بچوں سے زیادتی میں اضافہ ....لمحہ فکریہ
بظاہر تو سب انسان نظر آتے ہیں لیکن حرکتیں درندوں سے بھی بدتر ہوتی جارہی ہیں ۔پہلے شہر قصور چھوٹے بچوںاور بچیوں کے ساتھ زیادتی کے حوالے سے مشہور تھا ‘ پھر اچانک دریائے بیاس کے کنارے آباد چونیاں کا قدیمی شہر قصور سے بھی بازی لے گیا اور وہاں ایک نہیں اکٹھے چار پانچ معصوم بچوں کو اغوا کرکے انہیںزیادتی کا نشانہ بنایا گیا جب اس پر بھی تسکین نہ ملی تو بے گناہ بچوں کو قتل کرکے ان کے جسمانی اعضا کو پرانے شہرکے کھنڈرات میں پھینک دیا ۔جب چیخ و پکار کرتے ہوئے والدین کی آہ زاریاں اخبارات میں شائع ہوئیں تو وزیر اعظم کے حکم پر قصور سمیت چونیاں تھانے میں نئے پولیس آفیسر کو تعینات کرکے تحقیقات کا آغازہوا۔ کئی ہفتوں کی بھاگ دوڑ کے بعدصرف ایک شخص گرفتار ہوا جس کا ڈی این اے مرحوم بچوں سے میچ کررہا تھا ۔اب وہ گرفتار ہونے والا بدبخت شخص کس حال میں ہے کسی کو خبر نہیں۔ہونا تو چاہیئے تھا کہ قانون کے خوف سے بری عادات میں مبتلا انسان توبہ تائب کرلیتے لیکن روزانہ کے اخبارات میں تسلسل سے ایسی منحوس خبریں پڑھنے کو مل رہی ہیں جس پر دل خون کے آنسو رہتا ہے ۔ شاید ہی پاکستان کا کوئی شہر اور قصبہ ایسا ہو گا جہاں بچوں کے ساتھ جرائم کے واقعات رونما نہ ہورہے ہوں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ بطور خاص بچوں کے ساتھ ان جرائم کے واقعات کو روکنا پولیس کے بس کی بات نہیں ‘ کیونکہ فحاشی کے اڈے ‘ ہوٹلوں میں فحش فلموں کی نمائش ‘ بیہودہ سی ڈیز اور منشیات کی کھلے عام فروخت پولیس کی سرپرستی کے بغیر ممکن ہی نہیں ‘ کیونکہ انہیں آٹھ گھنٹے کی تنخواہ دے کرڈیوٹی چوبیس گھنٹے کی لی جاتی ہے۔اس لیے وہ باقی اوقات کار کا معاوضہ جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کرکے پوری کرتے ہیں۔کسی بھی ویڈیو شاپ پرچلے جائیں وہاں80 فیصد فحش فلمیں نہایت سستے داموں میسر ہیں جبکہ ہیجان خیز مناظر سے لبریز انڈین فلموں کے پوسٹر کھلے عام سی ڈی شاپ پر دیکھے جاسکتے ہیں ۔مجال ہے کسی پولیس اہلکار نے ان شاپ پر چھاپہ مارا ہو۔ اور تو اور داتا دربار سے 100بچوں کو اغوا کرکے زیادتی کرنے کے بعد تیزاب کے ڈرموں میں ڈالنے والے درندہ صفت حیوان( جاوید اقبال) کو ہماری پولیس گرفتار نہیں کرسکی تھی اورنہ ہی ہمارا قانون اسے پھانسی کی سزا دے سکا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ایسے واقعات کی روک تھام حقیقی معنوں میں ہو تو ہمیں ایسے تمام عوامل کا ہر ممکن خاتمہ کرنا ہوگا جو جنسی جرائم پھیلانے میں مددگار ثابت ہورہے ہیں ۔دوپہر کے اخبارات بطور خاص فلمی اداکاروں کی نیم عریاں تصویریں اس کثرت سے شائع کرتے ہیں کہ ان کا مطمع نظر خبروں کو عوام تک پہنچانا ہرگز نہیںبلکہ نوخیز بچوں اور نوجوانوں کے ذہنوں میں جرائم کو ابھارکر معاشرے کو درندوں کے سپرد کرنا ہے ۔تمام ورکشاپوں جن میں بائیک ‘ گاڑیاں اور ڈنٹنگ پیٹنگ کا کام ہوتا ہے یا وہ ہوٹل جہاں برتن مانجھنے اور کھانا ‘ چائے کی سپلائی کا کام بچے کرتے ہیں ان تمام جگہوں پر ان چھوٹوں کے ساتھ مزدوری کے ساتھ ساتھ زیادتی کی جاتی ہے یہی چھوٹے جب بڑے ہوتے ہیں تو وہ بھی اپنے ساتھ ہونے والے بدترین سلوک کا انتقام دوسرے بچوں سے لیتے ہیں ۔یہ بھی شنید ہے کہ جیلوںمیں بچوں کو دانستہ بڑے قیدیوں کے ساتھ بند کیا جاتا ہے اور وہاں بھی ایسا ہی سلوک نوخیز بچوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ موجودہ پولیس سے نہ تو جرائم ‘ چوری ڈاکے رک سکتے ہیں اور نہ ہی وہ جگہ جگہ جنسی جرائم اور تشدد کو روکنے میں کامیاب ہوسکتی ہے اس حوالے سے میں یہ تجویز دینا چاہتا ہوں ذوالفقار چیمہ جیسے دیانت دار اور کسی دبائو کو خاطر میں نہ لانے والا کسی پولیس افسرکی سربراہی میں چلڈرن پروٹیکشن یونٹ بنائی جائے اور ان سے ملک گیر رابطے کے لیے یونیورسل نمبر 1133جیسا دیا جائے تاکہ ان سے ہر ضرورت مند رابطہ قائم کرسکے۔ ‘ ان کا کام صرف اور صرف جنسی جرائم اور بچوں کے ساتھ زیادتی کو روکنا ہو۔ جو سزا جنسی جرائم کا ارتکاب کرنے والے مجروموں کو ملے وہی سزا ن سہولت کاروں کو ملے ۔ ایسے بدترین حالات میں بچوں کو سکول بھیجنے اور واپس لانے کا مشکل ترین مرحلہ تمام والدین کو درپیش ہے ۔جو لوگ دفتروںاور کاروبار میں مصروف ہوتے ہیں ان کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنے ہر بچے کو سکول سے لینے کے لیے دفتر سے چھٹی کرسکیں‘اگر وہ کسی رکشے والے یا ویگن ڈرائیور سے بات کرتے ہیں توبچوں کے تحفظ کے خطرات اور خدشات ذہنوں میں اس لیے ابھرتے رہتے ہیں کہ نہ تو رکشے اور ویگنیں والوں کے کردار کو سو فیصد صحیح قرار دیا جاسکتا ہے اورنہ ہی کسی عزیز اقارب کو آجکل کے بدترین حالات میں بچوں کو محفوظ طریقے سے گھر لانے کی ذمہ داری سونپی جاسکتی ہے ۔ان حالات میں نوخیز بچوں کو سکول میں پڑھانااور محفوظ طریقے سے گھر لانا بھی ایک مشکل ترین کام بن چکاہے ۔جس کے سدباب کے لیے اقدامات کی سخت ضرورت ہے۔