ایک ٹن سونے کے زیورات اور سو ایکڑ کا گھر
کیاعمران خان کے طاقت والوں کے ساتھ تعلقات میں گرمجوشی نہیں رہی؟ آج کل ہر جگہ یہی ایک سوال زیر بحث ہے۔ کہنے والے بڑے رازدارانہ انداز میں کہتے ہیں کہ ان تازہ دھرنے والے مولویوں کوفوجی شہداء کیلئے مختص رقبہ سے نوازا گیا تھا۔ تعلقات اور دوستیاں سانس کی طرح ہوتی ہیں۔ سانس آتی رہے تو سب کچھ ہے ۔ رک جائے تو کچھ بھی نہیں۔ ایک سوال پاکستان کے ابتدائی دنوں میں ہی سامنے آگیا تھا۔ پوچھا گیا۔ کیا یہ ملک اسلئے حاصل کیا گیا ہے کہ یہاں افسر انگریز ہی رہیں؟ پوچھنے والا نوجوان فوجی افسرمعترض تھا کہ سب انگریز افسروں کو فارغ کیوں نہیں کر دیا گیا۔ بابائے قوم کا جواب بہت واضح تھا۔ فرمایا۔ پالیسی بنانا ہم سویلین کا کام ہے ۔ہمارے احکامات کی تعمیل آپ کا فرض ہے ۔ سوال کا جواب مل گیالیکن معاملہ ختم نہ ہوا۔ دیکھئے ۔ دو بھائی ہیں۔ ایک کے ہاتھ میں بندوق ہے اور دوسرا خالی ہاتھ ۔ بندوق والا چاہے عمر میں چھوٹا ہو ، وہ خود کو چھوٹا نہیں سمجھے گا۔ دوسرے بھائی کی ساری طاقت پاکیزگی ، دیانت اور اخلاقی قوت میں ہے ۔ البتہ بندوق والا اس اخلاقیات کے بغیر بھی طاقتور ہے ۔ بدقسمتی سے حضرت قائد اعظمؒ کے جانشین اخلاقی محاذ پر بہت کمزور نکلے ۔ وہ اپنے بندوق والے بھائی کی آنکھ میں آنکھ ملا کر بات کرنے ’’جوگے‘‘نہ رہے ۔ پھر ان میں اتنی بے بسی آئی کہ وہ اک فوجی سربراہ کو وزیر دفاع بنانے پر بھی مجبور ہو گئے ۔ گویا افسری اور ماتحتی ایک خاکی پتلون کی جیب میں پہنچ گئی۔ مہذب ممالک اپنی خفیہ سرکاری خط و کتابت تیس برس بعد عوام کیلئے اوپن کر دیتے ہیں۔ قیوم نظامی نے اچھا کیا کہ امریکی اور برطانوی سفارتخانوں کی خفیہ دستاویزات اردو ترجمہ کر کے کتابی صورت میں شائع کروا دی ہیں۔ آپ کو اس کتاب میں سے ایسے جملے پڑھنے کو ملیں گے ۔ ’’فوج کے سربراہ جنرل ایوب خاں نے بتایا کہ اس نے پاکستان کے سرکردہ سیاستدانوں سے کہا ہے کہ انہیں ذہنی طور پر دل کی گہرائیوں سے مغرب کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کر لینا چاہئے ۔ اس نے کہا کہ پاک فوج سیاستدانوں کو اپنی گرفت سے نکلنے کی اجازت نہیں دے گی ۔ جنرل ایوب نے کہا کہ پاک فوج سیاستدانوں یا عوام کو یہ ملک تباہ نہیں کرنے دے گی ۔ ۔۔۔۔۔جنرل ایوب خاں نے کہا کہ فوج سیاست میں مداخلت کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی مگر فوج یہ بھی نہیں چاہتی کہ معاملات اس کے ہاتھ سے نکل جائیں۔ اس نے کہا کہ فوج پاکستان میں استحکام کی ضمانت ہے اور وہ سیاستدانوں کی نان سینس کو قبول نہیں کریں گے ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے جنرل ایوب اور لاہور میں موجود دوسرے سینئر فوجی افسروں سے گفتگو کے بعد محسوس کیا کہ پاک فوج یقینی طور پر سول ایڈمنسٹریشن کے ناکام ہونے کی صورت میں کنٹرول سنبھالنے کیلئے تیار ہے ‘‘۔ پھر انہوں نے 1958ء میں واقعی کنٹرول سنبھال بھی لیا۔ کالم نگار کو ایک سویلین ہونے کے ناطے ’’سیاستدانوں کی نان سینس‘‘ کا لفظ بہت برا لگا۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ کھرا سچ یہی ہے ۔ ہمارے سیاستدان اپنے ذاتی مفادات کے باعث ہندوستان کی طرح جاگیرداری سے نجات حاصل نہ کر سکے ۔اب جاگیرداری سے نجات تو دور کی بات، زرعی ٹیکس کا نفاذ بھی ممکن نہیں۔ لاہور کی ایک پوش بستی میں ایکڑوں پر بنا اربوں روپے مالیت کا محل زرداری کو ایک تاجر نے گفٹ کیا ہے ۔یہ فیاضی ایک سیاسی جماعت کے نظریات سے وفاداری کا نتیجہ نہیں۔ یہ نقد سودا ’اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے ‘ والا خالصتاً کاروباری معاملہ ہے ۔ پھر اپنی شوگر ملیں اٹھا کر جنوبی پنجا ب لیجانے ، جسے جسٹس عائشہ ملک نے غیر قانونی قرار دیا، چونیاں کوٹیکس فری زون قرار دینے سے پہلے ہزاروں ایکڑ رقبہ کی خریداری اور پورٹ پراپنے جہاز پہنچنے کی صورت میں کسٹم حکام سے نئے ایس آر اوجاری کروانا جیسے معاملات ایک حکمران سیاستدان کیلئے انتہائی باعث شرم ہیں۔لیکن اس سے زیادہ شرم کی بات یہ ہے کہ اب اسے محض کاروبار سمجھا جاتا ہے۔ نوابزادہ نصر اللہ خاں کے سیاست میں اٹھائے گئے تمام خسارے ان کے لواحقین نے ایک ہی وزارت میں پورے کر لئے ۔ جھنگ کی جاگیردارنی کی جاگیر کی فی ایکڑ زمین کا سرکاری ٹھیکہ سن کرآپ حیران و پریشان رہ جائیں گے ۔ یوسف رضا گیلانی اور میاں نواز شریف کے گھروں کی سرکاری کھاتے سے بم پروف چار دیواری کی تعمیر کا قانونی جواز بہر حال ہوگا ۔ کیا کوئی اخلاقی جواز بھی ہے ؟بینک قرضوں کی معافی والے حمام میں سبھی ننگے ہیں۔ کراچی کے پوش علاقوں میں محض تیس روپے سالانہ پرپٹرول پمپ کی جگہوں کی لیز کے انکشاف ہو رہے ہیں لیکن گوجرانوالہ کے بزرگ سیاستدان اس سلسلہ میں بھی بہت آگے ہیں ۔ وہ 1985ء سے اپنے پٹرول پمپ کا سالانہ ایک روپیہ بھی نہیں دیتے رہے۔ دوسری جانب فیس بک اوٹ پٹانگ معلومات سے بھری رہتی ہے ۔ تازہ خبر آئی ہے کہ آسٹریلیا میں پاک فوج کے ایک سابق سربراہ کے خریدے ہوئے جزیرے کی قیمت ساڑھے چار ارب روپے نہیں ، ڈالر ہے ۔سرکار اس کی تردید کرے یا کوئی کاروائی ، خاموشی بہر حال مناسب نہیں۔ اور سنیے ! گوجرانوالہ میں ایک رفاعی ادارے کے اجلاس میں ایک ریٹائرڈ میجرجنرل خطبہ صدارت میں اپنی علمیت بگھارنے پر اتر آئے ۔’’ فرمانے لگے‘‘۔ ذاتی استعمال کیلئے ایک ٹن سونے سے بنے ہوئے زیورات اور ذاتی استعمال میں سو ایکڑ کے گھر پر کوئی زکوٰۃ نہیں۔ کالم نگار چپ نہ رہ سکا۔اٹھ کر ہاتھ جوڑ کر عرض کی ۔ حضور! بیگم صاحبہ کیلئے جتنے چاہے سونے کے زیورات رکھیئے، جتنے سو ایکڑوں کا چاہے گھر بنایئے ، لیکن ہمیں نہ بتایئے ، ہم بے گھروں ،فاقہ مستوں سے یہ سنا نہیں جاتا ۔
؎ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے بہت لا دوانہ تھے
اب رہی تحریک انصاف؟ یار زندہ صحبت باقی۔