح سود کے حامل ممالک میں شامل ہے۔ کامیاب جوان پروگرام کے تحت 100 ارب کے قرضے د ئیے جائیں گے گویا اب بے روزگار بھی مقروض ہو جائیں گے۔ مولوی صاحبان محدود مقاصد کے علاوہ کچھ زیاد ہ حاصل نہیں کر سکتے۔ 2014 ء کا دھرنا نواز شریف کو سبق سکھانے کے لیے تھا جو وہ نہ سیکھ سکے۔ ان کے دماغ میں ان تینوں ادوار میں بھاری مینڈیٹ سمایا رہا۔ طاہر قادری بھی دھرنے کا ایک کردار تھے۔ اپنی ساکھ بنانے کی بجائے کھو ڈالی۔ پاناما پیپرز نے نواز شریف کو زوال کی طرف دھکیل دیا اور عمران خان کا ستارہ ساتویں آسمان پر پہنچا دیا۔ مولانا کے دھرنے کی تہہ سمندر کی طرح گہری ہے۔ ایک صفحے پر ہونا ہی سب کچھ نہیں اہل اور نااہل میں مساوات نہ ہو تو بات نہیں بنتی ۔ کیا ہماری پارلیمنٹ ، جمہوری سیاسی جماعتیں میڈیا سب دکھاوے کا ہے۔ سیاستدان حد میں رہتے کرپشن کی حدیں نہ پھلانگتے تو آج کوٹ لکھ پت اور اڈیالہ میں نہ ہوتے۔ مولانا جانتے نہیں کہ 10 لاکھ لوگ بے روزگار ہیں اور 40 لاکھ غربت کی نچلی سطح تک چلے گئے ہیں۔ مولانا کے اہداف کچھ ظاہری اور کچھ باطنی ہیں۔ وہ اس تگ و دو میں ہیں کہ اسمبلی تحلیل ہو جائے ۔ دوبارہ انتخابات ہوں جو انہیں ایوان میں لے آئیں۔ کچھ ملے نہ ملے کشمیر کمیٹی کی چیئرمین شپ کے بدلے منسٹر انکلیو میں گھر اور جھنڈے والی گاڑی اور سرکاری گارڈ مل جائیں وہ اپنے ذاتی گراف کو اونچا لیجانا چاہتے ہیں جیسے طاہر القادری نے دھرنے میں کفن منگوا کر بھونڈی کوشش کی تھی۔ دشمن ایسے ہی اداکاروں پر ڈالر نچھاور کر رہے ہیں۔ دھرنوں اور مارچ سے پاکستان میں حکومت نہیں گرتی طالع آزمائوں کو موقع ملتا ہے قاہرہ کی مثال سامنے ہے۔ انارکی اور انتشار پھیلا کر بھی ہاتھ خالی رہیں گے۔ اس وقت Confusion کنفیوژن کے سوا کچھ دکھائی نہیں د ے رہا۔ پٹرولیم مصنوعات کی درآمد 46 فیصد جبکہ کاروں کی سیلز 39 فیصد گھٹ چکی ہے۔ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کو ہمارے بے روزگاروں سے کیا ہمدردی ہو گی یہ سود خور ادارے ہیں سود خور تو گھر کا سامان بکوا دیتا ہے۔ رضا باقر کے منہ سے سچ نکل گیا کہ زلزلوں کی طرح ابھی مہنگائی کے اور جھٹکے لگیں گے جیسے ہر بجٹ کے بعد آفٹر شاکس آتے رہتے ہیں۔ اس وقت تو ملین ڈالر سوال Confusionکنفیوژن سے نکلنے اور نکالنے کا ہے۔ ہر طرف مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ کا چرچا ہے۔ دھرنے لاک ڈائون نئی اصطلاحات نہیں جس طرح ملک میں سرکاری اداروں کی مختلف ناموں سے بھرمار ہے۔ وزارتیں، ڈویژنیں، اتھارٹیاں، کمیشن ، بورڈ، ٹاسک فورس ، کمپنیاں، کارپوریشن، کمیٹیاں وغیرہ وغیرہ مولانا کیا چاہ رہے ہیں۔ صرف عمران خان کو ہٹانا خود تو وہ کبھی عمران کی کرسی پر نہیں بیٹھ سکتے البتہ کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے کی ضد پر اڑے ہیں۔ لوگ آمرانہ صدارتی پارلیمانی جمہوری غرضیکہ ساری دیگوں کا ذائقہ چکھ چکے ہیں۔ رہ گیا اسلامی نظام، اس کی بھی تو حدود و قیود ہوں ۔ صدر نہ سہی امیر المومنین کا عہدہ سامنے آ جائے گا۔ سارے مومنین ہوں گے تو کوئی امیر سامنے آئے گا۔ مولانا کا حلقہ اثر کے پی اور بلوچستان میں ہے مولانا اسلام کے غلبے کی بات کریں اسلام آباد پر غلبے کی نہیں ۔ کاش طاہر القادری بھی سیاست کے کیچڑ سے خود کو لت پت نہ کرتے تو وہ آج پاکستان کے بلامبالغہ خودساختہ نہیں بلکہ سچ مچ کے شیخ الاسلام ہوتے حکمران اُن کے مشوروں کے محتاج ہوتے، پاکستان کے عوام ہی نہیں حساس اہل فکر بھی علماء کے کردار سے مطمئن نہیں۔ یہ عقیدے مسلک کو بالائے طاق رکھ کر دل سے ایک ہو جائیں تو ان س ے بڑی کوئی قوت نہیں۔ فروعیات نے انہیں پارہ پار رکھا ہے ، کیا سرکارِ دو عالمؐ کے دور اور خلفائے راشدینؓ کے عہد میں مساجدیں مختلف ناموں سے موسوم تھیں۔ یہ کونسے فرمانِ رسولؐ کی پیروی ہے نعت خوانی قوالی مرثیہ خوانی سننے سے کونسی قیامت آ جاتی ہے۔ ساری دینی جماعتیں اپنی عدم مقبولیت پر غور کریں، جلسے جلوسوں میں مولوی سب سے آگے رہے لیکن پارلیمنٹ میں کبھی بالادستی حاصل نہ کر سکے۔ مولانا تو اپنی سیٹ بھی گنوا بیٹھے اسی طرح طاہر القادری کو بھی پارلیمنٹ میں بیٹھنا نصیب نہ ہوا۔ علما پیچھے کیوں رہ جاتے ہیں کون کب سیکھے گا ایسا نہ ہو دیر ہو جائے اور سب ہاتھ ملتے رہ جائیں۔صفواد چودھری کہتے ہیں کہ عوام حکومت سے نوکریاں نہ مانگیں۔ اُن کے خیال میں روزگار دینا حکومت کا نہیں نجی شعبے کا کام ہے۔ سرکار صرف ماحول پیدا کرتی ہے۔ وفاقی وزیر نے انکشاف کیا 400 محکمے بند کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ ادھر آئی ایم ایف ہمارے حوصلے مزید پست کر رہا ہے اس کے نزدیک عالمی معاشی صورتحال نازک ہے۔ پاکستان کی شرح ترقی اور مہنگائی برقرار رہے گی۔ اگلے سال بے روزگاری میں معمولی اضافہ ہو گا۔ فواد چودھری کی نظر میں حکومت روزگار دلانے میں لگ جائے گی تو معیشت برباد ہو جائے گی۔ عمران خان نہ ہوتے تو پاکستان کا دیوالیہ ہو چکا ہوتا۔ پی پی ، ن لیگ نے نوکریوں کی بندربانٹ سے اداروں کو تباہ کیا۔ پاکستانی ماہرین کی نگاہ میں آئی ایم ایف کی شرائط غیر منصفانہ ہیں۔ لاکھوں افراد بے روزگار ہوں گے۔ عمران خان کے سعودی عرب سے مثالی تعلقات ہیں۔ وہ بیرن ملک نوکریوں کا بھی بندوبست کر سکتے ہیں۔ ایف بی آر کی تلوار نیام میں رکھنے کا حکم دینے اور نیب کو نیند کی گولی دینے سے سرمایہ تجوریوں سے باہر آئے گا۔ شبر زیدی ، رضا باقر اور حفیظ شیخ نے آسانیاں پیدا کی ہیں یا تاجروں سرمایہ کاروں کے سروں پر تلواریں لٹکا دی ہیں۔ بیورو کریسی کا بنایا ٹیکس گوشوارہ تو پڑھا لکھا مشکل سے سمجھ پاتا ہے۔ سارا نظام انسپکٹروں اور وارڈنوں کی گرفت میں ہے۔ یہی بڑے صاحبان اختیار کے کار خاص ہیں۔ سڑکوں پر حکمرانی وارڈنوں اور بازاروں مارکیٹوں میں حکمرانی انسپکٹروں کی ہے۔ انسپکٹروں کی ایک درجن سے زیادہ قسمیں ہیں فوڈ، کسٹم، پولیس انسپکٹر بڑے لوگ ہیں۔ انکم ٹیکس انسپکٹر تو ایف بی آر کا کرائون پرنس ہوتا ہے۔ ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کے خلاف کریک ڈائون کی خبر کوئی خبر نہیں ۔ معمولی ریڑھی والے سے لے کر بڑے سے بڑے بزنس مین تک ہر کوئی صارفین کا استحصال کر رہا ہے۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی طرف سے ہمیں بلیک لسٹ میں ڈالے جانے کے خطرات بڑی حد تک کم ہو گئے ہیں۔ ایف اے ٹی ایف کے مطابق امریکہ، برطانیہ، سعودی عرب، چین ، ملائیشیا اور یورپی ممالک سمیت 15 ممالک سے دہشت گردوں کو پیسہ مل رہا ہے۔ 18 دہشت گرد تنظیمیں ایسی ہیں جو پاکستان میں غیر ریاستی عناصر کو مالی معاونت فراہم کر رہی ہیں۔ ایف اے ٹی ایف کی خفیہ دستاویز کے مطابق جماعت الدعوۃ کی 150 جائیدادیں ضبط کی گئی ہیں۔ پاکستان کو گرے لسٹ سے نکلوانے کے لیے چین ترکی اور ملائشیا پاکستان کے ساتھ ہیں۔ عمران خان پر ان کے مخالف بھی کرپشن کا الزام نہیں لگا سکتے لیکن ان کے خیر خواہ بھی ان کی ٹیم سے مطمئن نہیں۔ تنقید کی زد میں سب سے زیادہ وسیم اکرم پلس ہیں۔ عمران خان کی خواہش 500 کرپٹ افراد کو جیلوں میں ڈالنے کی ہے لیکن یہ لسٹ کون مرتب کرے گا۔ کرپٹ تو درجہ بدرجہ سرکار کے ہر محکمے میں موجود ہیں۔ رشوت دینے والے تو عوام ہیں جو جانتے ہیں کہ فلاں دفتر میں کون ہے جو رشوت کے بغیر نظر اٹھا کر سائل کی طرف نہیں دیکھتا۔ کیا آزادی مارچ حکومت کے لیے بڑا چیلنج ثابت ہو سکتا ہے؟ تبدیلی کا خواب دیکھنے والے عوام مہنگائی کے ہاتھوں لاچار ہیں۔ مذاکرات کے لیے حکومت تیار، مولانا کا انکار حالات کو کدھر لے جائے گا اب تو عدالت بھی کہہ چکی ، غیر مسلح پرامن احتجاج ہر شخص کا آئینی حق ہے جسے کوئی عدالت ختم نہیں کر سکتی۔ شہریوں کے حقوق کا تحفظ ریاست کا کام ہے۔ وفاقی وزیر تسلیم کر رہے ہیں ڈالر کی مانگ کم ہونے تک مہنگائی کم نہیں ہو سکتی۔ 400 محکموں کی ممکنہ بندش بے روزگاری کا طوفان لے کر آئے گی۔ ایک کروڑ نوجوانوں کو نوکریاں دینے کا وعدہ کہاں ہے؟
٭…٭…٭