سیاست میں سنجیدہ طرز عمل کی ضرورت
مسلم لیگ ق کے سربراہ چودھری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ موجودہ سیاسی بحران کو سنجیدگی اور افہام و تفہیم سے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، بعض لیڈر اور صاحب اقتدار لوگ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو بنے صرف پانچ،چھ سال ہوئے ہیں۔لاہور میں سابق چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار، میاں منظور وٹو، احمد شجاع وٹو اور فیصل صالح حیات نے چودھری شجاعت حسین سے ملاقات کی اور موجودہ سیاسی بحران کے حل میں اپنا کردار ادا کرنے کا مشورہ دیا۔چودھری شجاعت کا کہنا تھا کہ جو لوگ پاکستان کی تاریخ سے لاعلم ہیں، انہیں چاہیے کہ تاریخ کا علم حاصل کریں اور دیکھیں پہلے کون کیا تھا اور اب کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ بعض سیاسی لیڈروں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن اور حاصل بزنجو کے والد کانام کیا ہے، ایسے لوگ کیا مذاکرات کریں گے۔
اس امر میں کوئی دو آراء نہیں ہیں کہ مولانا فضل الرحمان نے ملک کو جسی سیاسی بحران میں دھکیل دیا ہے وہ انتہائی تشویش ناک اور سنگین صورت حال پیدا کرنے کا موجب بن سکتا ہے، لیکن حکومت کی جانب سے اس معاملے کو آج تک سنجیدگی سے نہیں لیا گیا اس میں صرف وزراء کا ہی قصور نہیں ہے بلکہ خود وزیراعظم عمران خان نے گذشتہ روز ’’کامیاب نوجوان پروگرام‘‘ کے افتتاح کے موقع پر ایک بار پھر کہہ دیا کہ موجودہ اسمبلی ڈیزل کے بغیر چل رہی ہے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ وہ مولانا فضل الرحمان کے لوگوں کو بھی قرض دیں گے اگر وہ مستحق ہوئے تو، حالانکہ اس مرحلے پر نہ صرف عمران خان بلکہ ان کی پوری جماعت کو مولانا فضل الرحمان کی جانب سے احتجاج کی کال کو سنجیدگی سے لینا چاہئے تھا لیکن حکومتی وزراء کی غیرسنجیدہ بیان بازی نے مولانا فضل الرحمان کے احتجاج کو اہم مقام پر لاکھڑا کیا اگر حکومتی ارکان اس میں دخل در معقولات کے بجائے اپنے اپنے فرائض کی ادائیگی پر توجہ دیتے اور صرف متعلق وزیر ہی سنجیدگی سے بیان دیتے تو یہ مسئلہ اتنا سنجیدہ نہ ہوتا جتنا کہ اس وقت ہوگیا ہے۔ اب حکومتی وزراء کی غیر سنجیدگی اور بلا وجہ کی بیان بازی نے مولانا فضل الرحمان کو بھی غصہ دلا دیا ہے اور انہوں نے پشاور میں جمعیت طلبہ اسلام کی گولڈن جوبلی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے واضح کردیا ہے کہ حکومت پہلے استعفیٰ دے پھر بات ہوگی، اگر حکمرانوں نے ہماری بسوں کو روکا تو ہم اونٹوں، گھوڑوں، پیدل اور رکشوں میں اسلام آباد پہنچیں گے ،چاہے دوماہ ہی کیوں نہ لگیں، کہاں ریاست مدینہ اور کہاں یہ شکلیں؟ ملک میں بے حیائی اور فحاشی کا بازار گرم ہے، کاروباری طبقہ پریشان، فیکٹریاں بند اور عام آدمی گھر کا راشن خریدنے کے قابل نہیں رہا، بھارت دشمن، چین اور ایران ناراض ، پڑوس میں بھی ہم تنہا ہیں،ملک میں کٹھ پتلی حکومت ہے جس کے پیچھے ایسٹیبلشمنٹ ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 27 اکتوبر کو کشمیری عوام سے اظہاریک جہتی مناتے ہوئے قافلے نکلیں گے اور 31 اکتوبر کو اسلام آباد میں داخل ہوں گے، حکمران ہمارے رضاکاروں کے ڈنڈوں سے خوف زدہ کیوں ہیں؟ انہوں نے کہاکہ حکومت کے ساتھ کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے، حکومت پہلے استعفیٰ دے پھر بات ہوگی ، ملک میں جمہوریت نہیں بلکہ کٹھ پتلی حکومت ہے جس کے پیچھے اسٹبلشمنٹ ہے۔
مولانا کے موقف میں کوئی حقیقت نہیں مثلا انہوں نے ہمسایوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ چین اور ایران ناراض ہیں یہ درست نہیں کیونکہ نہ تو چین ناراض ہے نہ ہی ایران بلکہ وزیراعظم عمران خان نے ایران اور سعودی عرب کشیدگی میں کمی کے لئے جو کوشش کی ہے اس پر ایران بھی خوش ہے اور سعودی عرب بھی جبکہ چین بھی عمران خان کی عالمی حکمت عملی پر بہت خوش اور مطمئن ہے اور صرف چین پر ہی منحصر نہیں بلکہ اس وقت دنیا بھر میں اگر عمران خان کی پذیرائی ہورہی ہے تو وہ ان کی دیانت داری پر ہی ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان کے اعتراضات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں لیکن صرف حکومتی وزراء کے بچگانہ اور غیر سنجیدہ بیانات کی وجہ سے مولانا فضل الرحمان کے اعتراضات اہمیت اختیار کرگئے ہیں۔ اصل میں اگر حکومت کو مذاکرات ہی کرنا تھے تو شروع میں ہی سنجیدگی سے کام لیا جاتا اور مذاکرات کی کوشش کی جاتی تو شاید بات بن ہوجاتی لیکن اس وقت حکومتی وزراء میں سے کسی نے کہا کہ وہ انہیں ایسا بٹھائیں گے کہ یہ اٹھنے کے قابل نہیں رہیں گے، کسی نے کہا کہ صوبہ خیبر پختونخوا سے باہر نہیں نکلنے دیں گے، کسی نے کہا کہ آئو انہیں کنٹینر بھی دیں گے اور کھانا بھی، غرض جتنے منہ تھے اتنی ہی باتیں کی گئیں جن سے مولانا کو غصہ آگیا ہے اور اب وہ جو کچھ بھی کر رہے ہیں صرف عمران خان کی دشمنی میں کررہے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ عمران خان کا استعفی مانگ رہے ہیں پی ٹی آئی کی حکومت سے انہیں بظاہر کوئی اختلاف نہیں ہے۔
اس ضمن میں چوہدری شجاعت حسین کی بات بھی درست ہے کہ ان سے ایسے افراد مذاکرات کے لئے کوشاں ہیں جنہیں ان کے والد کا نام بھی معلوم نہیں، کیونکہ مذاکرات کے لئے اس شخص کے حوالے سے اتنی معلومات ہونا ضروری ہیں کہ اس کا تعلق کس قبیلہ سے ہے اور ان کے کیا خیالات تھے، تبھی وہ اس انداز میں مذاکرات کرسکتے ہیں کہ جن میں کامیابی کے امکانات ہوں۔ بہرحال وزیراعظم عمران خان کو چاہئے کہ مولانا سے سنجیدگی سے مذاکرات کر یں، اور مختلف سرکاری تقریبات میں ان کے حوالے سے کنٹینر پر بولے گئے الفاظ نہ دہرائیں، علاوہ ازیں عمران خان اپوزیشن قائدین سے ہاتھ ملانے کے بھی روادار نہیں ہیں سیاست میں یہ رویہ مناسب نہیں ہوتا، سیاست میں انسان کو بعض اوقات بدترین مخالف سے بھی ہاتھ ملاناپڑتا ہے، اس لئے عمران خان اس ضمن میں بھی اپنے روئیے میں مثبت تبدیلی لاتے ہوئے اپوزیشن کو اس کا حقیقی مقام دیں اور ان سے ہاتھ بھی ملائیں اور مذاکرات بھی کریں اس رویہ سے اسمبلی کا اجلاس کامیابی سے چاہنے لگے گا اور قانون سازی بھی شروع ہوجائے گی جو اس وقت مکمل طور پر بند ہے اور حکومت کو ضروری اقدامات کے لئے آرڈی نینس کا سہارا لینا پڑ رہا ہے جو ظاہر ہے کہ جمہوریت میں اہمیت کے حامل نہیں ہوتے۔
علاوہ ازیں وزیراعظم میں کامیاب نوجوان پروگرام میں نوجوانوں کو بلا سود یا کم شرح سود پر قرض دینے کے لئے سو ارب روپے مختص کئے ہیں، وزیراعظم کے کامیاب نوجوان پروگرام کی اہمیت اپنی جگہ لیکن اس سے بہتر تھا کہ عمران خان یہ سو ارب روپے پٹرول، سبزیوں اور دالوں میں سب سڈی دے کر ان کی قیمتوں میں پچاس فیصد تک کمی لاتے تاکہ غریب عوام دو وقت کی روٹی کھانے کے قابل ہوجاتے، اس طرح ان کے مخالفوں میں اضافہ نہ ہوتا جب کہ اب ان کے حامیوں کی تعداد میں فی الحقیقت تیزی سے کمی واقع ہورہی ہے جو ظاہر ہے کہ کوئی نیک فال نہیں ہے۔ اور اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آج اگر مولانا فضل الرحمان کا آزادی مارچ حکومت کے لئے ایک چیلنج بنا ہے تو اس کی بنیادی وجہ بھی گرانی ہے کہ گرانی اس کی وجہ سے عوام پہلے ہی احتجاج پر مائل ہورہے تھے اب انہیں ایک موقعہ مل رہا ہے تو وہ اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے کہ کسی طرح ان کی جان اس ناقابل برداشت گرانی سے چھوٹ جائے۔ بہرحال ابھی وقت ہاتھ سے نہیں نکلا، عمران خان ان بگڑے ہوئے حالات کو ابھی بھی سنوار سکتے ہیں اس کے لئے انہیں چاہئے کہ ایک تو خود بھی سنجیدہ ہوں اور خطاب کرتے وقت خود کو کنٹینر پر محسوس کرنا ترک کرکے اقتدار میں وزارت عظمیٰ کے منصب پرفائز تصورکریں، نیز ہر کام کے لئے مستحق افراد کو منتخب کریں اب مولانا فضل الرحمان سے مذاکرات کے لئے بہترین انتخاب چوہدری شجاعت حسین ہوسکتے ہیں، مذاکراٹی ٹیم کے انتخاب کی ذمہ داری بھی انہی کو سونپ دیتے تووہ بہتر افراد کا انتخاب کرکے مذاکرات کا آغاز کرتے جو یقینا موثر ثابت ہوتا، بہر حال اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ وزیر دفاع پرویز خٹک اور اعظم سواتی بھی موزوںشخصیات ہیں کہ انہوں نے کسی سے بلاوجہ کے اختلافات مول نہیں لئے بہرحال اب دیکھنا یہ ہے کہ آزادی مارچ کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اور احتجاج کی بیل منڈھے چڑھتی ہے یا نہیں۔
٭…٭…٭