ہماری ثقافت قابل فخر
پچھلے دنوں پردیس سے آنے والے شہزادے ولیم اور شہزادی کیٹ میڈلٹن نے پاکستان کا دورہ کیا۔اس دورے میں انہوں نے پاکستان کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا ۔جہاں وہ محبتوں کے پیغام کو عام کرتے نظر آئے ۔برطانوی کرکٹ ٹیم بھلے پاکستان کو غیر محفوظ سمجھتی رہے مگر برطانوی شاہی مہمانوں نے پاکستان میں جی بھر کے سیر و سیاحت کر کے دنیا کو بتادیا کہ پاکستان ایک محفوظ اور پر امن ملک ہے ,اس مختصر دورے میںشاہی جوڑے خاص کر شہزادی نے خود کو بھی پاکستانی رنگ میں رنگنے کی عملی کوشش کی ۔کہا جاتا ہے کہ فیشن خواتین سے چلتا ہے ۔شہزادی کے پہناوے مکمل طور ہماری ثقافت سے جڑے تھے ۔جہاز سے باہر نکلتے ہی میرے ملک کے ٹی وی چینلز سے لے کر ایک عام گھر کے کچن میں برطانوی شاہی جوڑے کے پاکستانی کپڑوں کے چناو کی باتیں ہونے لگیں ۔کبھی کبھی تو ایسا بھی لگنے لگا کہ شاہی مہمان ہمیں ہماری ثقافت سے روشناس کرانے آئے ہیں ۔ پاکستان میں مرود خواتین کا قومی لباس پوری شلوار قمیض ہے جس سارا جسم ڈھکا رہتا۔مگر بعد میںمردوں کی شلواریں ہمارے مذہبی راہنماوں نے اونچی کروادیں جبکہ آج بہت سی خواتین خود کو ماڈرن ثابت کرنے کے چکر میں گھٹنوں سے بہت اوپر شلوار کم پاجامے پہننے لگی ہیں۔خیر برطانوی شہزادی نے اس خوبصورتی سے پاکستانی لباس زیب تن کیا کہ اب بہت سی خواتین بھی ایسا ہی لباس پہننے کی کوشش کریں گی ۔پاکستان کی ثقافتی اقدار بہت مضبوط اور قابل فخر ہیں مگر کیا کیا جائے کہ ہم بحثیت قوم اپنی اقدار کو بھول کے اغیار کے رنگ میں رنگنے کو ترجیح دے رہے ہیں ۔اسلام آباد جب شاہی مہمان ایک رکشے میں تقریب میںپہنچے تو میرے کمزور سے ذہن میں خیال آیا کہ ہم کیسے لوگ ہیں ۔ہم اپنی ثقافت کا یہ کون سا رنگ پیش کر رہے ہیں ۔کیا یہ بہت اچھا نہ ہوتا کہ شاہی مہمانوں کے لیے کسی تانگے کا بندو بست کر لیا جاتا ۔یقینا رکشے کا انتخاب کرنے والے پاکستانی ثقافت سے باخبر نہ تھے ۔کم از کم وہ یہ ہی کردیتے کہ مہمانوں کے ساتھ میزبان رکشہ چلانے والے’’سیانے‘‘ کو قومی لباس ہی پہنا دیتے ۔شاہی مہمان کیلاش گئے تو ان کے لیے کیلاشی میلا سجایا گیا تو کیا یہ اچھا نہ ہوتا کہ جب انہیں پنجاب کی سیر کرائی جارہی تھی تو انہیں پنجابی ثقافت کے اہم رنگ کسی پنجابی میلے میں لے جایا جاتا ۔کبھی میلے پنجابی ثقافت کا اہم حصہ تھے جنہیں ماضی کے حکمرانوں نے سیکیورٹی رسک کی وجہ سے قریب قریب ختم کروادیا ہے ۔لیکن مہمانوں کو دکھانے کے لیے اگر پنجاب میں کسی میلے کا اہتمام کیا جاتا تو یقینا نئی نسل اپنی ثقافت کے اصل رنگ کو بہتر طور پر سمجھ لیتی ۔
دیکھا جائے توبرصغیر پاک و ہند اور وسطی ایشیاء کی ثقافت متعدد نسلی گروہوں پر مشتمل ہے۔ ۔ابتدائی زمانے سے ہی یہ خطہ برصغیر پاک و ہند، مشرق وسطی اور وسطی ایشیاء کے مرکزی جغرافیائی کمپلیکس کے اندر ایک الگ یونٹ بناچکا ہے، اور ثقافتی پہلوؤں جیسے لباس، کھانا، اور مذہب میں نسلی گروہوں کے درمیان اختلافات پائے جاتے ہیں، خاص طور پر جہاں اسلام سے پہلے کے رواج اسلامی طریقوں سے مختلف ہیں۔ ان کی ثقافتی ماخذ سے دور دراز اور دیسی علاقوں کے اثرات بھی سامنے آتے ہیں۔، بشمول قدیم ہندوستان اور وسطی ایشیائ۔ پاکستان برصغیر پاک و ہند کا پہلا خطہ تھا جہاں اسلام پہلے پہل قدم جمانے میں کامیاب ہوا اور اس طرح مقامی لوگوں کے ساتھ مل کے ایک الگ اسلامی شناخت تیار کی ہے، جو تاریخی اعتبار سے مشرق کے علاقوں سے مختلف ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم اپنے بہت سے ثقافتی رنگ بھول رہے ہیں یا ہمیں بھلائے جارہے ہیں ۔کبھی جب پنجاب میں میلے سجتے تھے تو ان میں لوک گلوکار لوک گیت سناتے۔بھنگڑا,لڈی,سمی اور جھومر ہوتاہو جمالو۔ سندھی رقص,جھمرو دکھایا جاتا۔قوالی اور غزل گائیکی کا فن بھی اب عوامی سے نکل کر صرف چینلز تک رہ گیا ہے ۔جشن بہاران کو بسنت کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، یہ اسلام سے پہلے کا ایک پنجابی تہوار ہے جو موسم بہار کے آنے کی نشاندہی کرتا ہے۔کچھ عرصہ قبل بسنت تہوار تقریبات کا مرکز لاہور میں ہوتا تھااور ملک و بیرون ملک سے لوگ سالانہ تقریبات کے لئے شہر آیا کرتے۔ان دنوں مختلف پہناوے پہنے جاتے ,کھانے بنائے جاتے ,دعوتیں کی جاتیں اور سارے پنجاب میں میلے کا سا سماں ہوتا ۔لیکن پتنگ میں استعمال ہونے والی ڈور نے جب انسانی جان لینی شروع کی تو اس کا حل نکالنے کی بجائے اس کھیل کو ہی ختم کردیا گیا ۔ موسم بہار کی آمد تمام کاشتکاروں کے لئے ایک اہم واقعہ تھا اور اس کا خیرمقدم بہت سی خوشیوں کے ساتھ کیا جاتا ان خوشیوں کا نام جشن بہاران رکھا گیا۔یوں دیکھا جائے تو پاکستانی ثقافت آج بھی اپنے اندر وہ کشش رکھتی ہے کہ نہ صرف ملکی بلکہ دنیا بھر کے سیاح اس کے مداح ہیں ۔اگر ضر ورت ہے تو یہ کہ ہم اپنی ثقافت کو اصل رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کریں ۔کیلاش اور سندور کے میلے سجتے رہیں مگر پنجاب کے میلوں کو بھی سجایا جائے ۔آج کل پنجاب حکومت مختلف پنجابی سیاحتی مقامات کی بہتر تشہیر کر رہی ہے ۔ہمیں بس یہ نقطہ سمجھ لینا ہے کہ اپنی ثقافت سے محبت سے نہ صرف ہم اپنے لوگوں کو بہت سی خوشیاں دے سکتے ہیں بلکہ دنیا بھر سے سیاحوں کی آمد سے ملکی خزانہ بھرنے کی کوشش بھی کرسکتے ہیں ۔