خان عبدالقیوم خاں کی باکمال اصلاحات
حضرت قائداعظم کی ہزار کوشش کے باوجود سرخ پوش خان برادران نے پاکستان کو قبول و تسلیم نہیں کیا۔ قیام پاکستان کے وقت پٹھانستان اور پختونخواہ کا بخار طاری تھا ۔قیام پاکستان کے بعد نت نئی سازشوں میں ملوث رہے ۔پاکستان بنے ایک سال بھی نہیں گزرا تھا کہ 12اگست 1948ء کو پشاورکے قریب بابڑہ کے مقام پر ایک زبردست اجتماع کرکے پشاور کی سمت مارچ کا پروگرام بنا۔سرحدی گاندھی کو مسلم لیگ اور مذہبی پارٹیوں سے ہمیشہ اختلاف رہا کہ وہ مذہب کی آڑ میں سیاست کر رہے ہیںمگر قیام پاکستان کی پہلی سالگرہ سے قبل ہی انہوں نے نفاذ اسلام کا ڈھول گلے میں ڈال لیا ۔پروگرام کے مطابق سرکاری دفاتر اور عدالتوں کو ختم کرکے نفاذ اسلام کی راہ ہموار کی جائے گی لہذا صوبائی حکومت نے ردعمل کے طور پر 7اگست کو دفعہ 144کا نفاذ کر دیا ۔12اگست کو ہزاروں افراد پر مشتمل لشکر جب مسجد کی جانب بڑھنے لگا تو پولیس کے روکنے پر پولیس رپورٹ کے مطابق مجمع میں مسلح افراد نے پولیس پر فائر کھول دیا جس کے جواب میں پولیس کو بھی ایسا کرنا پڑا ۔پولیس رپورٹ کے مطابق اس تصادم میں بیس افراد ہلاک اور پچیس زخمی ہوئے ۔بابڑہ فائرنگ کیس ہمیشہ عبدالقیوم خان کے ظالم ثابت کرنے کے ثبوت اور بہانہ اور طعنہ رہا۔ایک مرتبہ خان قیوم نے اس کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ میرے مرنے کے بعد یہ واقعہ انشاء اللہ میری نجات کا سبب ہوگا کیونکہ دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کو بلڈوز کرنے کے ارادے سے جو لوگ نکلے تھے اور میں نے مادر وطن کا دفاع کرتے ہوئے انہیں روکنے کا حکم دیا جس کے نتیجے میں کچھ ہلاکتیں ہوئیں۔خان عبدالقیوم میں بیشمار خوبیوں کے ساتھ یہ خامی تھی کہ کہ میانہ روی کی صلاحیت سے مرحوم تھے ۔ وہ انتہا پسند تھے دوستی دشمنی میں حد سے گزر جاتے جب تک کانگریس میں رہے دن رات اس کے موقف کے لئے کوشاں رہے جب حضرت قائداعظم کے قائل ہوئے تو دل جان سے مسلم لیگ اور قیام پاکستان کے لئے جتے نظر آئے۔ تحریک سول نافرمانی کے دوران مسلم لیگی رہنمائوں کی گرفتاریاں شروع ہوئیں تو خان قیوم کو دفعہ 144کی خلاف ورزی کرنے کے جرم میں مردان سے گرفتا رہو ئے۔اس کے بعد اتنی گرفتاریاں ہوئیں کہ جیلوں میں جگہ نہ رہی ۔صوبہ سرحد مسلم لیگ کی جدوجہد میں خان قیوم کا نمایاں مقام تھا ۔سردار عبدالرب نشتر اور نواب اسمعیل خان نے جیل جا کر خان عبدالقیوم خان سے ملاقات کی ۔1946ء کے انتخابات کے بعد صوبہ سرحد میں ریفرنڈم میں جان جوکھوں میں ڈال کر کامرانی حاصل کی ۔ صوبہ میں مسلم لیگ کی پہلی حکومت کے وزیراعلیٰ بنے ۔نامساعد حالات اور وسائل کی کمی کے باوجود دوسرے صوبوں کے مقابلہ میں تیز ترین ترقی کے منازل طے کئے ۔صوبہ سرحد میں فوری زرعی اصطلاحات کرتے ہوئے جاگیرداروں سے زمینیں چھین کر مزارعین میں تقسیم کیں اورکاشت کاری کے فروغ کے لئے مزید سہولتیں اور رعایتوں کااعلان بھی کیا ۔مردان ،پشاور کے علاقوں میں تمباکو اور گنے کی کاشت کیلئے نتیجہ خیز اقدامات کئے ۔مردان اور تخت بائی کے مقامات پر شوگرملز کا اہتمام کیا ۔ بجلی کی پیداوار کے کئی منصوبے شروع کئے۔1949ء میں نوشہرہ میںچمڑہ رنگنے کے کارخانے کا افتتاح کیا ۔گڑھی حبیب اللہ کی ماچس فیکٹری میں توسیع کرائی گئی ۔موسمی اعتبار سے صوبہ میں پھل دار درختوں کی کاشت کے رقبے میں اضافہ جنگلات کے لئے وسیع رقبہ فراہم کیا گیا یعنی خان قیوم نے ابتدائی دنوں میں مسائل کا سامنا کرتے ہوئے انقلابی اقدامات سے ایک طرف صوبے کی آمدنی میں اضافہ کیا تو دوسری جانب بیروزگاری تعلیم صحت اور عوامی فلاح کے دوسرے منصوبوں میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں ۔صوبہ میں وارسک ڈیم کی تعمیر سے ہزاروں ایکڑ بنجر زمین کو قابل کاشت بنایا ۔ اسی طرح کالجز کا جال ہر ضلع میں ہائی سکول کے ساتھ ساتھ مڈل اور پرائمری سکول قائم کئے ۔عبدالقیوم کا بڑا کارنامہ اسلامیہ کالج پشاور جہاں تحریک پاکستان کے دوران قائداعظم متعدد مرتبہ تشریف لائے ۔وہ کالج جو تحریک کا مضبوط مورچہ اور مسلم سپاہ کا قلعہ تھا اس کو یونیورسٹی میں تبدیل کردیا ۔اس کی تعمیر میں اس حد تک دلچسپی لیتے کہ وزیراعلیٰ جو دن میں پولیس گارڈ کے ساتھ بڑے دبدبے سے شہر میں نظر آتا ۔ رات کی تاریکی میں صرف ڈرائیور کے ہمراہ یونیورسٹی کی تعمیر کاروزانہ معائنہ کرتے ۔خان عبدالقیوم خان بڑے بڑے عہدوں پر رہے مگر زندگی سادہ ۔ شلوار قمیص زیب تن کرتے ۔ سردیوں میں چترالی جبہ او رٹوپی بھی استعمال کرتے ۔ بیمثال منتظم اصولی معاملہ میں سخت گیر۔ اکثر گھریلوآمدن و خرچ میں توازن نہ ہونے پر بیوی ناراض رہتیں ۔ ساری زندگی تنگدستی سے گزر ی مگر دامن پر کرپشن وبدعنوانی کا کوئی داغ نہیں تھا ۔ ان کے ذاتی گارڈ ذاکر خان بتاتے ہیں کہ بیوی کے تندو تیز طعنے سنتے تو خاموش ہوجاتے ۔ کہتے کہ درست کہہ رہی ہے ۔عبدالقیوم خان صوبہ سرحد کے بیدار مغز وسیع نظر انتھک فرزند تھے ۔قائداعظم کے حکم پر عمل کو ایمان کا درجہ دیتے۔دیانت شرافت کو ملحوظ رکھتے ۔1977ء کے الیکشن میں ہارنے کے بعد مسلم لیگ کو پیرپگاروکی مسلم لیگ میں ضم کر دیا ۔آپ نے صوبہ سرحد کی تاریخ اور جغرافیہ پر ایسے سیاسی اور اصلاحی عمل کے انمٹ نقوش چھوڑے جس کا ہم سر کوئی دوسرا نہیں۔